یادوں کے سلسلے نیویارک سے کراچی تک
عمران خان کی پہلی شریک زندگی جمائما کے درمیان شادی نہ جم سکی تو وہ پاکستان چھوڑ کر لندن چلی گئی۔
SIALKOT:
گزشتہ دنوں امریکی ریاست نیویارک کے علاقے لانگ آئی لینڈ میں رہائش پذیر میرے ایک ہم زلف مبشر علی نے اپنی شادی کی سلورجوبلی منائی تھی اور اس موقعے پر ایک چھوٹی سی محفل موسیقی سجائی گئی تھی ۔ اس محفل میں کئی پرانے اور جید فنکاروں کو مدعو کیا گیا تھا جن کا تعلق کراچی اورلاہور کی فلم انڈسٹری سے تھا۔
اس پروگرام کی کمپیئرنگ لاہور کے فلم اور ڈرامہ آرٹسٹ نذیر کر رہے تھے۔ اسد نذیر اداکار کے ساتھ ساتھ گلوکار بھی ہیں ان کے کئی کیسٹ منظر عام پر آچکے ہیں ، ایک ویڈیو بھی نیویارک میں ریلیز ہوچکی ہے جس میں ان کے گائے ہوئے قومی گیت بھی شامل ہیں۔اسد اداکارہ بندیا کے شوہر تھے ، مگر دونوں کی نبھ نہ سکی، جس طرح عمران خان کی پہلی شریک زندگی جمائما کے درمیان شادی نہ جم سکی تو وہ پاکستان چھوڑ کر لندن چلی گئی اور اسد نذیر کے بارے میں پتا چلا ہے کہ وہ امریکا چھوڑ کر دوبارہ پاکستان چلے گئے ہیں، ہوسکتا ہے کچھ دنوں بعد جب نیویارک کی یادیں ستائیں تو اسد نذیر واپس امریکا آجائیں۔
بہرحال بات ہو رہی تھی، محفل موسیقی کی اور اس کی خصوصیت یہ تھی کہ شادی کی سلور جوبلی کی مناسبت سے جو گیت اور غزلیں گائی جا رہی تھیں وہ پچیس سال بعد کی فلموں سے تعلق رکھتی تھیں، ہر غزل اور ہر گیت امر اور سدا بہار تھے۔ اس دوران گائے جانے والے چند گیت پرانی انڈین فلموں کے تھے جو دلوں کو چھو رہے تھے ان کے بول تھے:
٭ہمارے دل سے مت کھیلو' کھلونا ٹوٹ جائے گا
٭ستاروں کی محفل سجی تم نہ آئے
٭محبت کی راہوں میں چلنا سنبھل کے
٭نہ طوفاں سے کھیلو نہ کسی دل سے کھیلو
٭پاؤں چھو لینے دو پھولوں کو عنایت ہوگی
٭سوہانی رات ڈھل چکی نہ جانے تم کب آؤ گے
ان مدھر گیتوں پر ہر دل جھوم رہا تھا اور طبلہ نواز سلیم کا خوبصورت طبلہ ان پرانے گیتوں کے حسن کو دوبالا کر رہا تھا، ہارمونیم پر پختہ کار فنکار محمد حسین تھے، جن کا کراچی کی محفلوں سے بڑا گہرا تعلق رہا ہے۔ تعلق تو شاکر حسین شاکی کا بھی کراچی کی فنکار گلی سے رہا ہے۔ محفل موسیقی کے اختتام پر طبلہ نواز سلیم نے اپنا مکمل تعارف کرایا تو پتا چلا کہ سلیم کا تو لاہور کی بے شمار فلموں سے تعلق رہا ہے اور سلیم موسیقار نثار بزمی، نذیر علی، ایم۔اشرف اور موسیقار کمال احمد کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں اور لاہور میں، میں نے جتنی بھی فلموں کے لیے گیت لکھے تھے ان گیتوں میں طبلہ نواز سلیم ہی ہوتے تھے۔
اس محفل میں کراچی کے ایک پرانے اور پختہ کار گائیک شاکر شاکی سے بڑی تفصیل سے ملاقات ہوئی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب کراچی کے فنکشنوں میں چار گلوکار دوستوں کا ایک گروپ ہوا کرتا تھا جس میں اخلاق احمد، امتیاز مرزا، شاکر شاکی اور عمر کوثر کا نام شامل تھا۔ اب میں عمر کوثر کی طرف آتا ہوں۔ میری بھی ان سے کراچی میں فنکشنز کے دوران کافی ملاقاتیں رہی تھیں۔ یہ غزلیں بہت اچھی گاتے تھے۔ ان دنوں کراچی کی موسیقی کی محفلوں میں جمال اکبر اور عمر کوثر خوب گاتے تھے۔ عمر کوثر کی دو چھوٹی بچیاں تھیں۔ جن کے نام شازیہ کوثر اور شبانہ کوثر تھے۔ یہ بچیاں اپنے والد عمر کوثر کو گاتے دیکھتی تھیں۔ ان بچیوں نے بھی گانا شروع کردیا۔
