بلی‘ دلی اور سائیکل
ادھر ایک اور بحران بار بار سر اٹھا رہا ہے۔ دھیما پڑتا ہے اور پھر زور پکڑ جاتا ہے وہ ہے پی آئی اے کا بحران۔
ابھی پچھلے دنوں بجلی کے بحران کے بیچ یار عزیز عطاء الحق قاسمی کو لالٹین یاد آ گئی۔ انھوں نے مرحوم لالٹین کے اوصاف بیان کیے اور ہم نے تہہ دل سے اس بیان کی تصدیق کی اور لالٹین کے گواہ بن گئے۔ اب جب پٹرول کا بحران اپنے عروج پر تھا تو یار عزیز عبدالقادر حسن کو اپنی وہ سائیکل بہت یاد آئی جس نے اک عمر تک ان کا ساتھ دیا تھا۔ خود عبدالقادر حسن نے اپنی اس سائیکل کو رخصت کیا اور کار سوار بن گئے۔ اب ہم ان کی سائیکل کا مقدمہ لڑنے کے لیے مستعد ہیں۔
ادھر ایک اور بحران بار بار سر اٹھا رہا ہے۔ دھیما پڑتا ہے اور پھر زور پکڑ جاتا ہے وہ ہے پی آئی اے کا بحران۔ اس کا احوال ہم ایک مرتبہ نہیں' کئی مرتبہ بیان کر چکے ہیں۔ اور اب ادھر دیار ہند سے زبانی طیور کی یہ خبر آئی ہے کہ دلی میں پی آئی اے کے دفتر کو نوٹس مل گیا ہے کہ تم یہاں غیر قانونی طور پر جمے بیٹھے ہو۔ اٹھاؤ اپنے جہازوں کو اور لمبے بنو۔ ہندوستان اور پاکستان کے بیچ یہ ایک جہاز رہ گیا تھا جو اب ہفتے میں ایک بار اڑتا تھا۔
اسی دن پاکستان کی سواریوں کو ڈھو کر دلی جا انڈیلتا تھا۔ اور واپسی میں ہندوستان کی سواریاں دلی سے بھر کر چلتا تھا اور وقت بے وقت کسی وقت بھی لاہور پہنچ کر یہاں انڈیل دیتا تھا۔ بحران نے زور پکڑا تو سمجھ لو کہ یہ سواری بھی پاک ہند مسافروں کو دغا دے جائے گی۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ اب جو ادھر سے کسی سیمینار کا دعوت نامہ موصول ہوا تو ہم کیسے جائیں گے۔
سوچتے سوچتے ہمیں بھی مرحوم لالٹین اور سائیکل کی مثال پر اس برصغیر کی ایک پرانی سواری یاد آئی جسے ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کی شہری مخلوق فراموش کر چکی ہے۔ بھلا کونسی سواری۔ وہی اپنی سواری بیل گاڑی جو موہنجو داڑو کے وقتوں سے اپنی دھیمی چال کے ساتھ رواں دواں ہے۔ شیر شاہی سڑک نمودار ہوئی تو اس پر بھی وہ رواں دیکھی گئی۔ گرانڈ ٹرنک روڈ کا ظہور ہوا تو اس پر بھی اپنی پرانی چال کے ساتھ چلتی رہی۔ کیا اچھا ہو کہ جب دلی سے اگلے سیمینار کا دعوت نامہ آئے تو ہم بیل گاڑی میں سوار ہو کر اس دیار کا رخ کریں۔ نئی نو دن پرانی سو دن۔ نئی روشنیوں کو بھی دیکھ لیا اور نئی سواریوں میں بیٹھ کر بھی خچر خوار ہو لیے۔ ہم رہے پھر وہی موچی کے موچی۔ بقول غالبؔ ع
پھر وہی زندگی ہماری ہے
پھر وہی لالٹین اور وہی چراغ جو ڈیوٹ پہ رکھا جاتا ہے۔ اور وہی سائیکل جو خالی عبدالقادر حسن ہی نے نہیں ہم نے بھی بہت چلائی اور بیل گاڑی۔ ریل گاڑی' ہوائی گاڑی مردہ باد۔ بیل گاڑی زندہ باد۔
