سامراج کا ایجنڈا

انسانی سوچ سیکڑوں ہزاروں سال میں تشکیل پاتی ہے اور اس میں تبدیلی کا عمل انتہائی سست ہوتا ہے۔


Zamrad Naqvi January 19, 2015
www.facebook./shah Naqvi

فرانسیسی صدر نے کہا ہے کہ مذہبی جنونیت سے خود مسلمان سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ادھر کیتھولک عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے بھی فرانسیسی جریدے میں شایع ہونے والے گستاخانہ خاکوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آزادی اظہار کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ کسی بھی مذہب کا مذاق اڑانا درست نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر کوئی میری ماں کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرتا ہے تو اسے میرا گھونسا کھانے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔

نازیبا خاکوں کی پاکستان سمیت پوری دنیا میں شدید مذمت کی جا رہی ہے۔اصل بات یہ ہے کہ نائن الیون کے بعدمغربی دنیا میں مسلمانوں کے خلاف جذبات شدت پکڑ گئے اور فرانسیسی جریدے پر حملے نے اس میںمزید شدت پیدا کر دی ہے۔ جرمنی میں مسلمانوں کے خلاف مظاہرے باقاعدگی سے کیے جا رہے ہیں جن کا آغاز گزشتہ سال اکتوبر سے ہوا ہے۔ جرمنی میں ترک نژاد مسلمانوں کی تعداد تیس لاکھ سے زائد ہے۔ جب کہ وہاں مجموعی طور پر 4 ملین مسلمان رہائش پذیر ہیں جنھیں ووٹ ڈالنے سمیت ہر طرح کے حقوق حاصل ہیں۔

یہ افراد 1960ء کی دہائی کے آغاز میں جرمنی کی تعمیر نو میں حصہ لینے کے لیے وہاں آئے۔ اتنا طویل عرصہ رہنے کے باوجود ترک مسلمانوں نے اپنا تشخص برقرار رکھا۔یہ وہی صورتحال ہے جو پاکستانی تارکین وطن میں بھی، جو برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں، شدت سے پائی جاتی ہے۔ فرانس میں بھی طویل عرصے سے 50 لاکھ مسلمان رہائش پذیر ہیں جن کا تعلق مراکش اور الجزائر سے ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ یورپ کے دل جرمنی اور فرانس میں رہنے والی مسلم کمیونٹی جس کی تعداد ایک کروڑ کے قریب ہے کے تضادات مقامی آبادی سے بڑھتے چلے گئے۔

مغربی و اسلامی تہذیب میں تضادات اس لیے بھی شدت پکڑ گئے کہ مسلمانوں میں مذہبی شدت پسندی زور پکڑ گئی۔ اس لیے وہاں کی نسل پرست تنظیموں نے کہنا شروع کر دیا کہ اگر مسلمانوں کو مغرب میں رہنا ہے تو یہاں کے قوانین کا احترام کرنا ہو گا۔ اگر وہ اسلامی شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں تو انھیں واپس اپنے مادر وطن کو لوٹ جانا چاہیے۔ امریکا ہو یا یورپ وہاں تمام مذاہب کو مکمل آزادی حاصل ہے۔کوئی مقامی باشندہ ان کی مذہبی آزادی میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ برعکس اس کے مسلمان ملکوں میں اقلیتوںکے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ جب مسلمان ملکوں کے باشندے یورپ آئے تو ان کا تعلق غریب طبقے سے تھا۔ یہ اپنے ملکوں میں بنیادی حقوق سے محروم تھے کیونکہ ان کے اپنے ملکوں میں بادشاہت یا آمریت تھی۔ معاشی استحکام حاصل کرنے کے بعد یہ اپنی تاریخ اور مذہب کی طرف متوجہ ہوئے خصوصاً ترک جنہوں نے یورپ کے کئی ملکوں پر حکومت کی اب وہ وہاں مزدوری کرنے پر مجبور تھے۔ وہ دور یورپ کے معاشی عروج کا دور تھا۔ مقامی آبادی غیر ملکیوں کو برداشت کرتی رہی لیکن اب ماضی خواب ہوا۔ یورپ بدترین معاشی بحران کی لپیٹ میں ہے۔ اس کی مثال اسپین، یونان، پرتگال، اٹلی اور برطانیہ بھی ہے۔بے روزگاری اپنی انتہا پر ہے۔

اسپین میں روزگار ہی نہیں ملتا۔ سرمایہ دارانہ نظام تاریخ کے بدترین بحران کی لپیٹ میں ہے۔ نسل پرست تنظیمیں اسی چیز کو استعمال کرتے ہوئے مقامی آبادی کا ذہن بنا رہی ہیں کہ بے روزگاری اور دوسرے معاشی مسائل کا خاتمہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ غیر ملکیوں خصوصاً مسلمانوں کو اپنے ملکوں میں واپس بھیج دیا جائے۔ دوسرا بڑا پراپیگنڈا یہ ہے جس سے مقامی آبادی کو ڈرایا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کی شرح پیدائش بہت زیادہ ہے اور ایک وقت آئے گا کہ مسلمانوں کی تعداد مقامی آبادی سے بڑھ جائے گی اور وہ یورپ پر قبضہ کر لیں گے۔

بہرحال توہین آمیز خاکے افسوسناک ہیں۔ کسی کے سر پر ہتھوڑا مار کر اس کی سوچ میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ انسانی سوچ سیکڑوں ہزاروں سال میں تشکیل پاتی ہے اور اس میں تبدیلی کا عمل انتہائی سست ہوتا ہے۔ آزادی رائے کے نام پر کسی کی سوچ کو ہتھوڑا مار کر بدلنا دہشت گردی ہے۔

نائن الیون کے بعد دنیا بدلی تھی لیکن پیرس حادثہ کے بعد دنیا ایسی بدلے گی کہ پہچاننے میں نہیں آئے گی۔ مذہبی انتہا پسند جس طرح سوویت یونین کے خلاف استعمال ہوئے' آج بھی یہ بالواسطہ طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔ ایک حکمت عملی کے تحت انھیں طویل مدت تک کھلی چھٹی دی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ اور ان کے ہمدرد دنیا پر قبضہ کرنے کے خواب دیکھنے لگے۔ یہ سب ایک جال تھا۔جس میں یہ پھنس چکے ہیں۔ وہ قوتیں جو ان کی کمر توڑ سکتی تھیں خاموش رہیں ۔ اب صورت حال بدل گئی ہے۔

مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک ''ری برتھ'' ہونے والی ہے جس کا ذکر اپنے کالموں میں پچھلے 8 سال سے مسلسل کر رہا ہوں۔ اب اس کی تعبیر کا وقت ہے۔ اس ضمن میں ہمارے پڑوس میں ہندو بنیاد پرستی بھارت کے اقتدار اعلیٰ پر قبضہ کر چکی ہے۔ قیامت بپا ہونے جا رہی ہے اور گلوبل اسٹیبلشمنٹ کا خوفناک قبضہ دنیا پر ہونے جا رہا ہے۔ اس پس منظر میں انقلاب روس سے لے کر ایرانی انقلاب تک لاکھوں کروڑوں انسانوں کی قربانیاں سامراج سے آزادی کے لیے رائیگاں ہی تو گئیں۔۔۔ رہے نام اللہ کا

...سانحہ ماڈل ٹاؤن فروری مارچ میں اپنے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو جائے گا۔

21,20 تا 23پٹرول بحران کی شدت میں کمی آئے گی۔ سیل فون:۔ 0346-4527997

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں