Do More to Pay More

پاک فوج کے موجودہ سربراہ جنرل راحیل شریف غالباً قومی تاریخ کے پہلے عسکری قائد ہیں


MJ Gohar January 21, 2015

پاک فوج کے موجودہ سربراہ جنرل راحیل شریف غالباً قومی تاریخ کے پہلے عسکری قائد ہیں جنھیں دنیا کی سپر پاور امریکا اور برطانیہ میں اعلیٰ ترین سطح پر زبردست پذیرائی مل رہی ہے جو یقینا خوش آیند و حوصلہ افزا اور پاک فوج کی حربی صلاحیتوں پر عالمی قیادت کے اعتماد کا مظہر بھی ہے، آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے گزشتہ سال کے اواخر میں جب امریکا کا طویل دورہ کیا تھا تو وہاں اعلیٰ امریکی حکام سے تفصیلی ملاقاتیں کی تھیں۔

اگرچہ آرمی چیف کے امریکی دورے کی مکمل تفصیلات تو میڈیا کو نہ مل سکیں تاہم بعض صحافتی ذرایع کے مطابق ملکی و علاقائی صورت حال کے پس منظر اور وطن عزیز میں دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن ضرب عضب کے حوالے سے آرمی چیف کا امریکی دورہ نہایت اہمیت کا حامل تھا بعینہ جنرل راحیل شریف نے گزشتہ ہفتے برطانیہ کا تفصیلی دورہ کیا وہاں بھی برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون سمیت اعلیٰ سول و فوجی حکام سے ملاقاتیں و مشاورت کی جس سے دورے کی اہمیت و افادیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

لندن میں پاک فوج کے ترجمان جنرل عاصم باجوہ نے آرمی چیف کے دورے کے حوالے سے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنرل راحیل شریف نے برطانیہ پر واضح کر دیا ہے کہ خطے میں پائیدار امن کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے۔ آرمی چیف نے کہا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کو ہمسایہ ملکوں کی مدد حاصل ہے۔ عالمی برادری کو دہشت گردوں کی فنڈنگ روکنا ہو گی، ہم تمام دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق آپریشن کر رہے ہیں تا کہ آیندہ نسلوں کو محفوظ بنایا جا سکے۔ دہشت گردوں کو انجام تک پہنچانے کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام پر پوری قوم میں اتفاق ہے۔

ترجمان کے مطابق آرمی چیف نے برطانوی حکام کو آگاہ کیا کہ پاکستان میں اس وقت مغربی سرحدوں پر جنگ میں مصروف ہے جب کہ مشرقی سرحد پر بھارت سرحدی خلاف ورزیاں کر کے صورت حال خراب کر رہا ہے ایک سوال کے جواب میں جنرل عاصم باجوہ نے برملا یہ کہا کہ مغرب میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم و غصہ اور تشویش پائی جاتی ہے ان کے جذبات کو مجروح کیا گیا ہے اور اس حوالے سے پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے کہ صرف چند دہشت گردوں کی کارروائی کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑ کر ان کے جذبات کو مجروح نہیں کیا جانا چاہیے۔

آرمی چیف راحیل شریف نے برطانوی دورے کے دوران علاقائی صورت حال بھارت کی اشتعال انگیزی، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس حوالے سے عالمی کردار پر پاکستانی موقف کی بھرپور انداز سے ترجمانی کی جو پوری قوم کے لیے قابل اطمینان ہے۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اب مسئلہ کشمیر خطے کا فلش پوائنٹ بن چکا ہے جب کہ بھارت کے متعصب وزیراعظم نریندر مودی کی انتہا پسندانہ سوچ اور پاکستان و مسلم دشمن رویے نے اس تنازعے کو سرد خانے کی طرف دھکیل دیا ہے کیونکہ بھارت مسئلہ کشمیر پر کسی بھی سطح کے مذاکراتی عمل سے مسلسل گریز کر رہا ہے اور اس ضمن میں عالمی برادری کے کسی کردار کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔

تاہم یہ امر بھی افسوس ناک ہے کہ عالمی امن کا نقارہ بجانے والی طاقت سپر پاور امریکا اور برطانیہ بھی بھارت میں اپنے معاشی و اقتصادی مفادات کو نقصانات سے بچانے کی خاطر بھارت پر بھرپور دبائو ڈالنے کی بجائے محض زبانی جمع خرچ سے کام چلا رہے ہیں۔ ان طاقتوں کا زور پاکستان پر ہی چلتا ہے اور ان کی ''ڈو مور'' کی گردان پاکستان پر آ کر ہی ٹوٹتی ہے اس کی تازہ مثال امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے حالیہ دورہ پاکستان میں ان کے اس بیان سے دی جا سکتی ہے جس میں انھوں نے حقانی گروپ اور لشکر طیبہ کو دنیا کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا، حالانکہ پاکستان واضح کر چکا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جا رہی ہے۔

