انوکھی بیماری میں مبتلا خاتون کے لیے چپس اور پنیر کے علاوہ کچھ کھانا محال
گوشت اور سبزی کھانے کا سوچ کر ہی جینیفر کے پاؤں کپکپانے لگتے ہیں اور بعض اوقات وہ بے ہوش بھی ہوجاتی ہے
ذائقے دار کھانوں کے لیے لوگ دور دراز کا سفر کرتے ہیں لیکن اسکاٹ لینڈ کی 17 سالہ جینیفر کے لیے کھانے کے لیے سفر تو دور کی بات اس کی اشتہاانگیز خوشبو بھی سوہان روح بن جاتی ہے۔
فوبیاایک ایسی اصطلاح ہے جسے کسی مخصوص قسم کے خوف کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کسی کو بلندی پر جانے کا فوبیا ہوتا ہے تو کوئی حشرات الارض کو دیکھ کر کپکپانا شروع کردیتا ہے۔ کسی کو پانی دیکھتے ہی جھر جھری آنے لگتی ہے تو کسی کے لیے اندھیرے کا تصور ہی بہت ہولناک ثابت ہوتا ہے۔ بعض اوقات بڑے بڑے خطرات مول لینے والے افراد کی ٹانگیں ایک معمولی مکڑی کو دیکھتے ہی کانپنے لگتی ہیں۔ لیکن اسکاٹ لینڈ کے قصبے گیلسٹون کی رہائشی جینیفر کھانے کے فوبیا(خوف) میں مبتلا ہے۔ خوش ذائقہ کھانوں کی خوشبو جہاں ایک طرف لوگوں کی اشتہا بڑھاتی ہے تو دوسری جانب یہ خوشبو جینیفر کے لیے سوہانِ روح بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اُبلے ہوئے آلو، فرنچ فرائز اور پنیر کے علاوہ کچھ اور نہیں کھا پاتی۔ یہ اشیاء گزشتہ کئی سالوں سے جینیفر کی خوراک کا حصہ ہیں۔
جینیفر کا کہنا ہے کہ گوشت اور سبزی کھانے کا سوچ کر ہی میری حالت عجیب ہوجاتی ہے، میرے پاؤں کپکپانے لگتے ہیں اور بعض اوقات میں بے ہوش بھی ہوجاتی ہوں۔ اُس کا کہنا ہے کہ پاستا کا ایک پیالہ ، ابلے ہوئے آلو اور چپس پی میری خوراک کا حصہ ہیں۔ اسکول میں بھی سارا دن چپس اور چاکلیٹ پر ہی گذارا ہوتا تھا اور گھر والوں سے اپنے اس انوکھے خوف کو چھپانے کے لیے والدین سے بھی جھوٹ بولنا پڑتا تھا۔ میں اُن سے یہی کہتی تھی کہ میں کھانا لیا ہے۔ جینیفر کے مطابق والدین پر میری اس انوکھی بیماری میں مبتلا ہونے کا انکشاف اس وقت ہوا جب میں اپنی نوکری کے پہلے ہی دن چکر ا کر گرگئی تھی۔ بعد ازاں اسپتال میں ہونے والے طبی معائنے کے بعد ڈاکٹر نے مجھ میں فولاد اور وٹامن B-12کی کمی بتائی۔ ڈاکٹرز نے میرے کھانے سے ڈر کو 'سلیکٹو ایٹنگ ڈس آرڈر' کے نام سے تشخیص کیا ۔
'سلیکٹو ایٹنگ ڈس آرڈر' نام کی اس بیماری میں مبتلا فرد کو کسی مخصوص قسم کے کھانے سے خوف محسوس ہوتا ہے۔ ایسے فرد کے سامنے اگر نئی یا وہ خوراک رکھی جائے جس سے اُسے خوف محسوس ہوتا ہے تو وہ گھبراہٹ اور متلی محسوس کرتا ہے۔ یہ بیماری جان لیوا تو نہیں ہے لیکن محض چند مخٓصوص غذاؤں پر انحصار کرنے کی وجہ سے متاثرہ فرد میں وزن میں کمی اور غذائی کمی کا خطرہ موجود رہتا ہے۔ عموما اس بیماری کو بچپن کی بیماری سمجھا جاتا ہے اور عمر بڑھنے کے ساتھ اس کی شدت میں کمی ہوجاتی ہے۔ تاہم کچھ لوگوں میں یہ بیماری بلوغت میں بھی موجود رہتی ہے۔ اس بیماری کی وجہ سے5 فٹ قد کی حامل جینیفر کا وزن محض 38کلو رہ گیا ہے۔ جسم کو درکار ضروری حیاتین اور معدنیات کی کمی نے جینیفر کو اتنا کمزور کر دیا ہے کہ وہ بعض اوقات بے ہوش بھی ہوجاتی ہے۔
جینیفر کا کہنا ہے کہ کچھ عرصے قبل تک میں کسی نہ کسی طرح مرغی کھا لیتی تھی لیکن اب مجھے اس کی بو بھی بہت ناگوار گذرتی ہے اور مجھے متلی آنے لگتی ہے لیکن چپس اور پنیر کے ساتھ ایسا نہیں ہے یہ دونوں چیزیں میرا معدہ فوراً ہضم کر لیتا ہے۔ اس عجیب و غریب بیماری نے مجھے بہت اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ میری تعلیم ، روزمرہ کے کام اور دیگر چیزیں بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔ ہر دن میرے لیے دوزخ جیسا ثابت ہوتا ہے۔ ناشتے سے رات کے کھانے تک آلو کے چپس اور پنیر ہی میری خوراک کا حصہ ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ اس بات سے بدتر صورت حال کیا ہوگی کہ آپ کے کھانے کی میز پر انواع اقسام کھانے موجود ہوں اور آپ انہیں دیکھ کر خوف اور دہشت میں مبتلا ہوجائیں۔
جینیفر کی والدہ کیرن کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ' بیٹی کی اس انوکھی بیماری نے مجھے بہت تکلیف میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس نے پرائمری اسکول میں ہی سرخ گوشت کھانا چھوڑ دیا تھا۔ جس پر میں نے اُسے کھانے کی ہر وہ چیز خرید کر دی جو اس عمر میں بچے شوق سے کھاتے ہیں لیکن وہ ان میں سے کسی کو بھی نہیں کھا سکی۔' ہم جین (جینیفر) کا خوف دور کرنے کے لیے ڈاکٹروں اور غذائی ماہرین کے ساتھ باقاعدگی سے مشاورت کرتے ہیں۔ اور ہمیں امید ہے کہ وہ جلد ہی اپنے اس خوف پر قابو پا کر ایک عام لڑکی کی طرح اپنی زندگی بسر کرنا شروع کردے گی۔ جب کہ جینیفر بھی اپنے اس انوکھے خوف پر قابو پا نے کے لیے پُر عزم ہے۔