جادو نگری

ہماری سیاست بھی عجیب سیاست ہے، جہاں سے شروع ہوتی ہے لمبے لمبے سفر کرنے کے بعد بھی پھر اسی جگہ آجاتی ہے۔


فرح ناز January 17, 2015

ہماری سیاست بھی عجیب سیاست ہے، جہاں سے شروع ہوتی ہے لمبے لمبے سفر کرنے کے بعد بھی پھر اسی جگہ آجاتی ہے جہاں سے چلی ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سیاستدان اور ان کی زندگیاں آگے بڑھ جاتی ہیں اور بہت آگے بڑھ جاتی ہیں کبھی یہ سب دوست بن جاتے ہیں اور کبھی دشمن، کبھی یہ کھانے ساتھ انجوائے کرتے ہیں اور کبھی ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے ہوتے ہیں۔ اور رہی سہی کسر میڈیا نے پوری کردی ہے ہر لمحہ اسکرین پر دکھا دکھا کر ان کو خبروں میں رہنے کا عادی بنا دیا ہے۔

عوام اب اپنا سر پکڑ پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ پتا ہی نہیں چلتا جھوٹا کون اور سچا کون۔ اتنی سنجیدگی سے قسمیں کھا کھا کر جھوٹ بولا جا رہا ہوتا ہے کہ لگے یہ بندہ ہی سچا ہے لیکن جب دوسری طرف کی بات سنیں تو لگے ارے وہ تو جھوٹ بول رہا تھا یہ بندہ سچا ہے۔ ایک دوسرے پر الزام لگائے جاتے ہیں، ثبوت دیے جاتے ہیں مگر کسی پر کوئی اثر نہیں ہوتا صبح کسی پر الزام لگتا ہے اور شام کو وہ کسی پر الزام لگا رہا ہوتا ہے، کھیل ابھی جاری ہے دوست!

مگر عوام آج بھی ان ھی دکھوں اور پریشانیوں کی مارے ہوئے ہیں جہاں وہ پہلے تھی۔ دولت کے انبار، بیرونی امداد، نئی ایجادات، جدید لائف اسٹائل، تمام تر چیزیں اپنی جگہ مگر تعلیم کا فقدان، غربت و افلاس، جھوٹ و فریب، دھوکا دہی یہ سب بھی اپنی جگہ موجود، پتا نہیں وہ کون سا سال اور کون سا مہینہ ہوگا وہ کون سا دور اور کون سا زمانہ ہوگا جب ہم سب سکھ کا سانس لیں گے جب ہمیں اپنے حکمرانوں پر اپنے سیاستدانوں پر فخر ہوگا، عدل و انصاف ہوگا اور سب کے لیے زندگی آسان ہوگی، بنیادی ضرورتیں وافر مقدار میں دستیاب ہوں گی۔

ہمارے بچوں کو اپنے ہی ملک میں وہ تمام سہولیات دستیاب ہوں گی جن کے لیے وہ مختلف سفرکرتے ہیں اپنے بوڑھے والدین کو اکیلا چھوڑ کرکہیں دور چلے جاتے ہیں سمجھ سے باہر ہیں ان سب کے رویے کہ اگر پیسہ ہی صرف سیاستدانوں کی ضرورت ہے اور ان کو ایسا لگتا ہے کہ یہ تمام اپنی مشکلات کو پیسے کے ذریعے حل کرسکتے ہیں، جہاں انصاف نہیں ہوگا اسی کی رسی کسی جائے گی اور ایسی کسی جائے گی کہ زمانہ ان کو یاد رکھے گا۔ ایک آدمی زیادہ سے زیادہ 4 روٹیاں کھا لے گا ایک پلیٹ بھر کر سالن کھا لے گا، ایک چھوٹی پلیٹ میٹھا بھی کھا لے گا، اس سے زیادہ کھائے گا تو وہ اسپیشل ہوگا تو یہ تمام کے تمام سیاسی لوگ اسپیشل لوگ ہیں یہ کھاتے جاتے ہیں بس کھاتے جاتے ہیں پھر ان کا علاج ضروری ہوجاتا ہے۔ڈاکٹر صاحب اگر اچھے ہوتے ہیں تو آہستہ آہستہ علاج کرتے ہیں اور اگر غصے کے تیز ہوں تو بس ایک دم آپریشن۔

اس کے بعد کافی دن تک افاقہ رہتا ہے۔ توبہ ہے پاکستان نہ ہوا ایک جادونگری ہوگیا جہاں سائے ہیں، جن ہیں بھوت ہیں، بڑے بڑے دانتوں والی چڑیلیں ہیں اور خون پینے والے ڈریکولا۔ اور ہم انتظار کر رہے ہیں ایک ایسے پائپر کا جو ایک سکون کا ساز چھیڑے گا تمام بدروحیں، تمام بھوت اس کے پیچھے پیچھے جائیں گے وہ انھیں اندھے کنوئیں میں دھکیل دے گا اور تمام معاشرہ سکون کا سانس لے گا اور اللہ کا شکر ادا کرے گا۔ لیکن یہ ہوگا کب؟ کیا ہماری دعاؤں میں اثر نہیں ہے، کیا مظلوم کے دل سے بددعائیں نہیں نکلتیں، کیا ہر کسی کا حق مارا جاسکتا ہے، کیا ہر شہری کیڑا مکوڑا ہے، کیا عقل پر پردے پڑ گئے ہیں، یا پھر ہم اللہ کے عذاب میں مبتلا ہیں اور اپنے آپ کو راہ راست پر لانے کو تیار نہیں۔

ہر ایک سیاستدان دوسرے سیاستدان کو جھوٹا کہہ رہا ہے۔ عمران خان نے 126 دن دھرنا دیا، عوام نے اپنی جان و مال کی قربانی دی امید یہی رکھی گئی کہ اب کچھ اچھا ہوگا، عمران خان چیخ چیخ کر اپنے آپ کو سچا کہتے رہے، ایک چھوٹی سی بات پر عوام پریشان ہوگئے اور سمجھ ہی نہیں پائے کہ عمران خان شادی کے حوالے سے اتنے متضاد کیوں ہوئے، اگر دو مہینے پہلے نکاح کر لیا تھا تو چھپانے کی کیا ضرورت تھی، 8 جنوری کو پوری قوم نے ایک ڈراما دیکھا اور مزے کی بات یہ کہ مولانا صاحب بھی ڈرامے کا حصہ بن گئے، اعتبار کس پر کرے کوئی؟

بات کچھ بھی نہ تھی شاید اپنے آپ کو میڈیا میں رکھنے کے لیے اپنی Rating برقرار رکھنے کے لیے تجسس برقرار رکھا گیا ہو، جس کا دردانگیز فیڈ بیک عمران خان کو 14 جنوری آرمی اسکول کے دورے پر ملا، باشعور عوام نے لیڈر حضرات سے سوال کیا کہ اگر آپ ہمارے دکھ میں شامل نہیں تو آپ ہمارے کس کام کے، لیڈر نام کا لیڈر نہیں ہوتا وہ جب لیڈر کہلانے لگتا ہے تو ڈھیر ساری ذمے داریاں اس کے کاندھوں پر آجاتی ہیں۔ اس کی اپنی زندگی، اپنا لائف اسٹائل صرف وہی ہوتا ہے جو عوام کا ہوتا ہے۔ عوام کے دکھوں اور غموں میں وہ اپنی خوشیاں نہیں منا سکتا، اس کو انتظار کرنا پڑتا ہے کہ کب اس کے عوام خوش ہوں گے کہ وہ بھی خوش ہوسکے، یہ کھیل تماشے والی سیاست اب ہماری زندگیوں سے ختم ہونی چاہیے کہ ہماری آنے والی نسل زیادہ باشعور اور تعلیم یافتہ ہے وہ تمام دنیا کے رویوں کا جائزہ لے رہی ہے۔

وہ مقابلہ کرتی ہے ہر اس عمل کا جو ہمارے سیاستدان بڑے دھڑلے سے کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سب اندھے گونگے ہیں۔''میں'' نے آج تک کسی کو عزت نہیں دی، سر پھرے اپنی ''میں'' میں زندہ رہ کر زندہ درگور ہوجاتے ہیں۔ اور تاقیامت تک کے لیے عبرت بن جاتے ہیں۔ یہ جادونگری ہے اور اس میں مختلف لوگ اپنے کرتب دکھانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں اور اس جادونگری میں قربانی اور صدقے کے لیے عوام کو استعمال کیا جاتا ہے۔

بہرحال جناب! جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے عقل و شعور بھی انگڑائیاں لے رہا ہے اب عوام کو سمجھ آچکا ہے کہ جب نواز شریف کی حکومت آتی ہے تو ٹیکس کا بھی طوفان آجاتا ہے جیسے نیا موبائل لینے پر چاہے وہ 5 ہزار کا ہو یا 50 ہزار کا، عوام کو 200 روپے ٹیکس دینا ہوگا، یہ ٹیکس گورنمنٹ کی جیب میں جائے گا، گاڑیوں پر ٹیکس، ضروریات زندگی پر ٹیکس، عوام چکرا چکرا کر گر رہے ہیں مر رہے ہیں مگر تمام بادشاہ صاحبان اپنے پروٹوکول کے ساتھ اپنی اپنی زندگیوں کو انجوائے کر رہے ہیں۔

پاکستان ایک فلاحی ملک کے نام پر بنا مگر یہ ایسا میدان بن گیا ہے جہاں مختلف ٹیمیں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔آرمی اسکول کے خوفناک حادثے کے بعد اسکول دوبارہ سے کھل گیا جن والدین نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو کھویا وہ زاروقطار روتے رہے کہ اللہ عالی شان ان تمام خاندانوں کو صبر جمیل عطا فرمائے کہ وہی بہترین حکمت والا ہے اور ہر شے کو واپس اسی کے پاس جانا ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ان کی اہلیہ اسکول کے پہلے دن اسمبلی میں بچوں کو ویلکم کرنے کے لیے موجود تھے، دھرنوں کے دوران عمران اور طاہر القادری سے ملاقات ہو یا اے پی سی میں تمام سیاسی رہنماؤں کے ساتھ موجودگی، ملک اور قوم کے لیے ان کی فکر اب ڈھکی چھپی نہیں رہی، فوجی عدالتیں بھی اب آئین کا حصہ بن چکی ہیں۔ دو سال کے لیے دہشت گردوں کو پھانسی کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے۔

ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے ایک دوسرے کی عزت کرنی چاہیے اور جدوجہد اور محبت پر یقین رکھنا چاہیے کہ رزق اور زندگی و موت صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہی اس پر قادر ہے مگر شرط یہ ہے کہ اللہ کے Rules کو فالوFollow کریں، نہ حق ماریں اور نہ حق مارنے دیں، عدل و انصاف سب کے لیے مکمل طور سے برابر ہو۔جب ہم بہت مایوس ہوتے ہیں تو اللہ ایک کرن امید کی ضرور دکھاتا ہے۔

جو واپس زندگی کی طرف رواں دواں کردیتی ہے، بالکل ایسے ہی ایک نہ ایک دن یہ ملک سکون اور امن کا گہوارہ ضرور ہوگا سارے جن بھوت اور چڑیلیں ایک دن اپنے انجام کو ضرور پہنچیں گے اور اس جادونگری میں پھولوں کی خوشبو ہوگی اور چمکتا ہوا نیلا آسمان۔ رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے، اب سب کو یہ بات سمجھ آجانی چاہیے کہ وہ بہت زیادہ دیر تک لوگوں کو بے وقوف نہیں بنا سکیں گے عوام کو ڈلیور کرنا پڑے گا کہ اب خالی باتوں سے پیٹ نہیں بھرا جاسکتا۔ کچھ ہمارے فلاسفر کہتے ہیں کہ عوام اتنی مایوس ہوچکے ہیں کہ بے حس ہوگئے ہیں اب ان کے برابر بیٹھا آدمی اپنی تکلیف سے رو رہا ہو تو وہ دیکھی ان دیکھی کردیتے ہیں۔ غم اور دکھ اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ برداشت کی حد بھی ختم ہوگئی ہے۔ اللہ ہم سب پر رحم کرے۔( آمین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں