پھلجھڑیاں پٹاخے اورٹھائیں ٹھائیں

ایک زمانہ تھا کہ خوشی کے موقعے پر پھلجھڑیاں اور پٹاخے چلا کر ہمیں مسرت اور شادمانی حاصل ہوتی تھی


شکیل صدیقی January 24, 2015

ایک زمانہ تھا کہ خوشی کے موقعے پر پھلجھڑیاں اور پٹاخے چلا کر ہمیں مسرت اور شادمانی حاصل ہوتی تھی۔ ہمارا دل خوشی سے نہال ہوجاتا تھا اور بچے مسرور ہوکر تالیں بجانے لگتے تھے۔عیدین کی یا شب برات کی،پٹاخوں کے دھماکے ہونے لگتے تھے اور پھلجھڑیاں یا ہوائیاں فضا میں سحر طاری کرنے لگتی تھیں۔کہیں انار کی چنگاریاں رنگ بدل بدل کر دل لبھا رہی ہوتی تھیں،کہیں کریکر چلنے لگتے ہیں، جس کو کچھ نہیں ملتا وہ ڈبے میں کاربائیڈ کا ٹکڑا ڈال کر اسے ہلاتا اور دھماکا کر کے دل بہلا لیا کرتا تھا،لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے،لوگوں کو ان پھسپھسی اور بودی چیزوں میں مزہ نہیں آتا۔

لوگ اب بڑے دھماکوں کے عادی ہوچکے ہیں ۔کان پھاڑ دینے والے دھماکے جن سے دل و دماغ لرز اٹھیں اور چیخیں سنائی دیں۔لہو رنگ چیخیں۔ورنہ مزہ ہی نہیں آتا۔سب کچھ پھیکا پھیکا سا لگتا ہے۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔کسی کے کان پرجوں نہیں رینگتی۔خبر کو سرسری انداز میں پڑھتے ہیں اور اخبار دوسری طرف رکھ دیتے ہیں۔کوئی نصیحت آمیز انداز میں کچھ کہنے لگتا ہے تو دانش ور کہتے ہیں پاکستان میں ایسا ہی ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا۔

شادی ہوتی ہے،باجے گاجے،ریکارڈنگ(ریکارڈنگ کے بغیر ہماری کوئی خوشی مکمل نہیں ہوتی)زرق برق ملبوسات اور دمکتے چہرے ۔ہر طرف شادمانی اور مسرت رقصاں ہوتی ہے۔دفعتاً شور مچتا ہے ۔''بارات آگئی،بارات آگئی۔''دولہا کے کار سے اترنے سے پہلے ہی کوئی ریوالور نکال لیتا ہے اور اچانک فائرنگ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ہوائی فائرنگ۔ سبھوں کے چہرے گلنار ہوجاتے ہیں،کچھ اندیشے کا اظہار کرتے ہیں تو سنی اَن سنی کر دی جاتی ہے۔فائرنگ کرنے والے کا ہاتھ نہیں بہکتا تو خیر ہوتی ہے،ورنہ اس کا ہاتھ جوش جذبات میںٹیڑھا میڑھا ہوا اورگولی فضا کوچیرتی ہوئی کسی بے گناہ کو جا لگی۔خوشی ماتم میں تبدیل ہوجاتی ہے۔دانش ور کہتے ہیں پاکستان میں ایسا ہی ہوتا ہے اور ہوتا رہے گا۔بغیر ڈنڈے کے لوگ سیدھے نہیں ہوں گے۔ان کی کھوپڑی پر ہر وقت ڈنڈے برسنا چاہئیں۔

شب برات آتی ہے،چیخ پکار ،قہقہے،سب کو حلوے کی فکر ہے، وقت پر تیار ہوجائے۔لذت کام و دہن کا انتظام ہو۔کسی کو سوجی کا پسند ہے تو کوئی چنے کے حلوے کا عاشق۔عبادت کی طرف لوگ کم مائل ہوتے ہیں۔بہت کم افراد کو معلوم ہوتا ہے کہ اصل واقعہ کیا ہوا تھا۔سب حلوے کی طرف ہاتھ رکھے رہتے ہیں کہ نرم و ملائم ہے اور حلق سے آسانی سے اتر جاتا ہے۔پٹاخے بازی ہوتی رہتی ہے،گویا خوشی کی کوئی تقریب ہے۔ جب اس پر دل کو تسلی نہیں ہوتی تو فائرنگ کی جاتی ہے۔ایک آدھ اس میں ٹہل جاتا ہے۔ہم اطمینان کا سانس لیتے ہیں کہ ہم سے کسی کا کچھ نہیں بگڑا۔اخبار میں خبر چھپ جاتی ہے۔لوگ حسب معمول اپنے مشاغل میں مصروف رہتے ہیں۔فائرنگ سے ہلاک ہونے والے کا کوئی نوٹس ہی نہیں لیتا۔

