نخلستان…کیا سے کیا ہو گیا

ایک خطہ پچھم پور کے نام سے الگ ہوا جہاں کے غریب سرمایہ دار امیر بنتے گئے۔


Zuber Rehman January 24, 2015
[email protected]

'نخلستان' ایشیا کا ایک ایسا علاقہ تھا، جو سرسبز شاداب تھا درخت اور پودے، پھولوں اور پھلوں سے لدے ہوتے تھے۔ برساتی جنگلات چہارطرف بارشوں کے دوران جھومتے رہتے تھے۔ ہر طرف ندی نالے تھے۔ لوگ اتنے آسودہ تھے کہ فارغ وقت شعروشاعری اور کہانیاں سنانے اور سننے میں گذار دیتے تھے۔ یہاں آم، انناس، کٹھل، کیلے، ناریل، خوبانی، سیب، ناشپاتی، آلوچہ، انگور جھومتے اور لٹکتے ہوئے نظر آتے تھے۔

زمین سونا اگلتی تھی۔ مگر اس خطے پر اچانک آسیب کا سایہ امنڈ آیا۔ پہلے بخارا اور نیشاپور کے شہنشاہوں کی شکل میں اس نخلستان پر سیاہ بادل منڈلائے، بعدازاں سمندرآباد سے جدید لائولشکر کے سا تھ دھلے ہوئے آسیبوں کا غول حملہ آور ہوا۔ وہ تو سیاہ مرچ، نیل، پٹسن، نمک اور ریشم لینے آئے تھے، مگر جب اس سیاہ نے بادل نخلستان کو دبوچ لیا تو پھرکچھ نہیں چھوڑا، یہاں سے روئی، سونا، چاندی اور قیمتی پتھر بھی اپنے جہازوں میں لاد لاد کے سمندر پور بھیجتے رہے۔

بظاہر نخلستان کے پانچ فیصد عوام کو تعلیم، ہنروفن اور سائنسی شعور تو عطا کیا لیکن دھن دولت اس طرح سے لوٹے کہ ڈاکوئوں کا غول بھی شرمندہ ہو جائے۔ انھوں نے نخلستان کو ازمنہ وسطیٰ کی غلامی میں دھکیل دیا۔ کتنے بار اس نخلستان میں قحط پڑے اور سمندر آباد کے آسیب عیش وعشرت کی زندگی گذارتے رہے۔ اس ظلم وستم سے تنگ آ کر نخلستان کے مشرقی ساحلی علاقوں اور جنوب کے ساحلی علاقوں سے بغاوتیں جب سر اٹھاتی رہیں تو انھیں کچلتے رہے۔ آخر کار یہ بغاوت مغرب، شمال اور وسطی علاقوں میں بھی جب پھیل گئی تو ان کے قابو سے باہر ہو گئے۔ افلاس، بھوک اور ننگ زدہ لوگ جب بغاوت کرتے تو انھیں مچھر مکھی کی طرح مار دیا جاتا۔

بیک وقت ہزاروں کو مارنے کے واقعات نیشاپور، جیلان والا اور پلاسی میں ہوا۔ پھر ننگے بھوکے انسان بپھرتے گئے۔ پا نی کے جہازوں پر سپاہیوں نے بغاوت کی جسے جماعتوں اور ان کے رہنمائوں نے جبر اور منت سماجت کے ذریعے اس بغاوت کو ختم کرایا، اسی طرح جنوبی نخلستان میں کسانوں کی بغاوت کو کچلا۔ یہ ریا ست کے آلہ کار اسمبلی، فوجی افسران، جماعتیں اور ان کے لیڈران ہی ہوتے ہیں جو انقلاب کو روکتے ہیں۔ جب سمندر آباد کا آسیب زدہ سایہ نخلستان سے رفوچکر ہوا تو وہ کچھ اپنے کارندے یہاں چھوڑ گئے۔ جنھوں نے اس جنت نظیر نخلستان کو دوزخ میں تبدیل کر دیا۔ مذہب، قوم اور نسل کے نام پر اس کی تقسیم در تقسیم کر کے اس کی دھجیاں بکھیر دیں۔

ایک خطہ پچھم پور کے نام سے الگ ہوا جہاں کے غریب سرمایہ دار امیر بنتے گئے۔ کچھ عرصہ گذرنے کے بعد یہاں 'مرجان' سیارے سے عجیب وغریب قسم کے لباس میں کاندھوں پر چند پھولوں کے مالا سجائے ہوئے آن پہنچے اور تب 'پچھم پور' بھی آسیب زدہ ہو گیا۔ 'مرجان' سیارے سے آئے ہوئے عجیب وغریب مخلوق نے پچھم پور کے ہر علاقے، شعبے اور اداروں میں داخل ہو گئے۔ کہیں کہیں وہ خود اور کہیں کہیں ان کی روحوں نے کام کرنا شروع کر دیا۔ پچھم پور کے بانی کی بہن کو ان کے نمایندوں نے شکست دی اور مرد آہن بن کر پچھم پور پر مسلط ہو گئے۔

