کڑوا گھونٹ
انتہا پسندی، فرقہ واریت اور دہشتگردی کا جڑ سے خاتمہ نہایت سنجیدہ،حساس اور ہمہ گیر مسئلہ ہے۔
PESHAWAR:
گزشتہ جمعے کو راولپنڈی کے گنجان آباد علاقے چٹیاں ہٹیاں میں جہاں محفل میلاد ہو رہی تھی، کے اندر ایک خودکش بمبار نے داخل ہونے کی کوشش میں ناکامی پر خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں 8 افراد جاں بحق اور 20 کے لگ بھگ زخمی ہوگئے۔ تحریک طالبان پاکستان کے ایک دھڑے جماعت الاحرار نے دھماکے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ آئندہ بھی اس طرح کی خودکش حملے جاری رہیں گے۔ ابھی فوجی عدالتیں قائم بھی نہیں ہوئیں کہ پھانسیوں کے خوف سے دہشت گرد عناصر خود بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے اور خودکش حملوں و بم دھماکوں کی کارروائیوں میں تیزی پیدا کردی ہے تاکہ حکومت اور فوج پر دباؤ بڑھایا جاسکے کہ وہ آئینی ترامیم کے تحت شرپسندوں کے خلاف انتہائی اقدام سے باز رہے۔
لیکن اب وقت گزر چکا ہے اور مہلت ختم ہوچکی ہے۔ سانحہ پشاور نے نہ صرف سیاسی و عسکری قیادت بلکہ پوری سول سوسائٹی اور 18کروڑ عوام کو دہشت گردوں کے خلاف متحد و منظم کردیا ہے آخری معرکہ برپا ہونے جا رہا ہے۔ دہشت گردوں کو عبرتناک انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔ پاک فوج کے بہادر سپہ سالار جنرل راحیل شریف کی قیادت میں ''آپریشن ضرب عضب'' کا دائرہ پورے ملک میں پھیلایا جا رہا ہے فوج کا ایک ایک سپاہی آخری دہشت گرد کے خاتمے تک اس کا پیچھا کرے گا، پوری قوم امن کے قیام میں کامیابی کے لیے پاک فوج کی پشت پر دست بہ دعا کھڑی ہے۔
بلاشبہ ملک میں قیام امن اور دہشت گردی کا خاتمہ سیاسی وعسکری قیادت کے لیے سردست سب سے بڑا چیلنج ہے۔ انتہا پسندی، فرقہ واریت اور دہشتگردی کا جڑ سے خاتمہ نہایت سنجیدہ،حساس اور ہمہ گیر مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے تمام مکاتب فکر اور شعبہ ہائے زندگی کے اکابرین کا متحد ہونا ازبس ضروری ہے۔ یہ مسلمہ امر ہے کہ جمہوری ملکوں میں پارلیمنٹ پوری قوم کی ترجمان ہوتی ہے جہاں عوام اور ملک کی تقدیر کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں قومی نوعیت کے اہم معاملات پر بھی بعض طبقہ ہائے فکر کی جانب سے انفرادی طرز عمل اختیار کرکے قومی کاز کو گزند پہنچانے کی عادت پختہ ہوتی جا رہی ہے۔
ملک میں دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے قومی ایکشن پلان کے تحت جب فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے پیش کی گئی آئینی ترامیم کی منظوری کا مرحلہ آیا تو تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور جمعیت العلمائے اسلام (فضل الرحمن گروپ) نے رائے شماری میں حصہ نہ لے کر اپنی راہیں جدا کرلیں جس سے یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ پارلیمنٹ میں موجود مذہبی جماعتیں دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے اکثریت کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں اور آئینی ترمیم پر اپنے تحفظات رکھتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا موقف ہے کہ آئین میں صرف مذہب ومسلک کے نام پر ترمیم کے ذریعے ایک خاص طبقے کے خلاف کارروائی کے لیے قانون سازی کا تاثر دیا گیا ہے جو غلط ہے ہونا یہ چاہیے کہ مذہب و مسلک کے ساتھ ساتھ لسانیت، قومیت اور علاقائیت کی بنیاد پر ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کو بھی ترامیم میں شامل کیا جائے۔ کم و بیش اس موقف کا اظہار جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق صاحب بھی کر رہے ہیں۔
ان کا موقف ہے کہ سیکولر قوتوں کے دباؤ پر مذہب کے خلاف قانون بنائے جا رہے ہیں تاہم مذکورہ دونوں مذہبی رہنماؤں نے افہام و تفہیم سے معاملات کو حل کرنے اور آئینی ترمیم پر تحفظات دور کرنے کے لیے نظر ثانی کرنے اور انھیں اعتماد میں لینے کی خواہش کا اظہار کیا ہے جو یقینا خوش آئند بات ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو یہ ٹاسک سونپا ہے انھوں نے مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کرکے انھیں تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ امید ہے کہ شہباز شریف جلد سراج الحق سے بھی ملاقات کرکے انھیں اعتماد میں لیں گے تاکہ دہشت گردی کے خلاف قومی اتفاق رائے کو تقویت حاصل ہوسکے۔
مذہبی رہنماؤں کا یہ موقف کہ آئینی ترمیم کے ذریعے مذہب کے نام پر دہشت گردی کے خاتمے کو جواز بناکر ملک کے تمام مدارس کے خلاف کارروائی کی جائے گی بہت زیادہ وزنی نظر نہیں آتا۔ دینی مدارس کا ایک نیٹ ورک پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ 800 ہزار کے لگ بھگ مدارس میں نونہالان وطن دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ حکومت ان مدارس کی رجسٹریشن اور ان کے نصاب تعلیم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا چاہتی ہے تاکہ مدارس کے طلبا بھی دوسرے عام اسکولوں کے طلبا کی طرح جدید تعلیم حاصل کرکے معاشرے میں ایک فعال، مفید اور سرگرم کردار ادا کرسکیں اور کسی غیر صحت مندانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی بجائے اپنا، اپنے خاندان اور ملک کا مستقبل سنوارنے کی جدوجہد میں معاشرے کے دیگر طبقات کے قدم بہ قدم کامیابی کے ساتھ چل سکیں جو یقینا قابل فہم اور حکومت کے مثبت طرز عمل کی علامت ہے۔
اس پر اعتراض کی بظاہر کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ علمائے کرام اور دینی مدارس کی انتظامیہ کو حکومتی کوششوں میں شامل ہوکر تعمیری سوچ کا عملی مظاہرہ کرنا چاہیے نہ کہ چراغ پا ہوکر قومی کاز کے خلاف پروپیگنڈا کیا جائے۔ کیا اکابرین مدارس اس بات سے آگاہ نہیں کہ شدت پسند تنظیموں کے وابستگان کا تعلق بھی بعض مدارس کے ساتھ جڑا ہوا ہے؟ اگر حکومت ان کی اصلاح کی کوشش کررہی ہے تو اس میں برا کیا ہے۔ کیا مولانا فضل الرحمن خود دہشت گردوں کے حملے کا نشانہ نہیں بنے؟ کیا خودکش حملوں و بم دھماکوں میں بے گناہ لوگوں کی ہلاکت کو غیر شرعی قرار دینے کے حوالے سے ملک کے جید علمائے کرام نے مشترکہ فتوے جاری نہیں کیے؟ جامعۃ الازہر سے لے کر امام کعبہ تک دہشت گردی اور خودکش حملوں کو غیر اسلامی فعل قرار دے چکے ہیں۔ پھر کیا قباحت ہے کہ بعض علمائے کرام اور مدارس حکومتی کوششوں کے خلاف ہیں اور مدارس کے ماحول اور نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے سے گریزاں ہیں۔ کیا دال میں کچھ کالا تو نہیں ؟ اگر ہے تو پھر اصلاح احوال کی گنجائش بھی موجود ہے۔
پوری دنیا اس بات سے آگاہ ہے کہ اسلام ایک امن پسند اور بھائی چارگی کا درس دینے والا دین ہے جو ایک انسان کے ناحق قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیتا ہے۔ بدقسمتی سے یہاں ایسے گروہ نے جنم لے لیا ہے جو دین کی تبلیغ و تدریس اور صلح جوئی کی تعلیم دینے کی بجائے بندوق کی زبان میں بات کرتا ہے اور طاقت کے زور پر اپنے مخصوص عقائد کو شریعت قرار دے کر جبری طور پر پوری دنیا پر مسلط کرنے کا خواہاں ہے۔ القاعدہ، طالبان، داعش اور بوکو حرام سب ایک ہی نظریات کی حامل شدت پسند تنظیمیں ہیں جن کی دہشت گرد کارروائیوں سے پوری دنیا میں اسلام کا امن پسند چہرہ مسخ ہو رہا ہے۔ چند ہزار شدت پسند عناصر نے دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں اور 55 اسلامی ممالک کے مستقبل کو یرغمال بنالیا ہے۔
بدنامی و رسوائی مسلمانوں کا مقدر بنتی جا رہی ہے دنیا کے ایئرپورٹ پر مسلمانوں کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں پوری ریاستی مشنری کے ادارے اور ان سے منسلک افراد خوف و دہشت کے سائے میں اپنے فرائض انجام دینے پر مجبور ہیں نتیجتاً یہاں دہشت گردوں کو ''ریلیف'' مل جاتا ہے۔ اس سہولت کو ختم کرنے کے لیے غیر معمولی اقدامات ناگزیر تھے دہشت گردوں کو ان کے انجام تک پہنچانے کے لیے ہی سیاسی و عسکری قیادت نے سانحہ پشاور کے بعد اے پی سی میں مشترکہ حکمت عملی کے تحت قومی ایکشن پلان تیارکیا اور دہشت گردوں کو ان کے انجام تک پہنچانے کے لیے آئینی ترامیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کے قیام کو طوعاً و کرعاً قبول کیا رضا ربانی کے آنسو اس امر کے عکاس ہیں کہ سیاستدانوں نے دل پر پتھر رکھ کر محض ملک و قوم کے پرامن مستقبل کی خاطر کڑوا گھونٹ پیا ہے۔ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی فیصلے ناگزیر ہوتے ہیں لہٰذا ملک کی مذہبی قیادت کو بھی حالات کی سنگینی کا ادراک کرنا چاہیے۔