''اچھے'' اور ''برے'' کی تمیز ختم کر دی گئی ہے لیکن کیا جان کیری نے بھارت سے یہ کہا کہ وہ افغانستان کے ذریعے پاکستان کے خلاف کارروائیاں بند کرے؟ کیا امریکا کو معلوم نہیں کہ آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملے کے تانے بانے افغان سرزمین پر بُنے گئے اور بھارت نے بھی پس پردہ اپنا کردار ادا کیا، افسوس کہ امریکا نے دہرا معیار اپنا رکھا ہے۔ 9/11 کے بعد ''فرنٹ لائن'' اتحادی بنا کر پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں جھونک دیا گیا جس کے نتیجے میں پاکستان نے 70 ارب ڈالر کے معاشی و اقتصادی نقصانات برداشت کیے اور پچاس ہزار سے زائد قیمتی جانوں کی قربانیاں دینا پڑیں جن میں ڈاکٹرز، علما، تاجر، وکلا، اساتذہ اور سیاست دان سب ہی دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ سب سے بڑھ کر یہ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی عظیم مدبر سیاسی رہنما بھی دہشت گردوں کا نشانہ بن گئیں۔ آج بی بی شہید زندہ ہوتیں تو قوم کو یہ سیاہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ اگرچہ عالمی سطح پر ایک مخصوص حد تک پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم تو کیا گیا لیکن جس طرح پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی برادری بالخصوص امریکا کا ساتھ نبھایا۔ جواب میں ویسا ہی تعاون امریکا، برطانیہ و دیگر مغربی ممالک سے نہ مل سکا۔ نتیجتاً اس جنگ کے شعلوں سے پاکستان اپنا دامن بچانے سے قاصر رہا اور ہمیں تنہا ہی اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ ہم امریکا کی دوستی کا دم بھرتے رہے۔

ایک امید کے ساتھ تعاون کے لیے اس کی جانب دیکھتے رہے لیکن اس کی تمام تر نوازشات اور جھکائو بھارت ہی کی جانب رہا اور تسلسل آج بھی قائم ہے تا کہ بھارت میں امریکی مفادات کو نقصان نہ پہنچے لیکن امریکی رویے کا سارا نقصان پاکستان کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ایک ایسے مرحلے پر جب آپریشن ضرب عضب کے ذریعے پاک فوج پوری قوت اور سنجیدگی کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائیاں کر رہی ہے۔ ملک کی سیاسی قیادت اور 18 کروڑ عوام قومی جذبے کے ساتھ پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔

ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوری دور حکومت میں 21 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے دہشت گردوں کو برق رفتاری سے کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے قومی عدالتیں قائم کی جا رہی ہیں تو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امریکا، برطانیہ، بھارت اور افغانستان سب پاکستان کے تعاون کرتے لیکن افسوس کہ مغربی و مشرقی ہر دو محاذوں پر پاکستان کو ہمسایہ ملکوں کے ساتھ محاذ آرائی جیسی صورت حال کا سامنا ہے اور امریکا تمام تر حقائق جاننے کے باوجود بھارت و افغانستان پر دبائو ڈالنے کے بجائے پاکستان سے ''ڈومور'' کا مطالبہ کر رہا ہے۔ ترجمان پاک فوج جنرل باجوہ نے بالکل درست کہا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جتنے اقدامات کیے ہیں اس کے نتیجے میں دنیا اب پاکستان سے ''ڈومور'' کا مطالبہ نہیں کر سکتی بلکہ پاکستان کو عالمی برادری سے ''ڈومور'' کا مطالبہ کرنا چاہیے۔

یہ حقیقت عیاں ہے کہ 9/11 کے بعد مسلم دنیا اور مغرب کے درمیان جو حد فاصل کھینچ دی گئی ہے مغرب کی متعصبانہ اور اسلام مخالف سوچ کھل کر سامنے آ رہی ہے جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ڈنمارک و ناروے کے بعد فرانس جیسا ملک بھی آقائے دو جہاںؐ اور ہادی برحقؐ کی تضحیک و توہین کا مرتکب ہو رہا ہے اور اس پہ مستزاد فرانس میں 40 سے زائد ممالک کے سربراہوں نے سڑکوں پر لاکھوں کے مجمع کے ساتھ کھڑے ہو کر ''اظہار رائے کی آزادی'' کے حق میں فرانسیسی رسالے چارلی ہیبڈو کے ساتھ ''اظہار یکجہتی'' کر کے اپنا اصل چہرہ دکھا دیا ہے۔

مغرب کی مسلم دشمنی دیکھیے کہ جب عیسائی روحانی پیشوا پوپ فرانس نے گستاخانہ خاکوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اظہار رائے کی بھی حد ہوتی ہے کسی بھی مذہب کا مذاق اڑانا درست نہیں تو مغربی میڈیا نے پوپ کو بھی ہدف تنقید بنایا۔ ناموس رسالت کی توہین پر پوری دنیا اور پاکستان میں احتجاج ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے جنرل عاصم باجوہ نے بالکل درست کہا ہے کہ مغرب میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم و غصہ اور تشویش پائی جاتی ہے۔

ان کے جذبات کو مجروح کیا گیا ہے اور یہ کہ پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے کہ صرف چند دہشت گردوں کی کارروائی کو مسلمانوں اور عالم اسلام کے ساتھ جوڑ کر ان کے جذبات سے نہ کھیلا جائے۔ عالمی برادری آگاہ ہے کہ پاکستان ایسے ہی چند ہزار دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑ رہا ہے۔ لہٰذا امریکا و اتحادیوں کو ''ڈومور'' کا مطالبہ کرنے کی بجائے اس جنگ میں دی گئی قربانیوں کے صلے میں پاکستان کے ساتھ ''پے مورو'' (Pay More) کی پالیسی اپنانی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں