خوشگوار اور ناخوشگوار چند تاثرات
محکمہ تعلیم اپنی نااہلی اور بدعنوانی کے سبب عصری تعلیم کے نجی اداروں کی بھی صحیح طور پر نگرانی نہیں کر رہا۔
برادر خورد جمشید بخاری کے اصرار پر پہلی مرتبہ کسی دینی مدرسے کی تقریب میں شریک ہوا۔ یہ تقریب جامعہ اسلامیہ کلفٹن کراچی کی ذیلی تنظیم مجلس صوت الاسلام کے تحت اسلام آباد میں منعقد کی گئی تھی۔
یہ تنظیم ملک بھر کے دینی مدارس کے طلبا کی فکری تربیت کے لیے ان کے درمیان مختلف نوعیت کے مقابلے کراتی رہتی ہے۔ اس مرتبہ ملک کے مختلف شہروں میں ہونے والے تقریری مقابلوں کا گرینڈ فنالے اسلام آباد میں منعقد کیا گیا۔ اس تقریب کے دوران جہاں بعض خوشگوار تاثرات پیدا ہوئے، وہیں واپسی کے سفر کے دوران جس کرب اور اذیت سے گزرنا پڑا، اس کی روداد قارئین کے سامنے پیش کرنا بھی ضروری ہے۔
یہ تقریب چونکہ جمعرات کو منعقد ہونا تھی، اس لیے بدھ کی شام تک سبھی مندوبین اسلام آباد پہنچ گئے۔ کچھ مندوبین جمعرات کی شب ہی واپس ہو گئے اور کچھ کو جمعے کی صبح واپس جانا تھا۔ ہم بھی ان بدنصیب مسافروں میں شامل تھے، جنھیں جمعے کی صبح والی فلائٹ سے کراچی روانہ ہونا تھا۔ فلائٹ کا مقررہ وقت پونے دس بجے تھا۔ لہٰذا ہم پونے نو بجے کے قریب ائیرپورٹ پہنچ گئے۔
ائیرپورٹ پہنچنے پر معلوم ہوا کہ جس نجی ائیرلائن کی پرواز سے ہمیں جانا ہے، اس کی روانگی میں 3 گھنٹے کی تاخیر ہے۔ یہ سوچ کر کہ اس سردی میں کہاں جائیں، ہم اور ایکسپریس کے ایک اور کالم نگار قادر خان قریبی ریستوران میں جا بیٹھے اور چائے کے ایک کپ پر انقلاب بپا کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ مگر جب تھک ہار گئے تو واپس ائیرپورٹ کی عمارت میں آ گئے۔ معلوم ہوا کہ فلائٹ کی روانگی میں مزید دو گھنٹے کی تاخیر ہو گئی ہے اور اب یہ 4 بجے روانہ ہو گی۔ یوں دس گھنٹے جس کرب میں گزارے وہ ہم ہی جانتے ہیں۔
اب کچھ اس تقریب کا تذکرہ جس میں شرکت کے لیے اسلام آباد گئے تھے۔ اس تقریری مقابلے کے لیے جن موضوعات کا انتخاب کیا گیا تھا، وہ بروقت و برمحل تھے یعنی، 1۔ دہشت گردی: اسباب اور سدباب، 2۔ مسلم معاشرے میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق و فرائض، 3۔ انسانی جان کی حرمت: قرآن و سنت کی روشنی میں۔ یہ دیکھ اور سن کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ دینی مدارس کے طلبا فکری اعتبار سے کسی بھی جدید تعلیمی ادارے کے طلبا سے پیچھے نہیں ہیں۔ انھیں بھی زمان و مکاں میں ہونے والی تبدیلیوں کا واضح ادراک ہے۔
دہشت گردی، غیر مسلموں کے ساتھ سلوک اور انسانی جان کی حرمت کے حوالے سے انھوں نے قرآن وسنت کی روشنی میں جو دلائل و براہین دیے وہ انتہائی فکر انگیز اور امید افزا ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابھرتے ہوئے نوجوان علمائے دین سماجی حقائق کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔بعض تصورات ازخود باندھ لیے گئے ہیں۔ جدید عصری علوم اور طرز حیات رکھنے والے شہری دینی مدارس کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار ہیں، جب کہ مذہبی حلقے جدید تعلیم یافتہ افراد کے بارے میں منفی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔
حالانکہ سنجیدگی کے ساتھ معاشرتی معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی جائے تو غلط فہمیوں کے خاتمے کے ساتھ اشتراک عمل کی نئی راہیں نکل سکتی ہیں۔ مگر اس پہلو پر توجہ دینے کی کوشش نہیں کی جا رہی۔ جب یہ آواز اٹھتی ہے کہ مدارس کے نصاب میں وقت اور حالات کی مناسبت سے تبدیلی لائی جائے، یا ان کی رجسٹریشن کے ساتھ ان کی آمدنی اور اخراجات کے میزانوں کا آڈٹ کیا جائے، تو یہ غیر مناسب مطالبات نہیں ہیں۔ بلکہ مدارس کے منتظمین کو آگے بڑھ کر ان مطالبات پر لبیک کہتے ہوئے خود کو ہر قسم کے احتساب کے لیے پیش کرنا چاہیے۔
انگریزوں کی آمد سے قبل دینی اور عصری تعلیم کی تفریق و تقسیم موجود نہیں تھی۔ بلکہ تمام طلبا عصری و دینی تعلیم ایک ساتھ حاصل کیا کرتے تھے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایک مولوی کو صرف مسجد تک محدود رہنا ہے یا پھر اسے دنیا کے دیگر معاملات میں بھی شریک ہونا ہے؟ اگر یہ بات درست ہے تو پھر اس کے لیے جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے علاوہ انتظامی علوم (مینجمنٹ سائنسز) کی جانکاری بھی ضروری ہے۔
