غور طلب نکات
کیا فوجی عدالتیں تنہا دہشت گردی ختم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی؟
لاہور:
گزشتہ کالم میں ہم نے سوال اٹھایا تھا کہ ''کیا فوجی عدالتیں تنہا دہشت گردی ختم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی؟ اس سلسلے میں ہمارا موقف ہے کہ معاشرے کا ہر فرد، ہر ادارے اور ہر شعبہ زندگی کو ہر زاویے، ہر پہلو سے اس عفریت کے خاتمے میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔
گزشتہ کالم میں کچھ اداروں کا کردار بھی سامنے آیا تھا، اگر اس صورتحال پر سنجیدگی اختیار نہ کی گئی اور ٹال مٹول جاری رہی تو نتیجہ دھاک کے تین پات ہی رہے گا، فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت اور موافقت میں ہر پہلو سے مکمل تفصیلات ذرایع ابلاغ کے ذریعے سامنے آچکی ہیں، دونوں نقطہ ہائے نظر میں وزن ہے۔ یعنی فوجی عدالتوں کا قیام موجودہ حالات میں ناگزیر بھی ہے اور غیر جمہوری بھی۔ ہم نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ دہشت گردی کی روک تھام سانحہ رونما ہونے سے قبل کرنا زیادہ اہم ہے۔
دراصل وہ اقدامات جو دہشت گردی کو قبل ازوقت رونما ہونے سے روک سکیں۔ جب کثیر تعداد میں لوگ دہشت گردی کا شکار ہوجائیں تو اس سانحے کے دو چار ذمے داروں کو لٹکا دینے سے اصل نقصان کا ازالہ تو نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ صورتحال پیدا ہی نہ ہونے دی جائے جس میں بڑا نقصان ہو۔ اس سلسلے میں وفاقی و صوبائی حکومتوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خود عوام کو کیا کرنا چاہیے؟ یہاں ہم چند نکات پیش کر رہے ہیں جو حتمی نہ سہی مگر کسی حد تک مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔
(1)۔قانون پر سختی سے عمل درآمد کرنا۔ قانون شکنی ہمارا قومی مزاج بن چکی ہے، اس کو خود ہمیں اپنے مفاد اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے فوراً ترک کرنا پڑے گا اور قانون پر عملدرآمد کرانے والوں کو بھی اپنے کردار پر نظرثانی کرنی چاہیے۔(2)۔ایسے اداروں اور افراد پر کڑی نظر رکھنی چاہیے جو عوامی خدمات انجام دے رہی ہیں کہ ان کے ذرایع آمدنی اور طریقہ کار کیا ہیں؟ کہیں کوئی خدمت خلق کی آڑ میں لوگوں کو اپنا گرویدہ بناکر ان سے کوئی غلط کام تو نہیں لے رہا۔(3)۔بے روزگاری پر قابو پانے کی بھرپور اور مخلصانہ کوشش کرنا کیونکہ روزگار کے حصول کی خاطر بھی لوگ غیر قانونی، ملکی مفاد کے خلاف کام کرنے پر دانستہ و غیر دانستہ طور پر تیار ہوجاتے ہیں (اپنی لاعلمی یا جہالت کے باعث بھی) ۔
(4)۔ایسے افراد، افسران، اہلکار اور مختلف شعبوں سے متعلق شخصیات جن کے مالی حالات بہت کم عرصے میں بہتر ہوئے ہوں ان کی اس تبدیلی پر نظر رکھنی چاہیے۔(5)۔ایسے فلاحی و ثقافتی ادارے اور افراد جو چندہ و خیرات وصول کرنے میں بہت فعال نظر آئیں ان کی مصروفیات وکارکردگی پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔(6)۔ایسے عوامی بہبود کے ادارے جو بلا معاوضہ لوگوں کو مختلف مراعات فراہم کر رہے ہوں ان کے بارے میں معلومات رکھنا کہ اس نیک کام کے مقاصد کیا ہیں؟ اگرچہ خدمت خلق عوامی بہبود فی سبیل اللہ اعلیٰ مذہبی و اخلاقی اقدار کی علامت اور قابل تعریف عمل ہے مگر فی زمانہ جب دولت کا حصول سب نیکیوں پر غالب ہو تو اس کا بھی جائزہ لینے میں کوئی حرج نہیں)۔(7)۔جو ادارے کسی بھی مد میں چندہ وصول کرتے ہوں ان کا باقاعدہ حساب چیک کیا جائے۔
(8)۔ایسے افراد، جماعتوں پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے جن کے روابط دہشت گردوں سے ہونے کے امکانات یا خدشات ہوں۔(9)۔مدارس کی رجسٹریشن کے بعد ان کے نصاب کو قومی و بین الاقوامی تقاضوں کے مطابق فعال بنانے کے حکومتی اقدام پر کھلے دل سے مثبت انداز فکر کے ساتھ عملدرآمد کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے مدارس کی انتظامیہ و سرپرستوں کو اس سلسلے میں حکومت سے تعاون کرنا چاہیے۔ یہ خود مدارس کے حق میں بہتر ہوگا کہ جو غلط تاثر ان کے بارے میں پیدا ہوا ہے وہ زائل ہوجائے گا اور اگر ان کی آڑ میں کچھ مدارس کسی غلط روش پر گامزن ہیں تو ان کی بھی نشاندہی ہوجائے گی۔
ویسے مذہبی تعلیم تو تمام سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں ابتداء سے کم ازکم انٹرمیڈیٹ اور اے لیول تک لازمی ہونا چاہیے جو اسلامی روح اور فلسفے کے مطابق درجہ بہ درجہ آگے بڑھتی رہنی چاہیے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اسلامی اقدار سے اس کی حقیقی روح کے مطابق واقف ہوں اور کوئی انھیں اسلام کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش بھی کرے تو کامیاب نہ ہو۔
