شتر مرغ جیسی ذہنیت
ہمارے لیڈران کرام جس زبان دانی کا مظاہرہ کرتے ہیں اس کا مقصد صرف عوام کو الجھانے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا
ISLAMABAD:
دہشت گردوں کے لیے آسان اہداف اس لیے نمایاں رہ جاتے ہیں کیونکہ قانون کے نفاذ کی سول ایجنسیوں (LEAs) کی تنظیم نو کرنے اور انھیں دہشت گردی کے خلاف اور زیادہ موثر بنانے کی باتیں صرف زبانی جمع خرچ تک محدود رہتی ہیں لیکن ایک انتہائی ہولناک واردات کے بعد جو فوری طور پر اقدامات کیے گئے ہیں وہ قابل ستائش ہیں مگر حسب روایت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ عدم توجہی کی نذر ہوتے چلے جائیں گے۔
ہمارے لیڈران کرام جس زبان دانی کا مظاہرہ کرتے ہیں اس کا مقصد صرف عوام کو الجھانے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا جب کہ موقع پر جا کر فوٹو سیشن بھی کرائے جاتے ہیں۔ پاک فوج نے سوات اور فاٹا میں تخریب کاروں کے خلاف نہایت کامیاب آپریشن کیے ہیں جب کہ شمالی وزیرستان میں بھی ان کے خلاف آپریشن کیا جا رہا ہے جس کی کہ میڈیا میں بھی ستائش ہو رہی ہے لیکن دشمن نے اب عوام الناس کو دہشت زدہ کرنے کے لیے مختلف حکمت عملی اختیار کرنے کی کوشش کی ہے۔
قومی ایکشن پلان کی تشکیل کے لیے تین اہم نکات کو پیش نظر رکھا گیا۔ -1ہمارے شہروں سے اسلحے کا خاتمہ -2اپنے موجودہ وسائل کو درست طریقے سے استعمال کرنا -3 نجی سیکیورٹی کمپنیوں کو ضابطے میں لانا جو کہ شہریوں کی حفاظت کے لیے دوسری دفاعی لائن ہے جن کا قیام ناگزیر صورت حال کا نتیجہ ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا شہر یا قصبہ نہیں جہاں عوام کو ہتھیار اٹھا کے چلنے کی اجازت ہو ماسوائے پاکستان کے۔ ہمارے شہری علاقوں میں ہتھیاروں کا پھیلاؤ بہت تشویشناک ہے جن کی بازاروں میں ناکے کھڑے کر کے پڑتال کرنا ایک بے سود عمل ہے۔ اس موقع پر اگر کوئی بااثر شخص پکڑا بھی جاتا ہے تو اسے فوری طور پر اسلحے سمیت رہائی مل جاتی ہے۔
مذہبی انتہا پسند عناصر کھلے عام قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں حالانکہ ہمارے سیاستدان ان کے خلاف بڑے سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ کراچی کے ایک معروف سیاسی لیڈر نہایت فخر سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ ایک پٹھان کو اس کے ذاتی ہتھیاروں سے کسی صورت جدا نہیں کیا جا سکتا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ ماضی میں اتنے سال دبئی میں کیسے رہے تو اس کے جواب میں انھوں نے مسکرا کر دکھا دیا۔آبادیوں کو ہتھیاروں سے پاک کرنا اس قدر اہم ہے کہ یہ کام آج سے ہی شروع کر دیا جانا چاہیے LEAs کی وردی کے بغیر کسی شہری کو ہتھیار اٹھانے کا کوئی حق نہیں، شہریوں کو مسلح محافظوں کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن نجی کمپنیوں کے گارڈ ''اسکارٹ ڈیوٹی'' بھی سر انجام دے رہے ہیں حالانکہ یہ بات لازمی ہے کہ ان لوگوں نے مکمل ٹریننگ حاصل کی ہو اور ان کے پاس مقامی پولیس اسٹیشن کی طرف سے تحریری اجازت نامہ موجود ہو کہ وہ ہتھیار اٹھا سکتے ہیں۔
