عوام اپنے حقیقی مسائل پر توجہ دیں
اس روش نے قوم، ملک، مذہب، اخلاقیات سب کو پس پشت ڈال دیا ہے۔
KARACHI:
کئی عشروں سے پاکستانی قوم گونا گوں مسائل ومصائب میں گھری ہوئی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے خوشیاں ہم سے روٹھ چکی ہیں۔ ہمارے حصے میں صرف مصائب و الم ہی باقی رہ گئے ہیں ملک کے طول وعرض میں لوگوں کو مذہبی، لسانی اور جغرافیائی درجہ بندیوں میں تقسیم کردیاگیا ہے۔ ملک اندرونی و بیرونی سازشوں کا شکار ہے، دہشت گردی، قتل و غارت گری، ٹارگٹ کلنگ، اغوا و تاوان، بھتہ گیری اور مذہبی منافرت اور لسانیت اپنے عروج پر ہے۔
سیاست دان، حکمران اور خود عوام اس کھیل کا یا تو حصہ بنے ہوئے ہیں یا پھر کم علمی و کم عقلی اور مبالغہ آرائی کی وجہ سے اس کا ایندھن بنائے گئے ہیں۔ ہر شخص کی آنکھوں پر ایک مخصوص عینک چڑھا دی گئی ہے وہ حقیقت سننے اور سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہے صرف وہ ہی دیکھنا چاہتا ہے جو اس عینک کے تخلیق کار اسے دکھانا چاہتے ہیں۔
اس روش نے قوم، ملک، مذہب، اخلاقیات سب کو پس پشت ڈال دیا ہے، البتہ اپنے مخصوص مفادات و مقاصد کی خاطر ان کا بے محل اور برملا استعمال کیا جاتا ہے آخرت میں جوابدہی کا تصور تو درکنار دنیا میں بھی جوابدہی و احتساب کے تصور و احساس سے مبرا ہوچکے ہیں۔ عوام کو صحت و صفائی، تعلیم و انصاف جیسی بنیادی سہولیات پہلے بھی بہت کم حاصل تھیں اب تقریباً ناپید ہوتی جا رہی ہیں نہ حکومتیں انھیں اپنی ذمے داری سمجھتی ہیں نہ ہی یہ سیاسی، سماجی، مذہبی جماعتوں کی ترجیح میں شامل ہیں۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ شاید انھیں ان بنیادی سہولتوں کی ضرورت ہی نہیں یا پھر وہ ان سے محرومی کو اپنی تقدیر کا حصہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ کیوں کہ حکمران اور سیاسی و مذہبی لسانی جماعتوں کے مسائل کچھ اور ہی ہیں۔
جنھیں وہ قومی، صوبائی، علاقائی، مذہبی و مسلکی اور عوامی مسائل بناکر عوام کو گمراہ کرنے اور ان کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹاکر دوسری جانب مرکوز کرا دیتے ہیں اور عوام جوق در جوق ان کی پیروی میں جتے ہوئے نظر آتے ہیں جیسے ان کا کوئی اور مسئلہ ہی نہ ہو۔ ملک اندھیروں میں ڈوب رہا ہے، بجلی ہے نہ پانی، ٹرانسپورٹ کا نظام تباہ ہوچکا ہے۔ سڑکیں بد حال اور ٹریفک جام ہے۔ حکومتی محکمہ کرپشن و ظلم کی آماج گاہیں بنی ہوئی ہیں۔
قومی خزانہ لوٹا جا رہا ہے۔ لوٹنے والوں کو تحفظ دینے والے ہر سطح پر موجود ہیں۔ اس پر وقتی واویلا کرنے اور شور مچانے والوں کا کردار بھی چور مچائے شور جیسا ہے جو ایسا صرف بلیک میلنگ اور اپنے ذاتی و سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ دوسری جانب صورت حال یہ ہے کہ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے جنھیں پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ہے۔ جن کی غالب اکثریت مختلف قسم کے نفسیاتی عوارض کا شکار ہوچکی ہے۔ 40 فی صد شہری امراض قلب میں مبتلا ہیں۔ ہارٹ فیل ہونے سے سالانہ لاکھ سے زیادہ اموات اور گردے و جگر کے امراض سے 25 ہزار ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ قائمہ کمیٹی برائے صحت کے مطابق ملک میں ناقص طبی سہولتوں کے باعث سالانہ 5سال سے کم عمر کے ساڑھے تین لاکھ سے زائد بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