باپ نے ان کے شوق کو مزید آگے بڑھایا۔ ابتدا میں خود گانا سکھایا۔ پھر اپنے استاد بیبے خاں کو سنوایا انھوں نے بھی بچیوں کی اچھی آواز کی تعریف کی اور پھر ان بچیوں کو موسیقی کی باقاعدہ تعلیم بھی دی اور یہ بچیاں ابھی چھ سات سال کی عمروں کی تھیں اور دیکھنے میں دونوں ٹواِن (Twin) لگتی تھیں۔ یہ آہستہ آہستہ اتنا اچھا گانے لگیں کہ دونوں سفید فراکیں پہن کر فنکشنز میں آنے لگیں اور یہ جس فنکشن میں بھی نور جہاں اور لتا منگیشکر کے گیت گاتی تھیں ان کمسن لڑکیوں کو بڑا پسند کیا جاتا تھا۔ اچھی آواز کے ساتھ گلے میں سروں کا رچاؤ بھی تھا اور پھر یہ دونوں کوثر سسٹرز ہر دوسرے فنکشن میں نظر آنے لگیں۔ اور اپنی خوبصورت آواز کا جادو جگانے لگیں، بچیاں مشہور ہوتی گئیں اور گلوکار عمر کوثر پس منظر میں چلے گئے۔ پھر یہ لڑکیاں ٹین ایج تک پہنچ گئیں۔
اور بڑی بڑی موسیقی کی محفلوں کے علاوہ ٹیلی ویژن پر گانے لگیں۔ اور ان بچیوں کی وجہ سے گھر میں خوشحالی بھی آتی چلی گئی۔ کوثر سسٹرز کے علاوہ، کراچی ٹی وی پر ایک وقت ایسا آیا کہ بنجمن سسٹرز بھی چھاتی چلی گئیں ۔ بنجمن سسٹرز جن کا باپ ایک بہترین میوزیشن تھا اس نے بھی اپنی بچیوں کو موسیقی کی تعلیم دی اور پھر انور مقصود کے میوزیکل پروگرام ''سلور جوبلی'' میں بنجمن سسٹرز کے گیتوں نے دھوم مچا دی تھی یہ تین بہنیں بھی، نور جہاں اور لتا منگیشکر کے گیت گاتی تھیں۔
ان کی شہرت اتنی ہوئی کہ یہ پھر میوزیکل شو کرنے امریکا اور لندن تک گئیں اب جب کہ موسیقی کی دنیا میں بنجمن سسٹرز، کوثر سسٹرز کی بات چل نکلی ہے تو مجھے ریڈیو پر موسیقی کے پروگراموں میں حصہ لینے والی پارسی بہنیں دستور سسٹرز بھی یاد آگئیں یہ بھی ان دنوں کی بات ہے جب میں ریڈیو سے بچوں کے پروگرام لکھتا تھا اور بچوں کے پروگراموں میں حصہ بھی لیتا تھا، ان دنوں قاضی واجد اور مقبول علی بھی بچوں کے پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔ ان ہی دنوں علامہ اقبال کی مشہور نظم:
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
اس نظم کو نئے سرے سے ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اور بہت سی کورس کی آوازیں شامل تھیں اور ان خاص آوازوں میں دستور سسٹرز کے ساتھ ریحانہ یاسمین، نگہت سیما، اقبال علی شامل تھے۔ پرویز دستور کے ساتھ احمد رشدی نے اس نظم کو لیڈ کیا تھا۔ دستور سسٹرز نے زیادہ تر ریڈیو پر ہی گایا یا پھر کسی خاص گھریلو محفل میں غزلیں اور گیت گاتی تھیں اور پرویز دستور نے تو کچھ عرصہ استاد امراؤ بندوخاں سے موسیقی کی تعلیم بھی حاصل کی تھی۔ بات نیویارک کی ایک محفل موسیقی سے شروع ہوئی تھی اور میں کراچی کی محفلوں میں کھو گیا۔
یہاں ایک اور دلچسپ بات بیان کرتا چلوں کہ کراچی کے فنکشنز اور موسیقی کی محفلوں میں گانے والے گلوکار اور گلوکاراؤں جن میں اخلاق احمد، تحسین جاوید، سجاد علی،محمد علی شہکی، حسن جہانگیر، رونا لیلیٰ، ڈینا لیلیٰ، شبانہ کوثر، شازیہ کوثر، روبینہ بدر اور حمیرا چنا یہ سب ایک ہی استاد کے شاگردوں میں شامل تھے اور اس استاد کا نام بیبے خاں تھا۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ میں نے مذکورہ فنکاروں سے جب بھی یہ پوچھا تھا کہ تم نے موسیقی کی تعلیم کس سے حاصل کی تو سب کا ایک ہی جواب سننے کو ملتا تھا ''استاد بیبے خاں'' اور ایک عجیب اتفاق یہ بھی ہوا کہ میں استاد بیبے خاں سے خواہش کے باوجود نہ مل سکا پھر میں لاہور چلا گیا اور وہاں کی فلم انڈسٹری سے منسلک ہوگیا۔
بارہ تیرہ سال کے بعد واپس کراچی آیا تو استاد بیبے خاں اس دنیا ہی کو چھوڑ چکے تھے وہ ایک ماہر طبلہ نواز بھی تھے اور طبلے پر ان کے ہاتھ کا حسن بڑا نمایاں تھا وہ سیدھے سادے انسان تھے۔ موسیقی ہی سے ان کا کھانا پینا تھا اور موسیقی ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا آج وہ دنیا میں نہیں ہیں مگر ان کے بے شمار شاگرد موجود ہیں جو شہرت کی بلندیوں پر ہیں اور فن کے ذریعے وہ آج اپنا اور اپنے استاد کا بھی نام روشن کر رہے ہیں۔