وجاہت علی کو بھی انھوں نے ہی منظر عام سے غائب کیا۔ پچھم پور کے باسی کہتے ہیں کہ مرجان سیارے سے آنے والے آسیب پچھم پور کے کسی مقامی رہنما کو قدم جمانے نہیں دیا۔ انھوں نے ذوالقرنین اور نظیرکو بھی اپنی راہوں سے ہٹا دیا۔ مرجان سیارے سے آنے والے آسیبوں کا بڑے سیاروں کے بادشاہوں سے بھی نہ صرف رابطہ تھا بلکہ ان کے احکامات کی بجاوری کرتے آ رہے تھے۔ وہاں سے ان آسیبوں کو سکے بھی بھیجے جاتے تھے، جن سے رعایا پر مسلط رہ سکیں اور اپنی مرضی چلا سکیں۔ ان آسیبوں کے بدن پہ سیاہ رنگ کا لباس جو مقدس ہونے کی پہچان تھی مانا جاتا تھا۔ جب کبھی کچھ دنوں کے لیے مقامی بادشاہوں کا راج ہوتا تو ان پر گدھ جیسے پنکھوں سے ہر وقت سائے کی طرح منڈلاتے تھے۔

ایک بار ان آسیبوں نے 'پورب دیپ' پر چڑھ دوڑے اور ان کے سینے تاننے پر انھیں ان آسیبوں نے اپنا کرشمہ دکھاتے ہوئے دبوچ لیا تھا اور ان گنت پورب دیپ کے باسیوں کا قتل عام کیا۔ اب پچھم پور کے آسیبوں نے رعایا کو ذات پات اور عقیدوں میں تقسیم کر کے لڑوانا شروع کر دیا۔ کبھی شہروں میں ایک گروہ کو خود مارتے اور الزام دوسرے گروہ کے خلاف لگاتے۔ اس پروپیگنڈے میں ابلاغ عامہ پیش پیش ہوتا۔ اس لیے کہ یہ آسیب طاقتور اور دھن والے ہوتے ہیں۔انھیں رعایا ڈر سے بچائو کے لیے خیرات دیتے اور پھر ان آسیبوں کے مکھیا، جماعتیں بناتی اور انھیں ایک دوسرے پرگولیاں چلواتیں۔ اگر کوئی ایسا کرنے سے انکار کرتا تو یہ کام وہ خود شروع کردیتے ۔

خدا کے ماننے والوں کو گروہوں میں تقسیم کر کے انھیں ہتھیار تھما دیتے اور پھر پڑوسی ملکوں میں داخل کر کے ثواب عظیم حاصل کرنے کے لیے قتل عام کرواتے ہیں اور جب آسیبوں کے روحانی چیلے تھک جاتے ہیں یا پیسے کم ملنے لگتے تو وہ کسی اور سیارے سے رابطہ کر کے سکے لینے لگتے۔ ان سکوں کے عوض وہ پھر اندھا دھند گولیاں چلانے لگتے۔ نشا پور سے کرنی تک یہی آسیب سارے کام انجام دیتے ۔یہ آسیب ایک بار پڑوسی ملک صغرات میں داخل ہوئے اور وہاں بھی قبضہ جما لیا۔ اور پھر وہاں سے پچھم پور میں منشیات اور گولا بارود اپنے ساتھ لائے۔ یہ گولا بارود اب تک پچھم پور میں اپنے اثرات دکھا رہے ہیں۔ ان آسیبوں نے ملک بھر میں دھماکے، قتل، اغوا برائے تاوان اور منشیات کی کاشت اور فروخت جاری رکھا ہوا ہے۔

لوگ جب ان آسیبوں سے نفرت کرنے لگتے ہیں تو دیش میں ایسے ماحول پیدا کرتے ہیں کہ لوگ خود ان آسیبوں کے ذریعے ہی نجات حاصل کرنے کا مطالبہ کرنے لگیں، پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔ لوگ مطالبہ کرتے ہیں اور یہ آسیب 'ہم تمھیں بچانے آگئے' کہہ کر مسلط ہو جاتے۔ ان سب معاملات میں دھرم اور دیش سے محبت کے نعروں اور دیش کو بچانے کا حوالہ دیتے ہیں، خواہ لوگ بھوک سے ہی کیوں نہ مرتے رہیں۔ جیسا کہ تھرتھری گائوں میں تھرتھراتے ہوئے ایک سال میں چھ سو بچے مر گئے اور سارے پیسے گولا بارود خریدنے میں ختم ہو گئے۔

ان آسیبوں نے اپنی منصف گاہیں لگائیں لیکن وہ صرف اپنوں کے علاوہ سب پر الزام لگا کر انصاف دیتے رہے۔ یعنی پورے دیش کو آسیب زدہ بنا دیا۔ اب سارے رعایا ایک ہو رہے ہیں جو ان آسیبوں سے نجات کے لیے اس سیارے کو آسیبوں سے چھٹکارہ دلوائیں گے۔ پھر کوئی خوف ہو گا، کوئی ڈر ہو گا اور نہ کوئی بھوک سے مرے گا۔ اس سیارے پر صرف محنت کرنے والوں کا راج ہو گا۔ ہر طرف محبت اور خوشحالی کے پھول کھیلیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں