کسے وکیل کریں۔۔۔۔۔

آج ملک کا ہر شخص خصوصاً کراچی کا ہر فرد خود کو گھر، درس گاہ، اسپتال اور شاہراہوں پر غیر محفوظ تصور کرتا ہے۔


نجمہ عالم January 15, 2015
[email protected]

ملک کے سب سے بڑے جمہوری ادارے (پارلیمنٹ) نے اکیسویں ترمیم کی منظوری دے دی۔ اس پر مختلف سمتوں سے مختلف ردعمل سامنے آرہے ہیں۔ اس ترمیم کے نتیجے میں جو بل پاس ہوا ہے اس کے تحت فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دی گئی ہے، یہ بھی ایک زندہ حقیقت ہے کہ ملک اور قوم آج جس خوفناک صورتحال سے ہمکنار ہے یہ صورتحال تو گزشتہ صدی کی دو عالمی جنگوں میں بھی پیش نہیں آئی تھی۔ ان جنگوں کی ہولناکی اپنی جگہ مگر ان میں بھی بچوں، عورتوں، ضعیفوں اور بیماروں کو تحفظ دیا گیا تھا۔

مگر وطن عزیز کو جس ''حالت جنگ'' کا سامنا ہے اس کی کوئی اخلاقی اقدار و حدود نہیں۔ یہاں عورتوں بوڑھوں بچوں حتیٰ کہ اسکول کے طلبا کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ مریضوں کو بھی نہیں بخشا جاتا (بلوچستان میں اسپتال کا واقعہ اس کا ثبوت ہے)۔ ایسی صورت میں فوجی عدالتوں کا قیام جمہوریت کی ناکامی جیسے خیالات کا اظہار اپنی جگہ، مگر صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ان عدالتوں کے قیام کو ملک کی بقا و سلامتی اور امن و امان پروان چڑھانے کی کوشش قرار دینا چاہیے۔ بے شک کچھ فیصلے آئین سے ہٹ کر مگر حالات کو مدنظر رکھ کر کرنا ناگزیر ہوجاتے ہیں۔ خود ہمارے ملک میں دوران جمہوریت مارشل لا کے نفاذ کی مثال موجود ہے۔

یہ سوال بہرحال اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا فوجی عدالتیں تنہا دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے میں کامیاب ہوجائیں گی؟ اس سلسلے میں ہمارا موقف ہے کہ کیا دہشت گردی ختم ہو جائے گی، کیونکہ عدالتیں تو دہشت گرد مجرموں کو ثبوت اور شواہد کی بنا پر سزا دینے کی مجاز ہیں اور یہ اسی وقت ہوتا ہے جب دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہو اور اصل مجرم گرفت میں آجائیں۔جب کہ انسداد دہشت گردی کا مطلب تو یہ ہے کہ کوئی دہشت گردی کا واقعہ رونما ہی نہ ہو یعنی واقعہ ہونے سے قبل ہی اس کو روکا جاسکے۔

ظاہر ہے کہ اس اہم کام کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے بالخصوص پولیس، رینجرز، خفیہ ایجنسیاں اور خود عوام کا بھرپور تعاون درکار ہے۔ ابھی کئی تازہ واقعات میں یعنی سانحہ پشاور آرمی پبلک اسکول، کراچی ٹمبر مارکیٹ، میمن گوٹھ تھانے کی حدود میں مسافر کوچ اور آئل ٹینکر میں تصادم کے خوفناک واقعات میں ان سب اداروں، قانون نافذ کرنے والوں اور حکمرانوں کا طرز عمل بار بار سامنے آتا رہا ہے جو ملک کی موجودہ سیکیورٹی صورتحال کو کنٹرول کرنے میں بھی کافی حد تک ناکام ثابت ہوئے ہیں۔

آج ملک کا ہر شخص خصوصاً کراچی کا ہر فرد خود کو گھر، درس گاہ، اسپتال اور شاہراہوں پر غیر محفوظ تصور کرتا ہے۔ جو گھر سے تعلیم، روزگار، علاج یا رشتے داروں سے ملاقات کے لیے نکلے اور پھر بخیریت واپس آجائے تو وہ پورا گھرانہ شکرانے کے نوافل ادا کرتا ہے۔ نوجوانوں کو گاڑی یا اسکوٹر پر تنہا دیکھ کر تو گویا قانون نافذ کرنے والوں کی ''چاندی'' ہوجاتی ہے، کوئی بھی جھوٹا سچا الزام عائد کرکے لاپتہ کرنے کا کاروبار عرصے سے جاری ہے ،مٹھی گرم کردی جائے تو جاں بخشی ممکن ہے ۔ پھر بھی ماورائے عدالت ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ ان سب واقعات کا تانا بانا اگرچہ دہشت گردی سے جوڑا جاتا ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ یہ دہشت گردی باوجود آپریشن کے قابو میں کیوں نہیں آرہی؟ پھر یہ دہشت گرد بھی تو اسی معاشرے میں ہمارے اردگرد موجود ہیں ان پر نظر رکھنا بھی تو کسی کی ذمے داری ہوگی نا؟ مگر اخباری اطلاعات کے مطابق یہ ذمے داران خود رشوت، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان کے جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں ،اخبار کے ایک ہی صفحے پر پولیس کے جرائم میں ملوث ہونے کی کم ازکم پانچ خبریں موجود ہیں۔مثلاً زیر تربیت پولیس اہلکاروں کا شہریوں کو لوٹنے، اغوا برائے تاوان، غیر قانونی حراست اور ڈرا دھمکا کر شہریوں سے لاکھوں روپے بٹورنے میں ملوث ہونے کا انکشاف بمعہ ثبوت ہوا ہے۔ ان شواہد کی بنیاد پر درجن بھر سے زائد اہلکار گرفتار بھی ہوچکے ہیں۔ تحقیقات جاری ہیں۔

جو رپورٹ اب تک مرتب کی گئی ہے وہ آئی جی سندھ کو پیش کردی گئی ہے جس کے نتیجے میں پولیس کے اعلیٰ افسران میں بے چینی پھیل گئی ہے۔ اس رپورٹ میں 498 واقعات بمعہ ثبوت تفصیل سے سامنے آئے ہیں۔ یہ صورتحال کس جانب اشارہ کر رہی ہے؟ یہی ناں کہ زیر تربیت پولیس اہلکاروں کی بھرتی کا طریقہ کار وہی اقربا پروری، سفارش اور رشوت پر مبنی رہا ہوگا (ان کا سابقہ ریکارڈ اور چال چلن کی تحقیق کے بغیر) جب کہ خبر کی تفصیل سے یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ کئی اہلکار ٹریننگ سینٹر آتے ہی نہیں ان کی اس غیر حاضری کے پس پشت بھی رشوت و جانبداری کار فرما نظر آرہی ہے۔اس غیر حاضری کے دوران وہ جرائم کی کارروائیوں میں مصروف پائے گئے ہیں۔

دوسری اطلاع کے مطابق پانچ اعلیٰ پولیس افسران کروڑوں کی جائیداد کے مالک ہیں اس کے علاوہ ایرانی ڈیزل اور پٹرول کے مبینہ کاروبار میں بھی ملوث ہیں (یاد رہے گڈانی میں آئل ٹینکر اور مسافر بس کے تصادم میں بھاری جانی نقصان کے بعد انکشاف ہوچکا ہے کہ ایرانی تیل کی اسمگلنگ میں اعلیٰ افسران ملوث تھے) یہ افسران کئی پٹرول پمپس پر بھی بزور افسری قابض ہیں کیونکہ جو پٹرول اور ڈیزل ایران سے غیر قانونی طور پر ان اعلیٰ افسران کی زیرسرپرستی و نگرانی آرہا ہے اس کو آخر مارکیٹ میں فروخت بھی تو کرنا ہے۔ جس کے لیے پٹرول پمپس بھی درکار ہیں سو جہاں اتنا بڑا فراڈ کیا جاسکتا ہے وہاں چند پٹرول پمپس پر قبضہ کرنا کیا دشوار ہے۔ جن کے ذریعے پٹرول فروخت کرکے اپنا کاروبار ترقی و کامیابی سے ہمکنار کیا جاسکتا ہے۔ رہی بھتہ خوری تو سب کو معلوم ہے شہر میں بھتہ خوری کی وارداتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں چند مخصوص سیاسی جماعتوں کے ملوث ہونے کا ڈھنڈورا خوب پیٹا جاتا ہے۔

مگر پہلے بھی کئی بار اور اب بھی بھتہ خوری کے کئی واقعات میں پولیس افسران ملوث پائے گئے ہیں تقریباً ایک ماہ قبل لانڈھی کے ایک رہائشی کو ایف آئی اے کے نام پر اغوا کرنے کے بعد اس کی رہائی کے لیے پانچ لاکھ تاوان مانگا گیا۔ یہ رقم وصول کرتے ہوئے ایف آئی اے حکام نے کرائم برانچ کے اے ایس آئی کے ہمراہ دو اور افراد کو گرفتار کیا۔ پولیس شہر کی ناگفتہ بہ صورتحال سے فائدہ اٹھاکر کئی قسم کے جرائم کی نہ صرف سرپرستی کر رہی ہے بلکہ خود بھی اس میں ملوث ہے۔

جن میں ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی، غیر قانونی اسلحہ رکھنے، منشیات کی ترسیل کے علاوہ غیر قانونی حراست جیسے جرائم شامل ہیں۔ یہاں تک اطلاعات ہیں کہ راہ چلتے نوجوانوں بالخصوص سیاسی جماعتوں کے کارکنان کو بلا جواز مختلف الزامات کے بہانے اٹھاکر اپنے عقوبت خانوں میں لے جاکر ان پر تشدد بھی کرتے ہیں اور لاکھوں روپے بطور تاوان بھی وصول کرتے ہیں۔ مطلوبہ رقم نہ ملنے پر یا تو ان کو کسی جرم میں ملوث کردیتے ہیں یا دوران تشدد اگر وہ شخص موت سے ہمکنار ہوجائے یا اس کی حالت غیر ہوجائے تو پولیس مقابلہ ظاہر کرکے اس کو ٹارگٹ کلر یا ڈاکو قرار دے کر مار ڈالتے ہیں حالانکہ دونوں صورتوں میں ان کو مجرم ثابت کرنا عدلیہ کا کام ہے۔

اس صورتحال میں کیا ہم دہشت گردی سے جلد اور مکمل نجات حاصل کرسکیں گے؟ کیا دہشت گردی میں اضافے کا باعث بننے والے اعلیٰ عہدیداران عدالتوں کو مقاصد کے حصول میں کامیاب ہونے دیں گے؟ جو نگہباں ہیں وہی ہراساں کریں تو پھر:

کسے وکیل کریں' کس سے منصفی چاہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں