زنجیر

افراتفری اورغیرمحفوظ ہونے کی تشویش نے ہرایک کومستقل غیریقینی کاشکاربنادیاہے۔


راؤ منظر حیات January 16, 2015
[email protected]

ملک کوحاصل کیے ہوئے تقریباًسات دہائیاں ہوچکی ہیں۔بنیادی مقاصدکیاتھے اورآج ہم کتنے کمزوراورضعف کاشکارہیں، یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم ابھی تک جدوجہدآزادی میں بیان شدہ مقاصد میں سے ایک بھی حاصل نہیں کرسکے۔صاحبان!ایک بھی۔

افراتفری اورغیرمحفوظ ہونے کی تشویش نے ہرایک کومستقل غیریقینی کاشکاربنادیاہے۔ عدم برداشت کارویہ ہرسطح پردیوبن کرناچ رہاہے۔اندھیرا اس قدرہے کہ اصل چہرہ پہچاننامشکل نظرآتاہے۔اس پورے دورانیے میں ہم نے بہت سنجیدگی کے ساتھ کئی غیر ممعمولی منفی کام سرانجام دیے ہیں۔نظام میں سچ بولنے والے انتہائی غیرمحفوظ ہیں۔سچ بولنے کے لیے جان کانذرانہ دیناپڑتاہے۔لہذاکوئی بھی منصور بننے کے لیے تیارنہیں۔دوسرا تمام لوگوں کوجذباتیت کے نیلام گھرمیں مفت فروخت کردیاگیاہے۔

لوگوں میں جذباتیت اس حدتک بھرچکی ہے کہ سادہ سی بات کہنے سے بھی خوف لاحق ہوجاتاہے۔تشویش یہ بھی ہے کہ ہم پوری دنیاکے ممالک سے الٹ سمت میں چل رہے ہیں۔اس کی رفتاربھی بہت تیزہے، برق رفتاری سے ہم اقوام عالم کے لیے تماشا بنتے جارہے ہیں۔ آپ ترقی یافتہ ممالک کی بات رہنے دیجیے۔ترقی پذیرممالک بھی ہم سے بہترہورہے ہیں۔آپ ایشیاء کے ممالک کورہنے دیجیے۔افریقہ کے اکثرممالک ہم سے بہترہوتے جارہے ہیں۔کئی معاملات میں ہم افغانستان سے بھی پیچھے ہیں۔ خصوصاًانسانی رویوں میں۔ ہمارے نظام میں لوگوں کوتکلیف دینے سے مقتدرحلقے لذت حاصل کرتے ہیں۔

تجربہ کی بنیاد پرعرض کررہاہوں کہ آسانیاں تقسیم کرنے والے لوگ اب ہمارے نظام میں ختم ہوچکے ہیں یاختم ہونے والے ہیں۔ جوجتنی بدتمیزی کرنے کی صلاحیت رکھتاہے،وہ اتنی ہی تیزی سے پھل پھول رہاہے۔اب توپیمانہ ہی یہی ہے کہ آپ جتنی تکلیف پہنچاسکتے ہیں،نظام کی دیوی اتنی ہی آپ کی ترقی کے راستے کھولتی جائے گی۔ہم تضادات کامجموعہ ہیں۔

آزادی سے پہلے بھی ہمارے حالات کچھ اچھے نہیں تھے۔اس وقت بھی ایک مخصوص نوعیت کی Confusion کاشکارتھے۔ خم ٹھوک کرکہا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے سات سوسال کے قریب برصغیرپرحکومت کی ہے۔چندلوگ توان مسلمان حکمرانوں کے لیے"ہم"کالفظ بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان کی دانست میں وہ مسلسل بادشاہت ہماری تھی۔ طالب علم کے طورپراس رائے سے اختلاف کرنے کی جسارت کرتاہوں۔ برصغیرپروسط ایشیاء سے آئے ہوئے حملہ آوروں کی حکومت تھی۔ان ھی غیرملکی بادشاہوں نے وسط ایشیاء سے ہجرت کرکے تلاشِ روزگارمیں آنے والے لوگوں کوایک پالیسی کے تحت مستحکم کیا۔اسی پالیسی کے تحت مقامی افراد کوایک تحقیرآمیزدرجہ پررکھاگیا۔آپ تھوڑی سی گہرائی سے ان تمام بادشاہوں کی زندگی پرنظرڈالیں توآپ کومحض ایک روایتی بادشاہ کی طرزِزندگی کے سوا کچھ نظرنہیں آتا۔

