نفر ت کی آگ بجھا دو
یاد رہے زندگی یوں ہی کسی کو آزادی کا پروانہ نہیں تھماتی۔
چرچل نے کہا تھا '' اگر تم جہنم سے بھی گزر رہے ہو تو چلتے جائو۔'' یاد رہے زندگی یوں ہی کسی کو آزادی کا پروانہ نہیں تھماتی۔ لہذا یہ توقع رکھنا چھوڑ دو کہ دنیا تمہاری ملازم ہے اور تمہاری فلاح اور بہتری کی ذمے دار ہے۔
اپنے آپ کو خود بہتر کرو اپنے مسائل خود حل کرو اقرار کرو کہ ہاں میں بے وقوف ہوں جو غلطیاں کرتا آیا ہوں دوبارہ نہیں کروں گا، شکایت کرنا بند کر دو اور مسائل کا حل ڈھونڈو۔ رونا دھونا مسائل کو گھمبیر بنا دیتا ہے اور مسائل تب تک تمہاری جان نہیں چھوڑتے جب تک کہ تم رونا پیٹنا بند نہیں کرتے جب تک کہ تم شکایتیں کرتے رہو گے اور زندگی سے بیزاری کا اظہار کرتے رہو گے کوئی بہتری یا بہتری کی امید بھی تمہاری زندگی میں نہیں آ سکتی۔
زندگی کا کھیل ہی ایسا ہے جب ہم کسی مسئلے کا حل نکالنے کی مسلسل کوشش میں مصروف رہتے ہیں اور مسئلہ ہے کہ ختم ہی نہیں ہو پاتا ہے تو ہمیں فوراً یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہم مسئلے کا جو حل ڈھونڈ رہے ہیں۔ دراصل وہ حل اس مسئلے کا ہے ہی نہیں اس لیے ہمیں فوراً اس مسئلے کا دوسرا حل تلا ش کر نے میں دیر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس حل سے آپ زندگی بھر وہ مسئلہ کبھی حل ہی نہیں کر پائیں گے اور جب تک مسئلے کا حل نہیں نکلے گا ہم لال پیلے ہوتے رہیں گے ساری دنیا کو برا بھلا کہتے رہیں گے۔ اپنے آپ کو کوستے رہیں گے یہ سو چے سمجھیں بغیر کہ قصور مسئلے کا نہیں بلکہ خود ہمارا اپنا ہے مسئلہ تو خود فوراً حل ہونا چاہتا ہے لیکن کیا کریں ہم خود اسے حل کرنا ہی نہیں چاہتے چلیں۔ تھوڑی دیر کے لیے مان لیتے ہیں کہ ساری دنیا ہماری دشمن ہے اور ہمیں مٹانے پر تلی ہوئی ہے سارے جرم خود دنیا کرتی ہے اور مجرم ہمیں ٹھہراتی ہے۔
قصور خود کرتی ہے اور قصور وار ہمیں ٹھہراتی ہے انتہا پسندی و دہشت گردی خود کرتی پھرتی ہے اور انتہا پسند اور دہشت گرد ہمیں قرار دے دیتی ہے۔ دنیا بھر کی ساری خرابیاں، برائیاں اور بیماریاں ان کے معاشروں میں پائی جاتی ہیں اور بدنام ہمیں کرتے پھرتے ہیں اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو پھر آئیں سار ی دنیا کے خلاف جنگ و جدل شروع کر دیتے ہیں۔ اگر آپ اسے مسئلے کا حل سمجھتے ہیں تو پھر دیر نہ کریں۔ ایک اور بے وقوفی سہی لیکن اگر آپ سمجھ دار، عقل مند اور دور اندیش ہیں تو پھر آپ تمام مسائل عقل و دانش کی روشنی میں تلاش کریں گے۔
یاد رہے دنیا بھر کے ممالک میں لاکھوں مسلمان آباد ہیں کسی ملک میں ان کی تعداد 10فیصد کہیں 7 فیصد کہیں 5 فیصد اور کہیں 3 فیصد ہے مسلمان ممالک کے علاوہ دنیا بھر کے دیگر ممالک میں وہ چھوٹی چھوٹی اقلیتوں میں آباد ہیں۔ ہماری ذرا سی بے وقوفی سے وہ سب نفرت کا نشانہ بن سکتے ہیں ان کی ترقی اور خو شحالی تباہی اور بربادی میں تبدیل ہو سکتی ہے، اگر ہم انھیں بھی تباہ اور برباد کرنے کا تہیہ کر چکے ہیں تو پھر اور بات ہے اگر ہم باقی تمام دنیا سے کٹ کر الگ تھلگ رہ کر ترقی یافتہ اور خوشحال بن سکتے ہیں تو پھر اور بات ہے۔
اگر نہیں تو پھر ہمیں جذبات سے نہیں عقل و دانش سے کام لینا ہو گا اختلافات، غلط فہمیاں، جنگ و جدل سے نہیں بلکہ ایک ساتھ بیٹھ کر ایک دوسرے اور ایک دوسرے کے عقیدے کا احترام کرتے ہوئے اختلاف پر اتفاق کرتے ہوئے دور کرنے ہوں گے ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہوئے ختم کرنے ہونگے ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ افغانستان اور عراق میں فوجی یلغار کے بعد امریکا، یورپ، برطانیہ اور دیگر ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں دیگر مذاہب کے لوگوں نے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ملین مارچ کیے تھے وہ بھی اپنی اپنی حکومتوں کے خلاف۔ یاد رہے انسانوں کا مذہب مختلف ہوتا ہے انسانیت کا نہیں۔ انسان مختلف ہوتے ہیں شکل و صورت الگ ہوتی ہے رنگ و نسل الگ الگ ہوتی ہے۔
لیکن جذبات و احساسات کبھی الگ الگ اور مختلف نہیں ہوتے۔ رونا اور ہنسنا ایک جیسا ہوتا ہے۔ دکھ اور سکھ ایک جیسے ہوتے ہیں، دنیا کے ہر معاشرے میں ہمیشہ دو چار شر پسند موجود ہوتے ہیں اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہوتا کہ سارا معاشرہ ہی ایسا ہے اور یہ سمجھنا بھی کوئی عقل مندی نہیں۔ ہمیں اور ساتھ ساتھ پوری دنیا کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شرپسندی اور انتہا پسندی کا نتیجہ ہمیشہ خوفناک نکلتا ہے اور ایسے عناصر کو قانون کی گرفت میں لائے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا اعتدال پسند اور لبرل معاشرے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ آپ کو کسی دوسرے کے مذہبی جذبات کی بے حرمتی کا بھی حق حاصل ہے آزاد ی اظہار کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ انسان آپے سے باہر ہو جائے۔
مسائل کا حل ہمیشہ ایک دوسرے کے عقیدے کا احترام کر کے نکلتا ہے ہمیں نہ صرف دوسروں کے عقیدوں کا احترام کرنا ہو گا بلکہ احترام کروانا بھی ہو گا اور احترام کروانے کے لیے ہمیں جنگ و جدل کا نہیں بلکہ احساس کا دروازہ کھٹکھٹانا ہو گا نفرتوں اور غلط فہمیوں کی دیواروں کو گرانا ہو گا تا کہ تمام مذاہب کے پیرو کار ایک دوسرے کے خیالات اور احساسات سے آگاہ ہو سکیں ایک دوسرے کے ساتھ دل ملا سکیں ایک دوسرے کے دل مل سکیں۔ اس کے علاوہ تمام راستے تباہی اور بربادی کی جانب جاتے ہیں۔ نفرت کبھی بھی نفرت سے ختم نہیں ہو سکتی بلکہ محبت سے ختم ہوتی ہے۔ اگر ہم نفرت کی آگ جلائیں رکھیں گے تو ایک دن ہم خود جل کر راکھ ہو جائیں گے۔
آئیں سب سے پہلے ہم اپنے اندر جلتی آگ کو اپنے ہاتھوں بجھا دیں۔ نیل ڈونلڈ واش نے کہا ہے خود کو ڈھیر ساری خو شیاں دیا کرو تب ہی تمہارے پاس اتنی خو شیاں ہوں گی کہ تم انھیں دوسروں کو دے سکو۔ ہم انسان ہیں اور مسائل انسانوں کو ہی درپیش ہوتے ہیں جب آپ کسی مسئلے میں الجھ جائیں تو جان لیں کہ آپ زندہ ہیں اور جب تک ہم زندہ ہیں مسائل پید اہوتے ہی رہیں گے۔ وارنر ارہرڈ نے کہا ہے۔ ''سچائیاں آپ کو بالآخر آزاد کر دیں گی لیکن پہلے یہ آپ کو جی بھر کے تڑپائیں گی۔''