چند فلمی فنکاروں کی مثالی شادیاں پہلا حصہ
فلمی دنیا ایک طلسماتی دنیا کا تصور رکھتی ہے اس کا ایک جادو ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔
فلمی دنیا ایک طلسماتی دنیا کا تصور رکھتی ہے اس کا ایک جادو ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے اس کی چمک دمک جو لاکھوں دلوں کو فلمی فنکاروں کا دیوانہ بنا دیتی ہے آج میں فلمی دنیا کے چند فنکاروں کی ایسی شادیوں کا تذکرہ کرونگا جو بہت ہی مثالی ہیں اور ان فنکاروں سے میری کم بھی اور کچھ سے زیادہ ملاقاتیں رہی ہیں۔ سنتوش کمار اور درپن دو سگے بھائی تھے، دونوں اپنے وقت کے نامور ہیرو تھے اور دونوں نے اپنے وقت کی مشہور ترین ہیروئنوں سے شادی کی تھی۔
اداکار سنتوش کمار کی ایک جھلک میں نے ہفت روزہ ''نگار'' کے دفتر میں دیکھی تھی کیا خوبرو اور حسین و جمیل شخص تھا۔ اس کی شخصیت کا انداز ہی کچھ ایسا تھا کہ عورتیں تو عورتیں مرد بھی اس کے گرویدہ ہو جاتے تھے۔ اس کے فن پر مر مٹتے تھے مگر سنتوش کمار صبیحہ پر مر مٹا تھا۔ فلم حسرت' وعدہ اور عشق لیلیٰ دونوں کی محبت بھری اور یادگار فلمیں تھیں۔ سنتوش نے محبت کی شادی کی اور زندگی کے آخری سانس تک صبیحہ ہی کا دم بھرتا رہا دونوں نے اپنے آخری لمحوں تک ایک دوسرے کی محبت کو نبھایا، درپن اور نیئر سلطانہ سے میری ایک بھرپور ملاقات ہوئی تھی یہ ان دنوں کی بات ہے جب نیئر سلطانہ کو عظیم اداکارہ کا نگار پبلک فلم ایوارڈ دیا گیا تھا۔ یہ فلمی جوڑا ایوارڈ کی تقریب میں شرکت کرنے کراچی آیا تھا۔ دونوں ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے ۔
میں بھی بحیثیت ایک صحافی کے ان سے ملنے گیا تھا تین یا چار سال کا ایک بے بی بھی ان کے ساتھ تھا ۔ میں جب درپن اور نیئر سلطانہ سے باتیں کر رہا تھا تو وہ بچہ حیرت اور اجنبی آنکھوں سے ٹکر ٹکر دیکھ رہا تھا، میں اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا وہ بھی مسکرا دیا۔ میں نے بے ساختہ آگے بڑھ کر بچے کو گود میں اٹھا لیا وہ چند لمحے بڑے خوش کن تھے۔ جب نیئر سلطانہ نے درپن سے کہا تھا۔ کمال ہے ایک اجنبی کی گود میں یہ کیسے چلا گیا۔ اس وقت یہ جملے سن کر میرے دل کو بڑی طمانیت ملی تھی۔ پھر فوراً ہی وہ بچہ میری گود سے اتر کر نیئر سلطانہ کی ٹانگوں سے جا کر لپٹ گیا تھا۔
نیئر سلطانہ سے یہ میری پہلی اور آخری ملاقات تھی لیکن یہاں میں یہ بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ نیئر سلطانہ کی شخصیت میں بڑا بانکپن اور ایک وقار تھا وہ نصف گھنٹے کی ایک ملاقات تھی مگر یوں لگتا تھا کہ بس باتیں کیے چلے جائو۔ نیئر سلطانہ کی اردو بڑی نستعلیق تھی اور شعر و ادب کی سی چاشنی ملتی تھی۔ لہجے میں ایسی مٹھاس تھی کہ میں نے فلمی دنیا کی کسی بھی اداکارہ سے اتنی اچھی اردو زبان میں باتیں کبھی نہیں سنی تھیں اور نیئر سلطانہ سے وہ چھوٹی سی ایک ملاقات آج بھی میرے ذہن کے دریچوں میں محفوظ ہے۔ انتہائی شائستہ خاتون تھیں۔
اب میں آتا ہوں کراچی کے دو فنکاروں کی طرف مشہور سائونڈ ریکارڈسٹ رفعت قریشی اور اداکار عابد قریشی کی طرف جس طرح سنتوش کمار اور درپن نے اپنے دور کی دو مشہور اداکارائوں کے ساتھ شادی کے بندھن باندھے تھے اسی طرح رفعت قریشی اور عابد قریشی بھی کراچی کی دو اداکارائوں کو لے اڑے تھے اور پھر ایک دوسرے کے شریک زندگی بن گئے تھے۔ دونوں فنکار بھائیوں کے درمیان بھی بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایک قدر مشترک یہ رہی کہ جس طرح سنتوش کمار اور درپن اپنی اوائل عمری ہی میں اپنی اداکارہ بیویوں کو جلد ہی داغ مفارقت دیکر دنیا سے رخصت ہو گئے تھے اسی طرح رفعت قریشی اور عابد قریشی بھی اپنی اپنی شریک زندگی کے زیادہ عرصہ تک شریک سفر نہ رہ سکے تھے۔
رفعت قریشی اور عابد قریشی دونوں سے میری اچھی دوستی اور بے تکلفی تھی اور ہر ہفتے رفعت قریشی سے تو ضرور ملاقات رہتی تھی ان دنوں میں فلمی ہفت روزہ ''نگار'' سے وابستہ تھا اور ''نگار'' اخبار میں شناسا کے نام سے کراچی کی فلمی ڈائری بھی لکھا کرتا تھا۔ ایسٹرن اسٹوڈیو میں میری اور چند صحافیوں کی پہلی چائے رفعت قریشی کے ساتھ اسٹوڈیو کے ریکارڈنگ چینل میں ہوتی تھی اور پھر جب تک کسی بھی گیت کی ریکارڈنگ ہوتی رہتی تھی تو رات گئے تک وقفے وقفے سے چائے آتی رہتی تھی۔ ان دنوں صحافی دوستوں کا ایک خاص گروپ ہوتا تھا ۔
جس میں راقم کے علاوہ کئی اور اخباروں کے صحافی بھی ہوتے تھے جن میں پرویز مظہر، یوکملانی، اے آرسلوٹ خاص طور پر شامل ہوتے تھے۔ وہ بڑا اچھا وقت تھا۔ لوگوں کے دلوں میں محبت ہوتی تھی، ایک دوسرے کا احترام کیا جاتا تھا۔ کراچی میں بھی ہر طرف امن و امان ہوتا تھا اور کئی صحافی دوست آدھی آدھی رات تک اسٹوڈیو میں رہتے تھے اور رات گئے بغیر کسی خوف کے اسٹوڈیو کے دروازے سے ٹیکسی پکڑ کر گھر چلے جایا کرتے تھے اور ساری رات ٹریفک جاری رہتی تھی۔
ان دنوں وحید مراد کے فلمساز ادارے فلم آرٹس کی بڑی دھوم تھی۔ اس ادارے کی فلمیں ''ہیرا اور پتھر '' اور '' ارمان'' سپر ہٹ ہو چکی تھیں ان دونوں فلموں میں اداکارہ روزینہ نے بھی سائیڈ ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا اور پھر کئی دوسری فلموں میں بھی کام کر رہی تھی۔ اسے ہیروئن کا ٹائٹل بھی مل چکا تھا، ان دنوں روزینہ ہاٹ کیک اداکارہ بن چکی تھی اور فلمی حلقوں میں روزینہ کو ڈریم گرل کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ کراچی کی فلمی دنیا میں ان دنوں حسین اداکارہ زیبا کے بعد جس دوسری اداکارہ کے ہزاروں پرستار تھے ان میں دوسرا نام روزینہ کا آتا تھا۔
روزینہ اپنی شخصیت میں بھی بڑی چٹک مٹک رکھتی تھی اور جس طرح زیبا پر بعض فلمی صحافی فدا رہتے تھے اسی طرح روزینہ بھی بعض فلمی صحافیوں کی گڈ بک میں تھی، سانولی سلونی تھی، اس کی سالگرہ کی تقریب ہو یا اس کے گھر کی کوئی بھی چھوٹی موٹی تقریب اخبارات میں اس کے تذکرے رہتے تھے۔ روزینہ مشہور اداکارہ ہونے سے پہلے اشتہاری فلموں میں بھی کام کرتی رہی تھی، ابتدا میں روزینہ پاکستان چوک کراچی میں بہت پرانے طرز کی ایک تین منزلہ بلڈنگ کے ایک فلیٹ میں رہتی تھی۔ اس بلڈنگ میں لکڑی کی سیڑھیاں تھیں اور بعض جگہ سے کافی بوسیدہ اور ٹوٹی ہوئی بھی تھیں ایک بار بحیثیت فلمی صحافی میرا بھی روزینہ کے اس پرانے گھر میں جانے کا اتفاق ہوا تھا اور میں لکڑیوں کی سیڑھیوں سے گرتے گرتے بچا تھا۔ بعض گر بھی چکے تھے، روزینہ ایک کرسچن لڑکی تھی اور تھوڑی بہت آزاد خیال بھی تھی۔
ایسٹرن اسٹوڈیو میں ریکارڈسٹ رفعت قریشی سے یہ بہت بے تکلف ہو گئی تھی اور رفعت قریشی بھی روزینہ کی محبت میں آہستہ آہستہ گرفتار ہوتا جا رہا تھا اس خاموش محبت سے رفعت قریشی کے صرف چند خاص دوست ہی واقف تھے کیوں کہ روزینہ کی بے تکلفی سے یہ احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ بھی رفعت قریشی سے محبت کرنے لگی ہے حالانکہ یہ وہ وقت تھا جب روزینہ کی شہرت بڑھتی چلی جا رہی تھی اور ایک فلم ''چوری چوری'' میں یہ نئے اداکار سیٹھی کے ساتھ ہیروئن بھی آ چکی تھی۔ مگر فلم ''چوری چوری'' کا ہیرو سیٹھی کامیاب نہ ہو سکا تھا۔
روزینہ کی کسی بھی فلم کی ایسٹرن اسٹوڈیو میں جب بھی شوٹنگ ہوتی تھی ریکارڈسٹ رفعت قریشی بار بار فلم کے سیٹ پر آتا رہتا تھا اور بعض اوقات وحید مراد رفعت قریشی اور روزینہ کی خوب تفریح بھی لیتا تھا اور ہنس کر کہتا تھا رفعت قریشی جائو یار جا کے اپنی ریکارڈنگ کرو جب روزینہ کی ممی کو روزینہ اور رفعت قریشی کے عشق کا پتہ چلا تو وہ پہلے تو روزینہ پر بہت ناراض ہوئی اور پھر روزینہ پر سختیاں کرنی شروع کر دیں، روزینہ کرسچن اور رفعت قریشی مسلمان۔ مگر عشق نہ پُچھے ذات، آخر کار یہ عشق رنگ لایا۔
(جاری ہے)