ایک ایسا بادشاہ جومحض دولت کماناچاہتاہو، شخصی اقتدارکودوام بخشنا چاہتا ہواوراپنے لیے عیش وعشرت کامکمل سامان پیہم دستیاب رکھنا چاہتاہو۔اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔مغلوں کامجموعی طور پر پورا نظام اس حدتک ناقص تھاکہ ایک نجی تجارتی کمپنی یعنی ایسٹ انڈیاکمپنی نے ایک جھٹکے میں ختم کردیا۔تقریباًسواسوسال کی قلیل مدت میں ہماراالمیہ ایک اور رخ اختیارکرچکاہے اورحادثاتی طورپریہ آج تک برقرار ہے۔ سائنس اورتحقیق میں برتری نے مغرب کومشرق پر مکمل بالادستی عطاکردی ہے۔وہ شخصی طورپراب ہمارے اوپرحکومت نہیں کر رہے بلکہ وہ حقیقت میں ہم پرحکومت کررہے ہیں۔

ہمارے پاس ایسی قدآورشخصیات بہت کم ہیں جوان دودنیاؤں میں پل کاکرداراداکرسکیں۔یہ بہت فکرانگیزمرحلہ ہے۔ہم ہرلحاظ سے ضعف میں ہونے کے باوجودیہ حقیقت تسلیم ہی نہیں کرتے کہ اب دنیامیں ترقی اورحکومت کرنے کے اصول یکسر بدل چکے ہیں۔ویسٹ منسٹرجمہوری طریقوں نے ان تمام رویوں کوجنم دیاہے جوہمارے لیے آج بھی قدرے اجنبی ہیں۔تکلیف دہ اَمریہ بھی ہے کہ ہمارے پاس فی زمانہ کوئی ایسی قدآورشخصیت نہیں ہے جومغربی سوچ کے سامنے ہماری فکر کورکھ سکے،ان سے مکالمہ کرسکے اوراس کی بات ان حلقوں میں سنی جائے۔ ہم لوگ اتنی زیادہ علمی مفلسی کاشکارہیں کہ ہم میں سے اکثرکی بات کومغرب توجہ سے سننے پرآمادہ نہیں۔ آپ برصغیرکو لے لیجیے۔میں سرسیدکی مثال دینا چاہتا ہوں۔ سرسید اس نکتہ کوپہچان چکے تھے کہ مسلمان ترقی میں بہت پیچھے رہ چکے ہیں۔

اس تکلیف دہ حقیت سے بھی آشناتھے کہ اب مغرب کے نظام سے خوشہ چینی کے بغیرہم عزت سے زندہ نہیں رہ سکتے۔انھوں نے ہمارے لیے جوکچھ کیاوہ فقیدالمثال بھی ہے اورخیرہ کن بھی۔ دلیل کے طورپرمحض دوتصانیف کاحوالہ دیناچاہوںگا۔ایک تو"رسالہ اسباب بغاوت ہند" اور دوسری عظیم تصنیف "سرکشی ضلع بجنور" ہے۔وہ پہلے شخص تھے جو سمجھ چکے تھے کہ ہم انگریزوں سے لڑکرکچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے۔

انھوں نے تعلیم کوتبدیلی کاذریعہ بنانے کے لیے جو کوشش کی،پاکستان اسی محنت کاثمرہے۔اس عظیم شخص نے سائنس کوبرصغیرمیں مسلمانوں کے لیے بہت اچھے طریقے سے روشناس کرایا۔اس شخص کی بصیرت کا اندازہ فرمائیے کہ لندن میں اٹھارہ ماہ کے مختصر قیام میں وہ مغربی نظام تعلیم کومکمل سمجھ گیا۔اسے معلوم ہوگیاکہ مغرب کی اصل طاقت کارازان کی تعلیمی درسگاہیں ہیں۔ڈیڑھ سال میں وہ اتناکام کرگئے جوعام آدمی ڈیڑھ سوبرس میں بھی نہیں کرپاتا۔ علی گڑھ کالج اسی جذبہ کے تحت وجودمیں آیا۔میری نظرمیں اگرعلی گڑھ کالج اورپھریونیورسٹی،نہ ہوتی توشائدقائداعظم کووہ نوجوان طالبعلم نہ ملتے جنھوں نے ان کے پیغام کوپورے مسلمانوں تک پہنچایا۔سرسیداحمدخان نے کمال تحقیق اورتدبرسے ہمارے اوپروہ احسانات کیے ہیں جس کوہم کسی طورپرلوٹانھیں سکتے۔

مگرسرسیدکوچندروایت پسندلوگوں نے شدیدتنقیدکا نشانہ بنایا۔کچھ علماء نے سرسیدکوکافرقراردیدیااور انھیں ذلیل کرنے کی کوشش کی۔ان کے خیالات کامذاق اڑایاگیا۔ان کومغرب کاایجنٹ اور غدارتک ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگروہ شخص بازنہ آیا۔اس نے ہرالزام کاجواب دینے کی بھرپورکوشش کی مگراس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے کام میں مصروف کاررہا۔وہ ایک عظیم شخص تھا۔ان دنوں سرسیدکی وہ دونوں کتابیں پڑھنے کی کوشش کررہاہوں جوانھوں نے ہندوستان کی بغاوت اور ضلع بجنورمیں سرکشی کے متعلق لکھی ہیں۔

دوستو!پڑھ کر آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ سرسیدپرلکھنے کے لیے دفتر چاہیے۔ میرا نکتہ یہ ہے کہ وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے برصغیرکے مسلمانوں اورمغربی دنیاکے درمیان ایک زنجیر بننے کی کوشش کی۔انگریز ان کی بات سنتے تھے۔ان کی رائے کواہمیت دیتے تھے اوران کے کام سے شدیدمتاثرتھے۔آج ہمارے اندرجومعمولی سی علمی حرارت ہے وہ اس شخص کی محنت کاپھل ہے۔

دوسرا شخص جس نے مغرب اورمشرق کی فکرکے درمیان ایک رابطہ کامشکل کام سرانجام دیاوہ اقبال تھے۔ایک مردِ عجیب،اندرونی طورپرایک مشرقی روایت پسندانسان تھے۔ مگروہ مغربی تعلیم کے زیورسے بھی آراستہ تھا۔ان کی فکراوران کی قوت اظہاراس درجہ فقیدالمثال ہیں کہ انسان حیران رہ جاتاہے۔ لندن اورجرمنی میں زیرِتعلیم رہنے کے بعد یہ حقیقت سمجھ چکے تھے کہ ہم بحیثیت قوم بہت پیچھے رہ چکے ہیں۔ان کا ـ"نسخہ زندگی "سرسیدسے مختلف تھا۔مگران کی ذات میں وہ انمول جوہرموجودتھاجومشرقی روایات کوقائم رکھتے ہوئے مغرب سے چندجوہری اصول سیکھ سکتاتھا۔سائنس اور تحقیق سے وابستہ علوم کے کافی حدتک قائل تھے کہ مغرب سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔مشرقی روایات اور مغرب کے علوم کایہ ذہنی امتزاج ان کے بعدبالکل نظر نہیں آتا۔آپ شاعری سے صرف نظرکرکے،ان کے خطبات پرنظر ڈالیے۔

ان خطبات کامجموعہ جوReconstruction of Religous Tought in Islamکے نام سے موجود ہے،کوبغورپڑھیے۔بخداآپ حیران رہ جائینگے۔وہ اسلام میں جتنی جدت پسندی کے قائل تھے وہ بذات خودایک فکری انقلاب ہے۔ہم نے اقبال کوشاعرکے طورپرعزت دی مگران کے نثری مضامین کوقالین کے نیچے چھپانے کی بھرپورکوشش کی۔اقبال بنیادی طورپراسلام میں اجتہادکے بہت بڑے داعی تھے۔ان کوہمارے کچھ حلقوں نے بہت شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ان کی فکرکے دھارے کوخطرناک جان کر انھیں دائرہ اسلام سے خارج کرنے کے فتوے جاری کیے گئے۔ مگر وقت کی عدالت میں وہ ہمارے عظیم محسن اور ملک کی فکری اساس کے معمارقراردیے گئے۔ان کی علمی فکرآج بھی قابل تقلیدہے۔اقبال بھی وہ شخص تھے جنھوں نے مغرب اورمشرق کے معاشروں میں ایک دروازے کاکرداراداکیا۔

لڑی کاتیسراموتی وہ شخص ہے کہ ہمارے ملک کااصل معمارہے۔یعنی قائداعظم محمدعلی جناح۔آپ ان کاتعلیمی پسِ منظردیکھیے۔ لندن میں قانون جیسے مشکل مضمون میں تعلیم حاصل کرکے جب واپس پہنچے توانھیں جلدہی اس حقیقت کاادراک ہوگیاکہ مسلمان ہرلحاظ سے مختلف بھی ہیں اوراکثر معاملات میں عملی دنیامیں پیچھے رہ چکے ہیں۔ان کا غیرجذباتی رویہ،شدیدمحنت اوردلیل پرمبنی استدلال وہ بھرپورقوت تھی جس نے ہمیں ایک نیاملک دیدیا۔ان کی فکراورسوچنے کاطریق ہمارے تمام قائدین سے مختلف تھا۔

انھوں نے اپنی زندگی کے بیشترحصے میں جولباس زیبِ تن رکھاوہ مکمل مغربی تھا۔زندگی گزارنے اوربودوباش کاقرینہ بھی مغربی تھا۔ وہ مشرق اورمغرب کے درمیان ایک کڑی کی حیثیت رکھتے تھے۔اس وقت کے مقتدرحلقے یعنی برطانوی وزیراعظم اور دیگر برطانوی قائدکی بات کوغورسے سنتے تھے۔مغربی حلقوں میں انھیں عزت واحترام کی نظرسے دیکھاجاتاتھا۔انھیں بھی ہمارے چندقدامت پسندحلقوں سے شدیدمخالفت کاسامنا کرنا پڑا۔

میں اپنے نکتہ پرواپس آناچاہتاہوں۔آج ہم جتنی بے چارگی کاشکارہیں،وہ صدیوں کی ذہنی غربت کانتیجہ ہے۔ ہمارے مقتدرطبقے اورتاتاریوں میں کوئی فرق نہیں۔ یہ ناجائز دولت کے پہاڑپربراجمان ہیں اورتاتاری انسانی کھوپڑیوں کے مینارپر۔ان کی فکری اورشخصی کمزوریوں کی بدولت ہمارے عقائدکابے رحمی سے مذاق اڑایاجاتاہے۔ہم صرف احتجاج کرسکتے ہیں۔ کمزوراورلاغرسااحتجاج۔جس کومغرب میں کوئی نہیں سنتا۔ہمارااصل المیہ یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی ایسی قدآوارشخصیت موجودنہیں ہے جومغرب کی فکراورہمارے عشق کے درمیان ایک پُل کاکام سرانجام دے سکے، حقیقت میں کمی ہے توایک شخصی زنجیرکی۔صاحبان ایک علمی،فکری اور بلند کردارکی زنجیر۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں