جوڈیشل کمیشن کا قیام ہنوز تعطل کا شکار
تیس پینتیس ہزار ووٹ جعلی اورغیر مستند تو ثابت ہو گئے لیکن یہ پتہ نہیں چلا کہ وہ کس کو پڑے تھے۔
پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان شروع ہونے والے مذاکرات کے بعد یہ سمجھا گیا کہ اب دونوں کے بیچ محاذ آرائی اور اشتعال انگیزی کی ٖشدت کسی طور دم توڑ دے گی اور ملک کے اندر سیاسی استحکام کی فضا پھر سے قائم ہونے لگے گی۔ پشاور کے سانحے اور عمران خان کی دوسری شادی نے گرچہ دھرنے کے خاتمے کا انتظام توکر دیا اور سڑکوں پر احتجاجی پروگرام کو معطل بھی کر دیا مگر خدشات ابھی باقی ہیں کہ دھرنا اور احتجاج پھر کسی وقت دوبارہ شروع ہو سکتا ہے۔
دونوں جانب سے الزامات اور دشنام طرازی کا سلسلہ دھیرے دھیرے بڑھتا جا رہا ہے اور جوڈیشل کمیشن بٹھانے کا معاملہ ایک بار پھر کٹھائی میں پڑتا دِکھائی دینے لگا ہے۔ حکومت اِس کام میں کتنی سنجیدہ ہے اور عمران خان جوڈیشل کمیشن کے متوقع فیصلے کو مان لینے پر کتنے رضامند اور تیار ہیں اِس پر مختلف حلقوں کی جانب سے قیاس آرائیاں اور شک شبہات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
حلقہ این اے 122 میں بیلٹ پیپر کے تھیلوں کی جانچ پڑتال کا جو نتیجہ آیا ہے اُسے دیکھ کر تو جوڈیشل کمیشن سے بھی کچھ اچھی توقعات نہیں کی جا سکتی ہیں۔ ایک مبہم، مشکوک اور گول مول فیصلے سے تو یہ تعین نہیں کیا جا سکتا کہ اُس حلقے میں کوئی منظم دھاندلی ہوئی بھی ہے یا نہیں۔ دونوں فریق اپنی اپنی جیت کا اعلان کر رہے ہیں اور قوم پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ کون سچ ہے اور کون غلط۔ عمران خان اِسے اپنے موقف کی کامیابی قرار دے رہے ہیں اور ایاز صادق اپنی سیٹ کے بچ جانے کی خوشیاں منا رہے ہیں۔
تیس پینتیس ہزار ووٹ جعلی اورغیر مستند تو ثابت ہو گئے لیکن یہ پتہ نہیں چلا کہ وہ کس کو پڑے تھے۔ اب اگر عمران خان کے مطالبے پر ایک اعلیٰ سطح کا جوڈیشل کمیشن بھی قائم کر دیا جائے اور وہ تحقیقات کے بعد اگر اِسی طرح کا کوئی فیصلہ صادر کرتا ہے کہ گزشتہ الیکشن میں بد انتظامی تو ضرور ہوئی ہے لیکن کوئی منظم دھاندلی کے شواہد نہیں ملے پھر عمران خان کہاں کھڑے ہوں گے اور وہ قوم کو کیا بتا پائیں گے کہ گزشتہ چھ ماہ سے اُنہوں نے جو افرا تفری اور محاذ آرائی کا بازار گرم کر رکھا ہے اُسکی بنیاد صرف اورصرف فرضی اور خیالی دھاندلی پر مبنی تھی۔ اردو بازار سے بیلٹ پیپر چھپوائے جانے اور پینتیس پنکچر والی ساری باتیں محض ذہنی اختراع کا نتیجہ تھیں اور اِس کے علاوہ کچھ نہ تھیں اور اِسی کو لے کر اُنہوں نے ساری قوم کو کئی ماہ تک سخت ہیجان اور ابتلا میں مبتلا کیے رکھا۔
وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے گزشتہ سال 13 اگست کو جوڈیشل کمیشن کی عمران خان کی تجویز پر اتفاق کرتے ہوئے جب اُس کے بنائے جانے اعلان کیا تھا تو اُس وقت عمران خان صاحب نے اُسے مسترد کرتے ہوئے وزیرِ اعظم کے استعفیٰ سے کم کسی بات پر رضامند ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ اب جیسے جیسے حالات و واقعات کی دھول بیٹھنے لگی اور عمران خان کو اپنی اصل حقیقت اور قوت کا اندازہ ہونے لگا تو وہ دھرنے سے بھی واپس ہوئے اور جوڈیشل کمیشن پر بھی رضامند ہو گئے۔ مگر یہاں حکومت اُن کی اِس کمزوری اور مجبوری کو دیکھتے ہوئے لیت و لعل سے کام لینے لگی اور جوڈیشل کمیشن قائم کرنے میں ایک بار پھر ٹال مٹول کا مظاہرہ کرنے لگی ہے۔
جس کی وجہ سے سیاسی ماحول ایک بار پھر کشیدہ ہو تا دکھائی دینے لگا ہے اور دھرنے اور پُر تشدد احتجاج کا خطرہ پھر ہمارے سروں پر منڈلانے لگا ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ حکومت جوڈیشل کمیشن قائم کرنا ہی نہیں چاہتی ہے جب کہ حکومتی حلقوں کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ عمران خان ایک منظم دھاندلی کی تحقیقات کی بجائے جوڈیشل کمیشن سے صرف یہ ثابت کروانا چاہتے ہیں کہ گزشتہ الیکشن صاف شفاف تھے یا نہیں۔
اِسی کو لے کر وہ سارے الیکشن کو بوگس اور فراڈ قرار دلوا کر حکومت کی مینڈیٹ پر سوالیہ نشان کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اِس حقیقت سے بخوبی آشنا ہیںکہ الیکشن میں کوئی منظم اور طے شدہ منصوبے کے تحت دھاندلی ہر گز نہیں ہوئی اِسی لیے وہ اِس پر تحقیقات کے لیے اپنے سابقہ موقف سے پیچھے ہٹتے دکھائی دے رہے اور اپنے احتجاجی پروگرام کو جواز بخشنے کے لیے صرف الیکشن کے صاف اور شفاف ہونے یا نہ ہونے پر زور دے رہے ہیں۔ اُدھر حکومت بھی جانتی ہے کہ بد انتظامی اور کچھ لوگوں کی غلط حکمتِ عملی کی وجہ سے اِس الیکشن کو صاف اور شفاف تو قرار نہیں دیا جا سکتا ہے لیکن اِنتظامیہ کی جانب سے کی جانے والی غفلت اور نا اہلی کو بنیاد بنا کر اُسے محرومِ اقتدار بھی نہیں کیا جا سکتا۔
انتخابات میں بدانتظامی کی شکایتیں تو اِس سے پہلے والے الیکشنوں میں بھی ہوتی رہی ہیں۔ ہمیں اُس کے سدِباب کے لیے جتن کرنا ہوں گے نا کہ موجودہ حکومت کو اقتدار سے بیدخل کر کے پھر سے ایک ایسے ہی الیکشن کروائے جائیں جیسے کہ 2013ء میں ہوئے اور یہ کام انتخابی اصلاحات کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اِس کے لیے پارلیمانی کمیٹی پہلے ہی تشکیل دی جا چکی ہے مگر افسوس کہ عمران خان کی پارٹی نے اِس کا بائیکاٹ کیا ہو ا ہے۔ وہ شاید اُس وقت اُس پروسس میں شامل ہونگے جب جوڈیشل کمیشن اپنا فیصلہ سنا دے گا۔ اِس وقت اُ ن کا سارا زور سابقہ الیکشن کو بوگس اور د ھاندلی زدہ قرار دلوانے پر لگا ہوا ہے۔
اُس میں ناکامی کے بعد ہی وہ اِس جانب متوجہ ہونگے۔ مگر یہاں سوال یہ ہے کہ جوڈیشل کمیشن بنے تو کیسے بنے۔ کون فریقین کے بیچ ثالث بن کرایک مثبت رول ادا کر کے معاملے کو اپنے انجام تک پہنچائے گا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ یہ رول اداکرنے کی پیشکش کر چکے ہیں۔ عمران خان اور حکومت دونوں کو اُن کی اس پیشکش کا خیر مقدم کرتے ہوئے اُنہیںاپنے مابین ہونے والی بات چیت میں شامل کر کے اِس معاملے کی خاتمے کی کوئی راہ نکال لینی چاہیے۔ ورنہ ایک دوسرے پر الزام تراشی کر کے وہ اپنا بھی نقصان کر رہے ہیں اور اِس بے بس اور مظلوم قوم کا بھی۔ کارِ خیر کے اِس (اچھے کام میں) پہل حکومت کو کرنی چاہیے اور ایک ذمے دارانہ کردار اداکرتے ہوئے خورشید شاہ کے ثالثی کردار کو قبول کر لینا چاہیے۔
اِس طرح عوام کو بھی معلوم ہو جائے گا کہ کون سا فریق ہٹ دھرم اور ضدی ہے اور کون سا فریق غیر ذمے دار اور غیر سنجیدہ۔ پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان ہونے والی گفتگو میں کیا طے پاتا ہے اور کیا نہیں لوگوں کو قطعاً پتہ نہیں چلتا۔ ہر بار خوش خبری سنانے کی باتیں تو بہت کی جاتی ہیں لیکن اُس کی نوبت کبھی نہیں آتی۔ جوڈیشل کمیشن پر اگر کسی کو کوئی تحفظات ہیں یا مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کی سلسلے میں اگر کوئی مجبوری درپیش ہے تووہ قوم کو بتلایا جائے۔ یوں پریس کانفرنسیں کر کے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کر کے تو جوڈیشل کمیشن کا یہ اُونٹ کبھی کسی کروٹ نہیں بیٹھ پائے گا۔
قوم کو بیک وقت کئی چیلینجوں کا سامنا ہے۔ ایک طرف دہشت گردی کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے تو دوسری جانب سرحدوں سے ملحقہ کئی خطرات لاحق ہیں۔ معاشی اور اقتصادی حالت بھی ابتری کا شکار ہے اور بجلی اور گیس کی کمی کا معاملہ بھی سنگین صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ایسے میں ہم کسی سیاسی عدم استحکام اور افراتفری کے ہر گزمتحمل نہیں ہو سکتے۔
سیاسی فریقوں کو سنجیدگی اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جلد سے جلد اِس کام کو پائے تکمیل تک پہنچانا ہو گا۔ خود حکومت کا مفاد بھی اِسی میں ہے کہ الیکشن میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات صاف اور شفاف طریقوں پر ایک دفعہ ہو ہی جائے تا کہ اُس کی قانونی حیثیت اور اُس کے مینڈیٹ پر اُٹھنے والے سوالوں اور اعتراضات کا خاتمہ ممکن ہو۔