بات ہو رہی تھی دہشت گردی کے خاتمے کی تو اس عفریت کے خاتمے اور قیام امن کی پہلی شرط انصاف کے تقاضے پورے کرنا ہے۔ اگر موجودہ عدالتی نظام کو موثر بنایا جائے، وکلا، ججز اور گواہوں کو تحفظ فراہم کیا جاتا۔ مجرموں کی سیاسی سرپرستی نہ کی جاتی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے شفاف و غیر جانبدار تحقیق و تفتیش کرکے مکمل ثبوت و شواہد کے ساتھ مجرموں کو عدالت میں پیش کریں۔
مجرم چاہے کوئی اور کیسا بھی ہو اس پر تھانوں میں بہیمانہ تشدد نہ کیا جائے کیونکہ تشدد کے ذریعے عموماً معصوم و بے گناہ افراد بھی اپنی جان بچانے کے لیے بڑے سے بڑے ناکردہ جرائم کا اقرار کرلیتے ہیں جب کہ اصل مجرم اپنے سرپرستوں کے باعث محفوظ رہتے ہیں۔ یہ وہ عوامل ہیں جو انصاف کے تقاضوں کو متاثر کرتے ہیں۔اس صورتحال میں بے گناہ مجرم اور مجرم بے گناہ قرار پاتے ہیں اور کئی قتل اور کئی وارداتوں کے بعد بھی معاشرے میں دندناتے پھرتے ہیں۔ آزاد عدلیہ سے متعلق تمام افراد کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ مجرموں کے خلاف گواہی دینے والا اگلی پیشی پر اپنے بیان سے منحرف ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اس کو خطرناک نتائج کی دھمکیاں ملنی شروع ہوجاتی ہیں لہٰذا وہ نہ صرف بیان سے منحرف ہوجاتا ہے بلکہ شہر بعض اوقات ملک تک چھوڑنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
کئی کیسز میں یہ بھی ہوا ہے کہ ججز نے فیصلہ دیا اور ان کو بھی دھمکیاں دی گئیں تو وہ خوفزدہ ہوکر اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ملک ہی سے چلے گئے۔ یوں دہشت گردوں کے حوصلے بڑھتے گئے۔ کئی بڑے بڑے سانحات کے بعد سانحہ پشاور تک کی نوبت آگئی۔ اس لرزہ خیز سانحے کے بعد فوجی عدالتوں کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کہ فوجی عدالتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ وہ بلا کسی خوف و دباؤ کے اپنا کام مکمل کرتی ہیں۔
عام سی بات ہے کہ اگر یہی تحفظ سول عدلیہ کو فراہم کردیا جاتا تو بہتر نتائج کے علاوہ کسی آئینی بحران کا امکان بھی نہ رہتا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کرے کون؟ کیونکہ ملک کا وہ طبقہ جو قبضہ مافیا بن چکا ہے اور ہر حال میں ملک پر اپنے پنجے گاڑے رکھنا چاہتا ہے اس نے ملک کے تمام اداروں کو ناکارہ اور غیر فعال بنادیا ہے۔ بدعنوانی، رشوت، اقربا پروری کو اس قدر فروغ دیا گیا کہ اب اس پر قابو پانا جن کو دوبارہ بوتل میں بند کرنے کے مترادف ہوگیا ہے۔
اس صورتحال کی کچھ ذمے داری سیاستدانوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ کاش ہمارے سیاستدان ملک و قوم سے مخلص ہوتے اور اس طبقے کا آلہ کار نہ بنتے جس کو اپنی جاگیروں اور مفادات کی پرواہ ہے ملک کی نہیں۔ جو ہر حال میں ریاست کو کمزور دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ طاقتور رہیں۔ حالانکہ سیاست کی شرط اول ملک و قوم کا خادم ہونا چاہیے بلکہ نچلی سطح سے عوام کی خدمت کرکے آنے والوں کو ملکی سیاست میں اعلیٰ اور معزز مرتبہ ملنا چاہیے۔ وہ جو نچلی سطح سے اٹھ کر اوپر آتا ہے جو سادہ اور غیر مراعات یافتہ زندگی بسر کرتا ہے وہی ملک کی غریب اکثریت کے دکھ درد اور ضروریات سے واقف ہوتا ہے۔
وہ وی آئی پی کلچر کا نہ عادی ہوتا ہے اور نہ طلب گار۔ جب کہ اس کے مقابلے میں پر آسائش زندگی بسر کرتے ہوئے میدان سیاست میں آنے والا قوم کی خدمت کرنے کے بجائے اپنی پرتعیش زندگی برقرار رکھنے، اپنے ااثوں میں اضافے کے لیے پوری قوم کے مفاد کو داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کرے گا۔ نچلی سطح سے سیاست میں آنے والا بے خوفی سے دلیرانہ فیصلے ملکی مفاد اور معاشرتی اصلاح کے لیے کرتا ہے۔ کیونکہ اس کو نہ کوئی لالچ ہوتا ہے اور نہ اپنی جاگیر و جائیداد کے تلف ہونے کا ڈر (انڈونیشیا کے صدر اس کی تازہ و زندہ مثال ہیں انھوں نے عوامی مدد سے کیسے دلیرانہ فیصلے کرکے بدعنوانی، کام چوری اور رشوت خوری کا قلع قمع کیا ہے) اگر ہم ان چند نکات پر سنجیدگی سے غور کرکے عمل بھی کرلیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم دہشت گردی تو کیا غربت اور بے روزگاری سے بھی نجات حاصل نہ کرلیں۔