دوسری بات یہ کہ ہم صرف دینی مدارس کی صحیح رجسٹریشن اور آڈٹ کی بات نہیں کرتے بلکہ نجی شعبے میں چلنے والے تمام تعلیمی اداروں کے ساتھ مساویانہ سلوک رکھنے کی بات کرتے ہیں۔ ہمارا موقف ہے کہ محکمہ تعلیم اپنی نااہلی اور بدعنوانی کے سبب عصری تعلیم کے نجی اداروں کی بھی صحیح طور پر نگرانی نہیں کر رہا۔ بلکہ عصری تعلیم کے بہت سے ادارے بھی کرپشن اور من مانیوں میں ملوث ہیں۔
یہ غیر ضروری طور پر والدین کی جیب تراش رہے ہیں۔ مگر بھاری فیسوں کے باوجود تعلیم کا معیار قائم رکھنے میں ناکام ہیں۔ اس لیے تعلیمی اداروں کی مانیٹرنگ کے لیے محکمہ تعلیم کے اس شعبے کی مستعدی اور فعالیت بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ دوسرا اہم معاملہ ملک میں یکساں نصاب تعلیم کا ہے، جس پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جا رہی۔ اگر ملک میں یکساں نظام تعلیم نافذ ہو جائے تو ملک کے تمام نوجوانوں کو اپنی اہلیت اور قابلیت کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے یکساں مواقعے مسیر آئیں گے، جس کے نتیجے میں طبقاتی کشمکش میں واضح کمی آنے کا بھی امکان یقینی ہے۔
تقریب سے جامعہ اسلامیہ کلفٹن کے بانی مفتی محی الدین نے اپنے خطاب کے دوران جن خیالات کا اظہار کیا، وہ انتہائی خوشگوار ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ ان کے مدرسہ سے ملحقہ مسجد اہل سنت کے تمام مسالک کے علاوہ اہل تشیع کے لیے بھی کھلی رہتی ہے، تنگ نظری کے موجودہ ماحول میں روشنی کی ایک طاقتور کرن ہے۔
اسی طرح ان کا کہنا تھا کہ 1993میں جب انھوں نے محسوس کیا منبر و محراب سے تنگ نظری اور عصبیت پر مبنی خطاب ہونے لگے ہیں اور زبان و بیان سے احتیاط کا پہلو ختم ہوتا جا رہا ہے تو انھوں نے مجلس صوت الاسلام قائم کر کے منبر و محراب کے تقدس کی بحالی کے لیے کوششوں کا آغاز کیا۔ تاکہ اس مجلس کے تحت ملک بھر کے نوجوان علماء اور طلبا کی تحریر و تقریر کو پاکیزہ اخلاقی اقدار اور تہذیب و تمدن کے سانچے میں ڈھالا جاسکے۔ ساتھ ہی ایوان اسلام کے نام سے ایک ماہانہ جریدہ بھی تواتر کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔
اس تقریب میں دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے حکومتی اقدامات کی نہ صرف تائید و توثیق کی گئی، بلکہ مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی گئی۔ یہ تقریب ایک انتہائی پروقار تقریب تھی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اس میں تمام مسالک و فقہہ سے تعلق رکھنے والے اکابرین کے علاوہ غیر مسلم اہل دانش بھی شریک تھے۔ اس تقریب کے توسط سے ہمیں طویل عرصہ کے بعد قاری شیر افضل سے ملنے کا اتفاق ہوا، جن سے ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران مسلسل رابطہ رہا کرتا تھا۔
یہ وہ قاری شیر افضل ہیں جو MRD کے دیگر رہنمائوں کے مقابلے میں زیادہ جرات مندی اور پرجوش انداز میں فوجی آمریت کو چیلنج کیا کرتے تھے۔ اسی لیے انھیں دیگر رہنمائوں کے مقابلے میں جیل بھی زیادہ کاٹنا پڑی۔ اب وہ خاصے ضعیف اور مضمحل ہو گئے ہیں، لیکن ان کی خوش گفتاری اور جملہ بازیاں اسی طرح جوان ہیں۔ ان کے علاوہ مولانا حامد الحق سے بھی سلام دعا ہوئی۔ مولانا حامد الحق مولانا سمیع الحق کے فرزند ہیں۔ ان سے ہماری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ MMA کے رکن قومی اسمبلی تھے اور ہم خیبر پختونخوا کے دینی مدارس کے مطالعاتی دورے کے موقعے پر مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک گئے تھے۔
بہرحال یہ ایک انتہائی خوشگوار تاثرات کا حامل دورہ تھا، سوائے واپسی پر ہونے والی اذیت کے۔ ہمیں امید ہے کہ دیگر مدارس بھی مجلس صوت الاسلام کی طرح فکری روشن خیالی اور وسعت قلبی کا مظاہرہ کریں گے اور شدت پسندی کے عفریت کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیں گے۔ اگر مساجد پر مسلکی بنیادوں پر قبضہ کی روایت ختم ہو جائے اور اسے اللہ کا گھر سمجھتے ہوئے ہر مسلمان کی عبادت گاہ سمجھا جانے لگے تو مسلکی منافرتیں ختم کرنے میں خاصی حد تک مدد مل سکتی ہے۔