مستند دائی یا ڈاکٹر کی سہولت نہ ملنے کی وجہ سے زچگی کے دوران سالانہ 28 ہزار اموات ہوتی ہیں۔ ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے صرف کتے کے کاٹنے سے 8 ہزار افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ٹی بی جس پر ایک زمانے میں مکمل قابو پا لیا گیا تھا آج اس کے 5 لاکھ سے زائد مریض ہیں جس سے سالانہ 68 ہزار اموات واقع ہو رہی ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق پینے کا صاف پانی نہ ملنے کی وجہ سے 85 لاکھ سے زائد افراد ہیپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا ہیں۔ پولیو، ملیریا، ڈینگی، نگلیریا اور ایبولا جیسے امراض سے بچاؤ کا کوئی خاطر خواہ بندوبست نہیں ہے۔ پولیو میں پاکستان، افغانستان اور نائیجیریا کے ساتھ کھڑا ہے اور اقوام متحدہ بھی اس مرض کے خاتمے میں ناکامی کا الزام پاکستان کو دے رہا ہے پاکستان پر سفری پابندیاں لگ رہی ہیں۔
یو این او اور دیگر عالمی اداروں کے وفد اس سلسلے میں پاکستان آکر یہاں کے وزیراعظم، وزرا اعلیٰ، گورنر اور سیاست دانوں سے ملاقات کرکے اپنی تشویش کا اظہار اور اس کے تدارک کا مطالبہ کررہے ہیں۔ قدرتی آفات اور حادثات سے بچنے اور ان کے نقصانات کم کرنے کے لیے انتظامات اور امداد کے بارے میں ہماری خوش فہمیاں کشمیر کے زلزلہ، سیلاب کی تباہ کاریوں، کراچی کی فیکٹری میں رات بھر زندہ جلتے محنت کشوں اور لاہور کی مارکیٹ میں آتشزدگی کی صورت میں دور ہوچکی ہیں۔
کراچی میں ٹمبر مارکیٹ رات بھر جلتی رہی، نیشنل ہائی وے پر حادثے کے بعد لگنے والی آگ میں بس کے مسافروں کے زندہ جسم رات بھر جلتے رہے مگر فائر بریگیڈ گھنٹوں بعد جائے حادثہ پر پہنچی، ان کی گاڑیوں میں پانی تک نہیں تھا۔ اتنے بڑے حادثات میں سوائے کمشنر کراچی کے کوئی حکومتی عہدیدار جائے وقوع پر پہنچا نہ سیاست دانوں کو فوٹو سیشن کے لیے ہی جائے حادثہ پر پہنچنے کی توفیق ہوئی کیوں کہ ان کے لیے دوسرے بہت سے ترجیحی موضوعات تھے۔
قدرتی آفات و حادثات سے بچاؤ اور ان کی تلافی کے لیے محکمہ اور عہدے تو بنا دیے گئے ہیں جن سے منظور نظر افراد خوب مستفید ہو رہے ہیں مگر ان کی کارکردگی صفر ہے، کشمیر کے زلزلے اور سندھ میں سیلاب کے متاثرین آج تک اپنی بحالی کے منتظر ہیں۔ آتشزدگی میں سرمایہ داروں کی ہوس اور متعلقہ اداروں کی مجرمانہ غفلت بلکہ پشت پناہی کی وجہ سے جل کر بھسم ہوجانے والے سیکڑوں مزدوروں کی بیوہ، یتیم بچے اور بوڑھے والدین انصاف و امداد بلکہ بعض تو اب تک لاشوں کے منتظر ہیں مگر ان کے ذمے داران آزاد و بے خوف ہیں۔ ایسے واقعات سے انھیں مزید بے خوفی، غیر ذمے داری، قانون شکنی اور رشوتوں کے نرخ میں اضافہ کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔
حکومت کی جانب سے کسی بھی حادثے پر واجبی سے بیانات دینے کچھ امداد کا اعلان کرنے کے بعد ایک حادثے کے بعد کسی دوسرے حادثے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ حکومت کی جانب سے امداد و انعام کے سلسلے میں بھی کوئی اصول و ضابطہ نظر نہیں آتا ہے۔