انصاف کب ملے گا
جرائم پیشہ افراد ان قانونی ہتھکنڈوں کے باعث دندناتے پھرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی بڑے آدمی کو سزا نہیں ملی۔
PERTH:
پچھلے ہفتے سینٹرل جیل جانے کا اتفاق ہوا۔ کہیں آپ یہ نہ سمجھ لیں کہ ہم کسی جرم کی وجہ سے جیل گئے بلکہ یہ جیل یاترا قیدیوں کے آرٹ کے نمونے دیکھنے کے سلسلے میں کی گئی تھی جن کی دعوت ہمیں عبدالوہاب اور سکندر جوگی کی جانب سے دی گئی تھی۔ سکندر جوگی جیل میں قیدیوں کو آرٹ سکھاتے ہیں۔
مختلف جرائم کا شکار یہ قیدی جن میں قاتل بھی تھے اور دوسرے جرائم کا شکار بھی مگر ان کے فن پارے دیکھ کر لگ رہا تھا کہ ان کے اندر بھی ایک حساس دل دھڑک رہا تھا جوکہ قدرت کی صناعی سے لطف اندوز بھی ہوتا ہے اور اپنے اندر کے احساسات کو کینوس پر بھی زبان دے سکتا ہے کیونکہ بہت سی تصویریں تو خود سے کہہ رہی تھیں کہ احساس کے برش کو حسرتوں کے رنگوں میں ڈبو کر تخلیق کیا گیا ہے۔
یہ تصویر اپنے خالق کی اندرونی کیفیت کا پتا دے رہی تھی کہ فنکار کسی بھی پردے میں ہو مگر روح کی لطافت سے محروم نہیں ہوتا وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے یہ قیدی مختلف جرائم میں ملوث ہوئے یہ ایک الگ ڈبیٹ ہے مگر ان فن پاروں کو دیکھ کر لگتا تھا کہ اندر کا انسان مرا نہیں ابھی زندہ ہے صرف چند چیزوں کی ضرورت ہے جس کی بنا پر یہ لوگ بھی معاشرے میں دوبارہ فعال کردار ادا کرسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ ایک بات اور دیکھنے میں آئی کہ اکثر قیدی ایسے بھی تھے جوکہ بہت معمولی جرائم میں ملوث تھے مگر ابھی تک ان کے مقدمات کی سماعت نہیں ہوسکی تھی اور وہ اپنے جرائم کی سزا سے زیادہ سزا کاٹ چکے تھے۔ ہمارا عدالتی نظام اتنا فرسودہ ہوچکا ہے جس میں کسی انسان کو انصاف ملنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ حالانکہ ریاستی اداروں میں عدلیہ کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے کیونکہ ایک آزاد اور مضبوط عدلیہ کے ذریعے ہی قانون کی حکمرانی عدل و انصاف کا حصول ممکن بنائے جاسکتے ہیں کیونکہ ایک آزاد اور مضبوط عدلیہ شہریوں اور حکومت کے درمیان غیر جانبدارانہ ثالثی پل کا کام انجام دیتی ہے۔
اسی لیے جمہوریت کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ اس معاشرے میں انصاف کے حصول کے ادارے آزاد، خودمختار اور کسی بھی قسم کے دباؤ سے آزاد ہوں اور ساتھ ساتھ سستا اور فوری انصاف بھی فراہم کرسکیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے اسی لیے اکثر عدلیہ خود سر حکمرانوں کے آگے سرنگوں نظر آتی ہے یا پھر پیچیدہ نظام کی بدولت عام شہریوں کو انصاف کے حصول میں عدالتوں کے چکر کاٹنے میں کوفت اٹھانا پڑتی ہے۔ وکیلوں کے ہتھکنڈے رشوت ستانی اور مختلف قانونی موشگافیوں کی بدولت اکثر تو یہ ہوتا ہے کہ انصاف کا طلب گار ہی مجرم ٹھہرا دیا جاتا ہے یا اسے اپنے حق سے محروم کردیا جاتا ہے ۔
جرائم پیشہ افراد ان قانونی ہتھکنڈوں کے باعث دندناتے پھرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی بڑے آدمی کو سزا نہیں ملی اگر کسی کو سزا ملی بھی تو وہ بھی سیاسی پریشر بڑھانے کے لیے دی گئی تاکہ مخالفین کو اپنے قابو میں رکھا جاسکے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ برسر اقتدار آنے والی جماعتیں اپنے کارکنوں اور ہمدردوں کو اس طرح سے مقدموں سے نکال لیتی ہیں جیسے مکھن میں سے بال جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایسا ادارہ جوکہ انصاف مہیا کرنے کا ذریعہ ہے اس ادارے پر بھی شکوک و شبہات کی انگلیاں اٹھنے لگتی ہیں۔
پشاور سانحے کے بعد جب دہشت گردی کی روک تھام کے لیے فوجی عدالتوں کا قیام ناگزیر سمجھا گیا تو ملک کے 80 فیصد عوام نے اس کی حمایت کی کیونکہ علم تھا کہ فوری انصاف ہوگا اور دہشت گردوں کو قرار واقعی سزا ملے گی مگر اس میں بھی سیاست دانوں کو نظر آنے لگا کہ کہیں ہم ہی دام میں نہ آجائیں۔
اسی لیے دبے دبے لفظوں میں ان کے مضمرات کو بیان کرنے لگے کہ کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے۔ کچھ بزرگوں کا تو یہ حال تھا کہ تھر میں اموات ہوں یا سانحہ پشاور یا ہزارہ برادری پر کیے گئے ظلم و ستم ہوں کسی پر آنکھ نہ ٹپکی مگر فوجی عدالتوں کے قیام پر رو رو کے بے حال ہوگئے کہیں یہ اندر کا خوف تو نہیں تھا کہ ان حضرات سے کوئی پوچھے کہ آج اگر ہمارا عدالتی نظام اسلامی اور جمہوری روایتوں کا صحیح امین ہوتا تو فوجی عدالتوں کی نوبت ہی کیوں آتی کیونکہ ہمارے مذہب میں عدل سے متعلق صریح احکامات 17 آیات میں واضح طور پر موجود ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام زندگی حق و انصاف کی بالادستی میں ہی گزری ہے۔
ایک موقعے پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ بیان کہ خدا کی قسم میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا۔ اس بیان کی روشنی میں عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ انصاف کی نظر میں سب انسان برابر ہیں بلاامتیاز اگر کارروائی کی جائے تو معاشرے میں توازن برقرار رہتا ہے۔ ورنہ بے چینی اضطراب اور بالآخر معاشرہ تباہی کی طرف گامزن ہوجاتا ہے۔
آج پاکستانی معاشرہ اسی کیفیت کا شکار نظر آتا ہے قانونی انتظامی اداروں سے اعتماد ختم ہوگیا ہے ایک عام آدمی اگر بینک سے قرض لیتا ہے اور بروقت ادائیگی نہیں کرسکتا تو اسے ڈیفالٹر قرار دے کر اس کی جائیداد ضبط کرلی جاتی ہے مگر اربوں کھربوں کا قرض لے کر نہ ادا کرنے والے معززین میں شمار کیے جاتے ہیں اور ساری مراعات کے حقدار ٹھہرتے ہیں اسی معاشرتی بے انصاف نے ہی معاشرے میں بگاڑ پیدا کیا ہے اور ہر شخص جس کو جہاں موقعہ مل رہا ہے کہ وہ کچھ لوٹ کھسوٹ سکے وہ اپنے کام میں لگا ہوا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کیونکہ فیصلہ دینے اور پکڑنے والے تو اپنے کاموں سے انحراف کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
حالانکہ پاکستانی معاشرہ جوکہ اسلامی معاشرے کا دعویدار ہے وہاں تو قرآن و سنت سے لاتعداد مثالیں موجود ہیں جس کی رو سے حق و انصاف کی بالادستی پر زور دیا گیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے قاضی شہر کے نام خط لکھا جس میں عدلیہ کی آزادی کا مفہوم بالکل واضح ہے انھوں نے لکھا کہ جب تم کو اللہ کی کتاب میں کوئی حکم مل جائے تو اس کے مطابق فیصلے کرو۔ دوسری جانب توجہ نہ دو۔ اگر قرآن میں کوئی واضح حکم نہیں ہے تو سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کرو اگر قرآن و سنت دونوں سے حکم معلوم نہ ہو تو پھر وہی فیصلہ سناؤ جس پر صالحین کا اتباع ہو۔
یہ خط واضح طور پر رہنمائی کرتا ہے کہ کوئی بھی شخص اپنی مرضی کے فیصلے نہیں کروا سکتا اور قاضی /جج کو انصاف کے معاملے میں کسی صاحب حیثیت کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے نہ ہی ڈرنا چاہیے اسی لیے عدالتی نظام کی بالادستی جب تک نہ ہوگی اور انصاف بہم پہنچانے والے اپنے کاموں کو ایمان داری سے سر انجام نہیں دیں گے معاشرے میں بے اعتدالی پیدا ہوتی رہے گی۔