تمام اسکارٹ اور باڈی گارڈز کو LEA کی یونیفارم میں ہونا چاہیے یا نجی سیکیورٹی کمپنی ان کو اپنی یونیفارم فراہم کرے۔ رینجرز کو کراچی میں پولیس کے اختیارات دیے گئے لیکن یہ ان کے اپنے فرائض منصبی میں چونکہ شامل نہیں اس لیے یہ قانون کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ کراچی کے ایک مقبول عام ریسٹورنٹ سے حال ہی میں باہر نکلتے وقت ہمیں ٹریفک جام کا سامنا کرنا پڑا جو کہ درجن بھر پولیس موبائلز اور سیکیورٹی گارڈوں کی وجہ سے پیدا ہوا تھا ان لوگوں میں بہت سے یونیفام میں تھے اور بہت سے سادہ کپڑوں میں اور جنہوں نے ہر قسم کے خطرناک خود کار ہتھیار اٹھا رکھے تھے۔ ایک صوبائی وزیر کے لیے نجی تحفظ کا انتظام کرنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن جب حکمران اشرافیہ کے بھانجے بھتیجے اور دیگر اہلخانہ فیشن کے طور پر یہ کام کرتے ہیں تو اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
محافظوں کو اس بات کا پابند ہونا چاہیے کہ مناسب تربیت کے بغیر وہ ہتھیاروں کا استعمال نہیں کریں گے چونکہ اس طرح وہ کسی المناک سانحے کے موجب بن سکتے ہیں۔کراچی پولیس کے 33 ہزار اہلکاروں میں سے 3 ہزار تو ہماری سیاسی اشرافیہ کی سیکیورٹی ڈیوٹی ادا کرتے ہیں جن کو بہت بھاری تنخواہیں دی جاتی ہیں مثال کے طور پر ایک کانسٹیبل کی تنخواہ ایک لاکھ روپے ماہوار ہے اور اس کی عمر 35 سال سے کم ہونی چاہیے۔ اگر پورے عملے کی تنخواہوں کا حساب لگایا جائے تو وہ 3.5 بلین (3 ارب پچاس کروڑ) روپے بنتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں سوات اور فاٹا میں دن رات اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر لڑنے والوں کو ہم کتنے پیسے دیتے ہیں؟ 7 ہزار 8 سو محافظ وزیروں ججوں وغیرہ کی حفاظتی ڈیوٹی ادا کرتے ہیں جب کہ 2 ہزار پولیس افسروں کی رہائش گاہوں وغیرہ کی حفاظتی ڈیوٹی دیتے ہیں۔ باقی کے 20 ہزار اہلکاروں کو 2 ہزار پولیس موبائلوں کے ساتھ 109 پولیس اسٹیشنوں پر پھیلا دیا جاتا ہے۔
پولیس والے بھی بیماری وغیرہ کی چھٹی کرتے ہیں اس لیے ایک پولیس اسٹیشن پر ایک شفٹ میں چالیس پنتالیس سے زیادہ افراد نہیں ہوتے اور وہ لوگ ہر پولیس اسٹیشن پر 15 موبائلوں کو کیسے چلا سکتے ہیں؟ اس کے باوجود 1 لاکھ روپے ماہوار سے زیادہ کا پٹرول خرچ ہوتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی کا آئن سٹائن جیسا ذہین ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ ٹریکنگ کے آلات اور فیول کارڈ کو کس لیے ترک کر دیا گیا ہے۔ کیا کوئی زحمت کر کے اس سارے معاملے کا آڈٹ کر سکتا ہے کہ آخر ہماری قیمتی افرادی قوت اور ذرایع دہشت گردی سے نمٹنے کے بجائے نہایت مجرمانہ طور پر شخصی استعمال کی طرف موڑ دیے گئے ہیں تا کہ کچھ لوگ اپنی جیب بھر سکیں۔جرم کے جائے وقوع پر جانے کے لیے تحقیقاتی افسر کو گاڑی نہیں مل سکتی اس اختتام ہفتے کے موقع پر رونما ہونے والے واقعے کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جس کے نتیجے میں پولیس کا مورال بھی خاصا انحطاط پذیر ہے۔
بالخصوص سندھ میں کیونکہ وہاں اس فورس میں بہت زیادہ سیاسی مداخلت کی جا چکی ہے جب کہ کرپشن اور تنخواہوں میں فرق بھی بہت زیادہ ہے۔ ممکن ہے کہ پنجاب میں اس حد تک فرق نہ ہو لیکن وہاں بھی کافی فرق موجود ہے۔ کے پی کے میں گزشتہ سال کی نسبت معاملات کچھ بہتر ہوئے ہیں جب کہ بلوچستان میں فوجی افسران کی پولیس کے تربیتی اداروں میں موجودگی سے بھی وہاں امن و امان کی صورت حال کسی حد تک بہتر ہو گئی ہے۔ جو رقوم انسداد دہشت گردی کے لیے منظور ہوتی ہیں ان میں سے بھاری مقدار کرپشن ہڑپ کر جاتی ہے۔ کسی شخص کو دو طریقوں سے ہلاک کیا جا سکتا ہے۔ -1اس پر جسمانی طور پر حملہ کر کے -2اس کی سیکیورٹی کو کمزور بنا کر۔ اس میں (1) سیکیورٹی اہلکاروں کو کسی اور جگہ تعینات کر دیا جاتا ہے۔-2 مخصوص فنڈز کو کسی اور جگہ پر خرچ کر کے بھی ایسا کیا جاتا ہے۔ انسداد دہشت گردی کے فنڈز کا خورد برد ہونا (LEAs) کی اثر پذیری کو متاثر کرتا ہے۔
ان فنڈز کی چوری کرنے والے درحقیقت دہشت گردوں کی مدد کر رہے ہوتے ہیں جیسے کہ دہشت گردوں نے پشاور کے اسکول میں بچوں کے خون سے کھیل کر اس کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس مسئلے کا حل صرف اسی صورت نکل سکتا ہے جب تمام قصورواروں کو بلاتخصیص انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے بلکہ ان کا تو فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہونا چاہیے۔ اب چونکہ فوج نے سیاستدانوں کو دہشت گردی کے انسداد کی جدوجہد میں شامل کر لیا ہے لیکن ایسے لگتا ہے کہ آرمی کو یہ اختیار بادل نخواستہ دیا گیا ہے تا کہ ان کو الزام میں بھی شامل کیا جا سکے۔ اس موقع پر مجھے سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن کی بات یاد آ رہی ہے کہ ''فیصلوں پر طویل بحث نہیں کی جانی چاہیے''۔ اس کا نتیجہ المناک نکل سکتا ہے۔
پشاور کے واقعہ میں ہمارے بچوں کی معصوم جانیں ضایع ہوئی ہیں وہ اسی روش کا نتیجہ ہے کہ بروقت فیصلہ نہیں کیا جا سکا جو لوگ حالات کو جوں کا توں رکھنا چاہتے ہیں ان کی توجہ صرف مال بنانے پر ہے جو کہ اپنی منفی کارروائیوں کو خوبصورت الفاظ کے استعمال سے چھپانا چاہتے ہیں۔ یہ وقت وقت کی بات ہے کہ کبھی ہم آئین کی تشریحات میں الجھتے ہیں لیکن کبھی ہمیں حقیقت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ۔
حقیقت پشاور کے اسکول کے بچوں کی لاشوں کی شکل میں ہمارے سامنے ہے ہمارے میڈیا نے بڑی کوشش کی کہ بچوں کے والدین کو دہشت گردوں سے اسقدر خوفزدہ کردیا جائے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول نہ بھیجیں لیکن 12 جنوری کو پاکستان کے بچوں نے ملک بھر میں قوم کو جرات کا پیغام دیا اور بتا دیا کہ وہ دہشتگردوں سے خوفزدہ نہیں ہیں۔ جب ہمارے والدین اور بچے اس قدر جرات مند ہوں گے تو دہشت گردوں کا اس ملک میں کوئی مستقبل نہیں رہ سکتا۔ لیکن شتر مرغ کی صفت رکھنے والے لوگ کبھی حقیقت کا سامنا نہیں کر سکتے۔