پچھلے رمضان کی بات ہو جائے، 29روزے پورے ہوچکے ہیں،عید کا چاند ہے کہ دکھائی نہیں دیتا۔موسم ابر آلود ہے۔اسی لیے کہیں سے کوئی شہادت نہیں آرہی۔ایک الجھن یہ ہے کہ تراویح پڑھی جائے یا نہیں۔لوگ دم سادھے ٹیلی وژن کے سامنے بیٹھے ہیں۔ٹک ٹک دیدم ،دم نہ کشیدم۔ رویت ہلال کمیٹی بھی تذبذب میں مبتلا ہے ۔اس کے ارکان دوربینیں لے کر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی چھت پر بیٹھے ہیں۔وہ منتظر ہیں کہ کہیں سے کوئی تار ہلائے تو اعلان کریں۔

رات کو دس بجے کسی دور افتادہ مقام سے شہادت آجاتی ہے اوردوسرے دن عید منانے کا اعلان ہوجاتا ہے۔وہ لوگ جو سانس لینا بھول گئے تھے ،اطمینان کا سانس لینے لگتے ہیں۔ جو افراد ٹیلی وژن نہیں دیکھ سکے ،وہ فائرنگ کی آواز سن کر اندازہ لگا لیتے ہیں کہ چاند یقینا نظر آگیا ہے ۔گویا فائرنگ سے نیا چاند نکلنے کی تصدیقی مہر لگ جاتی ہے۔یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہے،ہر سال خوشی کے موقعے پر یہی کچھ ہوتا ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم دھوم دھڑکے کے بغیر کوئی کام کر ہی نہیں سکتے۔

مددگار پارٹی کے چارکارکن فائرنگ میں ہلاک ہوجاتے ہیں۔نامعلوم افراد نے کارنامہ انجام دیا ہوتا ہے۔ہنگامہ برپا ہوجاتا ہے۔کوئی کہتا ہے کہ اُس نے کیا ہے،کسی کا خیال ہے کہ اِس نے کیا ہے۔لوگ آناً فاناً جذباتی ہوجاتے ہیں۔خون میں ابال آنے لگتا ہے۔دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔مارنے مرنے کا منظر دکھائی دینے لگتا ہے۔جو ذکی الحس ہیں اپنا اسلحہ نکال لیتے ہیں۔فائرنگ شروع ہوجاتی ہے۔گویا یہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ ہم نے ہاتھوں میں چوڑیاں نہیں پہن رکھی ہیں۔ٹھائیں ٹھائیں۔ٹھائیں۔فضا میں بارود کی بو پھیلنے لگتی ہے۔دوسرے دن ہڑتال ہوجاتی ہے۔پھر مخالف پارٹی کے افراد بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

31دسمبر ہے،نیا سال آنے والا ہے،مسرت وشادمانی سے ہمارے دل دھڑکنے لگتے ہیں۔کیک کاٹنے کی تیاریاں ہونے لگتی ہیں۔ہلے گلے کے لیے سب تیار بیٹھے ہیں۔رقص و موسیقی کا اہتمام ہو رہا ہے۔گھڑی کی سوئیاں آگے ہی آگے سرک رہی ہیں اور اس کے ساتھ ہی ہمارے دل بندھے ہوئے ہیں۔وہ لمحہ کب آئے گا جب بارہ بج کر ایک سیکنڈ ہوگا؟

وہ لمحہ بھی وارد ہوجاتا ہے۔آتش بازی ہونے لگتی ہے۔ آسمان رنگ تبدیل کرنے لگتا ہے۔لال ،پیلا،گلابی اور قرمزی۔سب ہی رنگ آسمان پر بکھر جاتے ہیں۔دھماکے ہونے لگتے ہیں۔بچے پٹاخے چھوڑنے لگتے ہیں۔بالغ حضرات ریوالور نکال لیتے ہیں،کیوں کہ انھیں پٹاخوں کے دھماکوں سے سیرابی نہیں ہوتی۔وہ سوچتے ہیں یہ کیا تماشا لگا رکھا ہے؟وہ ہاتھ بلند کر کے ٹریگر پر دباؤ ڈالتے ہیں تو فضا دھماکوں سے گونجنے لگتی ہے۔اس کی گونج ہلاکت خیز ہوتی ہے۔

صاحب ریوالور کا ہاتھ بہک بھی جاتا ہے۔گولی کسی بے گناہ کی موت کا سامان کر دیتی ہے۔کسی کو کچھ پتا ہی نہیں چلتا۔دوسرے روز کے اخبارات نظر کے سامنے آتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نئے سال کی خوشی میں فائرنگ سے چار افراد جاں بحق ہوگئے۔ہم اخبار پڑھ کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ مرنے والے کے لیے کوئی روتا دھوتا نہیں ہے۔چھوٹی سی خبر بعض اوقات کسی کی نظروں میں نہیں آپاتی۔ہم کثیر آبادی والے شہرمیں رہتے ہیں،دوچار مر جائیں تو کیا فرق پڑتا ہے؟تاریخ ہر سال خود کو دہراتی ہے۔ہم ہولسٹر سے ریوالور پھر نکال لیتے ہیں۔یادداشت کمزور ہے،اس لیے یاد ہی نہیں آتا کہ کھیل مذاق میں کوئی جان سے بھی ہاتھ دھو سکتا ہے۔یورپ اور امریکا میںکتّا بھی مر جائے تو لوگوں کو تشویش ہونے لگتی ہے۔ارے!یہ کیا ہوا؟نشے میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے لوگ ضرور مرجاتے ہیں،لیکن فائرنگ سے مرنے والوں کے بارے میں کبھی نہیں سنا۔

نئے سال کی خوشیاں،رمضان کی آمد،عید کا چاند نظر آنے کی خوشی ہو ، شب برات ہو یا پارٹی کے کسی کارکن کی ہلاکت پر افسوس۔ہم خوشی اور غمی دونوں مواقعوں پر فائرنگ کرنے کے مرض میں مبتلا ہیں۔ہمیں فائرنگ فوبیا ہوگیا ہے۔ اسلحے کی ریل پیل ہے۔جب چاہو جتنا چاہو لے لو۔کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ کہاں سے آیا؟اس کا لائسنس بھی ہے یا نہیں؟ہم جن معاشروں کے نظم و نسق اور متوازن زندگی کی مثالیں دیتے ہوئے رطب السان ہیں،ہوتا تو وہاں بھی ایسا نہیں ہے۔تو پھر ہم کس کی پیروی کر رہے ہیں؟ہمارا ماڈل سٹی کون سا ہے؟ہم منھ اٹھائے کس سمت میں جا رہے ہیں؟ ہماری کوئی سمت بھی ہے یا نہیں؟کہیں ہم یوسف بے کارواں تو نہیں؟ کیا ہم صرف زندہ رہنے کے لیے زندہ ہیں؟

لوگ انتہا پسندی کی طرف مائل ہوچکے ہیں۔اول تو مجرم گرفتار نہیں ہوتے،ہوتے بھی ہیں تو انھیں سزا نہیں ہو پاتی۔ جنھیں سزا ہوجاتی ہے وہ تھوڑے دنوں بعد رہا ہوجاتے ہیں یا سٹی کورٹ کے احاطے میں فائرنگ کرتے ہوئے فرار۔ ٹھائیں ٹھائیں۔ٹھائیں۔اپنی جانیں بچانے کے لیے پولیس ایک طرف دبک جاتی ہے۔ قانون و انصاف منہ تکتا رہ جاتا ہے۔جس کے پاس اسلحہ ہو اس سے بھلا کون جیت سکتا ہے!

میں الجھنوں کے جنگل میں کھڑا ہوں،جس کی سلجھنیں نہیںمل رہی ہیں۔ بعض دانش ور کہتے ہیں کہ یوں بات نہیں بنے گی۔ایسا ہوتا رہے گا۔تاریخ خود کو دہراتی رہے گی۔چنانچہ اب خونی انقلاب کی ضرورت ہے۔بیس پچیس ہزار کو ٹھکانے لگائے بغیر بات نہیں بنے گی۔اور یہ کام بھاری بوٹوں والے ہی کریں گے۔کمال پاشا کی طرح۔

اوہ!کیا واقعی؟

میں کبوتر کی طرح سہم کر آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