بہر حال اس وقت سائیکل زیر بحث ہے۔ کیسے کیسے یاران تیز گام نے سائیکل چھوڑ کر موٹر سے رشتہ جوڑا تھا حتی کہ ہمارے علامہ اقبال بھی ذوالفقار علی خاں کی موٹر کے اوصاف گنانے پر اتر آئے تھے ؎
کیسے پتے کی بات جگندر نے کل کہی
موٹر ہے ذوالفقار علی خاں کا کیا خموش
ہنگامہ آفریں نہیں اس کا خرام ناز
مانند برق تیز' مثال ہوا خموش
مگر ذوالفقار علی کے موٹر کی ساری تیزی تِرکی پٹرول کی مرہون منت تھی۔ آج وہ ہوتی تو ہم دیکھتے کہ میاں نواز شریف کے زمانے میں وہ کس طرح مانند برق تیز دوڑ سکتی تھی۔ بھلے وقتوں میں مانند برق تیز دوڑی اور مثال ہوا خاموشی سے خراماں خراماں چلتی رہی اور شاعر مشرق سے داد لے کر سواریوں کی تاریخ میں نام پیدا کر گئی۔
خیر اب تو اس آڑے وقت میں ہمیں پھر سے اپنی سائیکل یاد آ رہی ہے۔ کیسی وفادار سواری تھی مگر زمانہ بدلنے کے ساتھ اس کے سب سواروں نے اس سے دغا کی' عبدالقادر حسن نے' ہم نے' شہرت بخاری نے۔ اس عزیز کی موٹر تک تو رسائی نہیں ہوئی مگر ایک پھٹ پھٹیا موٹر سائیکل خرید لی تھی۔ ذوالفقار علی خاں کا موٹر جتنا خاموش تھا اتنی ہی یہ موٹر سائیکل پر شور تھی اور شوریدہ سر کہ ہر دوسرے تیسرے ہفتے موٹر ورکشاپ میں پہنچ جاتی تھی۔ اب اس کے گواہ اکیلے مسعود اشعر ہیں جنہوں نے اس پر آشوب وقت میں جب شہر کے سارے موٹروں کی ہوا نکل گئی ہے اس سواری کی گواہی دی ہے۔ ویسے تو ہم بھی اس کے گواہ ہیں لیکن اس سے بڑھ کر اپنی عزیز سواری سائیکل کو بچشم تر یاد کر رہے ہیں۔ زمانہ بدلنے کے ساتھ سب سواران سائیکل اس کا ساتھ چھوڑ گئے سوائے مبارک احمد کے و نیز ڈاکٹر نذیر کے۔
اصل میں اب سے پہلے سائیکل کا دور تھا۔ موٹر خال خال۔ سائیکل صبا رفتار۔ تانگہ ٹخ ٹخ۔ ہم نے ٹی ہاؤس کا سارا زمانہ اس طرح گزارا ہے کہ باہر سائیکل کی سواری باد بہاری اندر ٹی ہاؤس کی میز کرسی۔ گرمیوں میں اے سی سے بے نیاز۔ جاڑوں میں ہیٹر کی گرمائی سے محروم۔ پھر بھی ٹی ہاؤس ہمارے حساب سے جنت نظیر تھا۔ مگر رفتہ رفتہ وہ وقت آیا کہ ہم نے ٹی ہاؤس کو زاہد ڈار کی سپردگی میں دیا اور سائیکل کو مبارک احمد کا سہارا بہت تھا۔ ہم وہاں سے کوچہ صحافت میں نکل گئے۔
مبارک احمد کی کیا پوچھتے ہو۔ راوی یوں بیان کرتا ہے کہ؎
حضرت ابوہریرہ سے بلی نہ چُھٹ سکی
خواجہ حسن نظامی سے دلی نہ چُھٹ سکی
اور مبارک احمد سے سائیکل نہ چُھٹ سکی۔ اس سواری باد بہاری کے زور پر انھوں نے نثری نظم کی تحریک چلائی اور کراچی تک اس کی آواز پہنچائی۔ یہ اس کا فیض ہے کہ کشور ناہید سے لے کر عذرا عباس تک سب لکھنے والیاں نثری نظم کے زور پر شیر بنی ہوئی ہیں اور تانیثیت کی تحریک چلا رہی ہیں۔