صحت کا اتحاد

جس مہم کا آغاز اگلے ماہ سے ہوگا، اِس کا قیام اُس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک بیماریوں کا جڑ سے خاتمہ نہ ہوجائے۔


سہیل اقبال خان January 24, 2015
خواہش ہے کہ جو احسن قدم خیبر پختونخواہ میں اُٹھایا گیا ہے ایسا ہی قدم باقی صوبائی حکومتیں بھی اُٹھائیں تاکہ بیماریوں کا خاتمہ صرف ایک صوبے سے نہ ہو بلکہ پورا ملک اِن بیماریوں کے چنگل سے آزاد ہوجائے۔ فوٹو: فائل

دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں جہاں مسائل اور چیلنجزموجود نہ ہوں۔ لیکن اگر ان کا بروقت مل کر حل تلاش کرلیا جائے تو یقینناً وہ مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ سب اس صورت میں ہی ممکن ہوتا ہے جب ایک ارادہ اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کیا جائے۔

وہ قومیں کبھی بھی اپنے مسائل نہیں حل کر پاتیں جن میں اتحاد قائم نہ ہو اور اگر اس ہی بات کو کسی ریاست کی سیاست اور حکمرانوں سے جوڑدیا جائے تویقینناً یہی فارمولا کامیاب ہوتا ہے۔

جی ہاں ریاست کے حکمران اگر مل کر عوامی مفاد کی خاطر کام کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ مسائل پر قابو نہ پایا جاسکے۔ اگر میں اپنے ملک پاکستان کی بات کروں تو یہاں آپس کی لڑائی، سیاست اور ایک دوسرے پر الزامات سے کسی کو اتنا وقت دستیاب نہیں ہوتا کہ وہ عوام کے مسائل ان سے معلوم کرنے کی بھی زحمت کر سکیں۔ اگر معلوم کر بھی لئے جائیں تو وہ مسائل اس حد تک شدت اختیار کر چکے ہوتے ہیں کہ ان کو حل کرنے میں سالہا سال لگ جاتے ہیں۔

لیکن تبدیلی اور امید کی ایک کرن ہمیں خیبر پختونخواہ میں دیکھنے کو ملی۔ جہاں خیبرپختونخواہ کی صوبائی حکومت اور مرکزی حکومت کا اتحاد قائم ہوا۔ اس اتحاد کی خاص بات یہ نہیں تھی کہ یہ اتحاد صوبائی اور مرکزی حکومت کے درمیان طے پایا ہے بلکہ اس کی خاص بات دو سیاسی جماعتوں کا اتحاد تھا۔ جی ہاں، یعنی پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کا اتحاد۔

اِن دونوں سیاسی جماعتوں کے ایک دوسرے کے خلاف بیانات، الزامات اور تقریروں سے کون واقف نہیں ہے، لیکن ایک لمبے عرصے کی تلخیوں کے بعد دونوں جانب سے نرمی اور مل کا کام کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے جس کو بہرحال سراہنا ضرور چاہیے۔

جمعرات کے روز کے پی کے میں ایک اجلاس منعقد ہوا، جس میں صوبے کے گورنرمہتاب عباسی، وزیراعلی پرویز خٹک، وزیر صحت اورکور کمانڈر پشاور سمیت دیگر اعلی احکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں اس بات اتفاق کیا گیا کہ اب صحت کے لئے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اور یک جان ہو کر بیماریوں کے خلاف لڑا جائے گا۔ صوبہ بھر میں بچوں میں پائی جانے والی پولیو، ٹی بی، خسرہ جیسی 9 خطرناک بیماریوں کے خلاف مشترکہ کوشش کرنے کا فیصلہ نہایت حوصلہ افزاء ہے۔ یوں صحت کے اس بننے والے اتحاد میں پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے کارکن بھی مل کر کام کریں گے جبکہ دونوں سیاسی جماعتوں کے علاوہ پاک فوج بھی تمام سہولیات فراہم کرے گی۔

یوں اس اجلاس میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، جو اس تمام پروگرام کی نگرانی کرے گی۔ اس کمیٹی میں 3 ارکان شامل ہوں گے، جن میں ایک صوبائی، ایک وفاق اور ایک پاک فوج کا نمائندہ شامل ہوگا۔ اس صحت کے پروگرام کو جس میں دو سیاسی جماعتوں اور پاک فوج کا اتحاد شامل ہے اسے صحت کے اتحاد کا نام دیا گیا ہے۔

اِس ہونے والی پیشرفت سے یقینی طور پر پوری قوم خوش بھی ہے اورپُرامید بھی کہ جلد اِس مہم کے فوائد سے صوبے کے تمام بچے بیماریوں سے پاک ہوں گے۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ ایسی مہم کا آغاز بہت پہلے شروع ہوجانا چائیے تھا، لیکن پھر بھی دیر آید درست آید۔

لیکن تمام اقدامات اور کوششوں کے ساتھ ساتھ یہ گزارش بھی ہے کہ یہ مہم جس کا آغاز اگلے ماہ سے ہوگا، اِس کا قیام اُس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک بیماریوں کا جڑ سے خاتمہ نہ ہوجائے۔ کہیں ایسا نہ کہ کو دونوں جماعتوں کے سربراہان کی جانب سے کوئی بیان جاری ہوجائے جس کے سبب تلخی پیدا ہو اور پھر اُس تلخی کے نتیجے میں یہ کمیٹی اپنا کام چھوڑ دے۔ جس کا نقصان کسی اور کا نہیں مگر صوبے اور ملک کے بے کس عوام کا ہوگا جس حکمرانوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مسلسل انتظار میں ہے۔

ساتھ ساتھ یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جو احسن قدم خیبر پختونخواہ کی حکومت نے اُٹھایا ہے ایسا ہی قدم باقی صوبائی حکومتوں کو بھی اُٹھانا چاہیے تاکہ بیماریوں کا خاتمہ صرف ایک صوبے سے نہ ہو بلکہ پورا ملک اِن بیماریوں کے چنگل سے آزاد ہوجائے اور ہم بڑے فخر سے پاکستان کو بیماریوں سے صاف پاکستان کہہ سکیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