ناول ریویو ’خوشبو ہے تو بکھر جائے گی‘

سیمی واقعات کے درمیان در آنے والے وقفے اس طرح استعمال کرتی ہیں کہ ان کے تمام کردار حقیقی رنگ میں جھلکنے لگتے ہیں۔


Rafi Allah Mian January 23, 2015
سیمی واقعات کے درمیان در آنے والے وقفے اس طرح استعمال کرتی ہیں کہ ان کے تمام کردار حقیقی رنگ میں جھلکنے لگتے ہیں۔ فوٹو محمد محسن

لاہور: ڈائجسٹ میں قسط وار چھپنے والا یہ ناول اس لحاظ سے منفرد اور قابل توجہ ہے کہ اس کے متن کی مجموعی فضا پر دانش کا وہ رنگ چھایا ہوا ہے جو ہمیں ڈائجسٹوں میں چھپنے والی معاشرتی کہانیوں میں نہیں ملتا۔ دانش اور فلسفے کے نام پر مشہور ناول نگار خواتین و حضرات کے ہاں بھی شعور کا وہ کچاپن اور غیر منطقی اور بعض اوقات بچکانہ حد تک بے سروپا استدلال ملتا ہے جو انہیں سنجیدہ اردو ادب قاری سے دور رکھتا ہے۔ کجا ایسے ناول نگاروں سے کرداروں کی معقول نفسیات پر بحث کی توقع کی جائے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو سیمی کرن کے ناول ''خوشبو ہے تو بکھر جائے گی'' کی طرف سنجیدہ ادب قاری کو متوجہ کرتا ہے۔

آگے بڑھنے سے پہلے اس ناول کے عنوان پر بات ہو تو مناسب ہے۔ یہ عنوان بلاشبہ کسی ڈائجسٹ میں چھپنے والے ناول کے لئے عین موزوں ہے لیکن یہی عنوان ادب کے قاری کو آگے بڑھنے سے روکتا بھی ہے۔ ممکن ہے یہ عنوان 'مارکیٹ کی ڈیمانڈ' کی مجبوری کے تحت منتخب کیا گیا ہو۔ بہرحال ایک اچھے ناول کے لئے یہ عنوان غیر موزوں ہے اور ناول کی اہمیت کو گھٹاتا ہے۔ کہانی میں کرداروں کی نفسیاتی الجھنوں کو جس مہارت اور خوش سلیقگی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے اس کہانی کو ایک ایسے عنوان کی ضرورت ہے جو اپنے متن کا مقدمہ بن سکے۔

ڈاکٹر انور سدید جیسے تخلیق کار نے اس ناول میں سیمی کرن کے ڈ کشن کی تعریف کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک ہی نگاہ میں جوہر سے روشناس کرادیا ہے۔ اپنے مضبوط ڈکشن کے ساتھ سیمیں نے پہلے ناول میں قاری کو چونکایا ہے۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ اپنے سفر کو آگے بڑھانے کے لئے انہیں کہانی بیان کرنے کے روایتی طرز اظہار سے خود کو بچاتے ہوئے تکنیک سے بھی کام لینا ہوگا۔ میرے خیال میں ڈاکٹر صاحب نے اپنی سطروں میں اس طرف ہلکا سا اشارہ بھی کردیا ہے کیوں کہ روایتی طرز اظہار کے بوسیدہ سانچے میں سیمی کا تخلیقی جوہر اپنی شناخت حاصل کرنے سے محروم رہ سکتا ہے اور اس امر کا قوی احتمال ہے۔

اس ناول سے مصنف کے بارے میں چند باتیں واضح طور پر سامنے آئی ہیں۔ ان میں سب سے اہم نکتہ ناول لکھنے کا ظرف ہے۔ ناول لکھنے کا ظرف نہ ہو تو پلاٹ کے ساتھ ساتھ جگہ مصنف سے کرداروں کے تحرک کی ڈور پھسل پھسل جاتی ہے۔ یہاں قاری کو ایک مضبوط پلاٹ سے واسطہ پڑتا ہے اور کردار نگاری سے زیادہ کردار سازی معلوم ہوتی ہے۔ اتنے مضبوط کردار کہ چلتے پھرتے معلوم ہوتے ہیں۔ مشاہدے کی صلاحیت بھی سامنے آئی ہے۔ خصوصاً جس طرح وہ کرداروں کو ان کی نفسیات کے جلو میں بیان کرتی ہیں، وہ لائق تحسین ہے۔ تاہم اس ناول میں منظر نگاری مفقود ہے۔ وہ صورت حال تو اچھی طرح بناکر پیش کردیتی ہیں لیکن منظر میں رنگ بھرنا جیسے ان کے بس میں نہیں ہے۔ یقینااس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

کہانی کے بیانیے میں جگہ جگہ مصنف کا اپنے فکری نظام کے ساتھ درآنا بتاتا ہے کہ اس کی بنیادی ساخت اس روایت سے جڑی ہے جو ہم ان کہانیوں میں پاتے ہیں جو تجارتی اور وقت گزاری مقاصد کے لئے چھپنے والے ماہناموں کی پہچان ہے۔ سیمی کرن کی خصوصیت اس میں یہ ہے کہ وہ واقعات کے درمیان در آنے والے یہ وقفے اس طرح استعمال کرتی ہیں کہ ان کے تمام کردار حقیقی رنگ میں جھلکنے لگتے ہیں اور ان وقفوں کا توازن حیران کرجاتا ہے۔ اپنے کرداروں کی نفسیاتی الجھنیں سیمیں اس خوبی سے سلجھاتی جاتی ہیں کہ قاری کے لیے آخر میں صرف حیرت باقی رہ جاتی ہے۔ اپنے اردگرد ماحول اور بسنے والے انسانوں کے کرداراور نفسیات کو سمجھنے میںیہ ناول مددگار ہے۔

یہ ناول ساگر پبلیکیشنز 16- E ٹیمپل روڈ، مہتہ اسٹریٹ صفا نوالہ چوک لاہور سے شائع کیا گیا ہے۔ قیمت 300 روپے ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے ریویو لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں