بلوچستان سے ملکی سالمیت وابستہ ہے ایکسپریس فورم
موجودہ حکومت بلوچستان کا کچھ سنوارسکتی ہے نہ بگاڑ سکتی ہے ، احسان وائیں ، نیشنل الائنس بننا چاہیے،پروفیسر اعجاز الحسن
KARACHI:
سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں ، ماہر قانون اور عسکری و سیاسی تجزیہ نگاروں نے قرار دیا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ ملک کی بقاء کا مسئلہ ہے جسے سنجیدگی سے حل کرنیکی ضرورت ہے ۔
انھوںنے حکومت پر زوردیاکہ وہ ماضی کے واقعات سے سبق حاصل کرتے ہوئے بلوچستان کے حقیقی رہنمائوں سمیت قومی قیادت کو اعتماد میں لیکر فوری اقدامات اٹھائے ۔ قومی الائنس بنایا جائے اور فوجی آپریشن ختم کر کے بلوچوں کو حق حکمرانی دیا جائے ۔ ان خیالات کااظہار عوامی نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل احسان وائیں، پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما پروفیسر اعجاز الحسن، مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی میاں مرغوب احمد ، پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما عمر سرفراز چیمہ اور جنرل ( ر) راحت لطیف نے ''بلوچستان کامسئلہ ، محرکات اور اسکا حل '' کے موضوع پر منعقدہ ایکسپریس فورم میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا ۔
میزبانی کے فرائض خالد قیوم اور شہباز انور خان نے ادا کئے جبکہ رپورٹنگ ٹیم میں شمس قذافی ، جاوید یوسف اور شہزاد امجد شامل تھے ۔ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری احسان وائیں نے کہا کہ بلوچستان سے ملک کی سالمیت وابستہ ہے ، یہ کہانی نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ بلوچستان کو1947ء سے آج تک پانچ فوجی آپریشن برداشت کرنا پڑے جبکہ وہاں آج تک سول حکومت بننے ہی نہیں دی گئی ۔ آج تک وہاں فوج کی حکمرانی ہے ۔ موجودہ حکومت بلوچستان کا کچھ سنوار سکتی ہے اور نہ بگاڑ سکتی ہے ۔ نوازشریف ، بینظیر دونوں دو دو بار وزیراعظم رہے لیکن دونوں کے پاس اختیار نہیں تھا ، فوج نے انہیں خارجہ، داخلہ اور معاشی پالیسیوں سے باہر رکھا ہوا تھا ۔
انہوں نے کہا کہ 1971ء اور آج میں فرق یہ ہے کہ سانحہ بنگال کے وقت فوجی آپریشن کی حمایت کرنیوالی جماعتیں آج بلوچستان میں فوجی آپریشن کی مخالفت کر رہی ہیں ۔ یہ تبدیلی ملک کو مذید ٹوٹنے سے بچائے گی ۔ پیپلزپارٹی کے رہنما و چیئرمین فارن لائزن کمیٹی پروفیسر اعجازالحسن نے کہا کہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے بجائے ملک گیر سطح پر قومی کمیٹی بنا کر تجاویز ڈرافٹ کرنی چاہئیں جبکہ صدر مملکت کو بھی اس سلسلے میں اپنا قومی کردار ادا کرنا چاہئے ، صوبے میں ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ ہراساں کئے جانیوالے سیاستدانوں کیلیے آئندہ انتخابات میں حصہ لینا ممکن بنایا جا سکے اور وہاں جنگ وجدل کی کیفیت بند کر کے لوگوں کیلیے روزگارکا بندوبست کیا جائے ۔
انہوں نے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد بلوچستان کو '' کالونی'' کی طرح چلایا گیا ۔ وہاں کے وسائل کو زبردستی ان سے چھینا گیا اور انکے دانشور و اہل افراد کو مین سٹریم میں نہیں آنے دیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے مشرقی پاکستان کے سانحے سے آج تک سبق نہیں سیکھا۔ بلوچستان کے مسئلے پر نیشنل الائنس بننا چاہئے لیکن وہ بنے تو تب جب سیاسی جماعتوں میں اتفاق ہو ۔ مسلم لیگ (ن ) کے ایم این اے میاں مرغوب احمد نے کہا کہ ہم نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا ' کسی دشمن کے سامنے سرنڈر کرنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنی قوم کے سامنے سرنڈر ہوجائیں ۔ اتنا کچھ کھو جانے کے باوجود ہم اپنی ڈگر سے نہیں ہٹے ۔ سقوط ڈھاکہ اور بلوچستان سمیت دیگر مسائل کو دیکھیں تو اس میں آمریت اور ڈکیٹیٹر کا تسلسل نظر آئے گا ۔
ہمیں بلوچستان میں لگی آگ کو ٹھنڈا کرنا ہے تو نواب اکبر بگٹی کے قاتل کو پکڑا جائے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس معاملہ کو جلد سے جلد حل کیا جائے۔ تحریک انصاف کے رہنما عمر سرفراز چیمہ نے کہا کہ وہ بلوچستان کے حقوق کیلیے اختر مینگل کے تمام نکات کی پوری حمایت کرتے ہیں کیونکہ ان میں ملک اور آئین کیخلاف کوئی چیز نہیں ہے ۔ انہوں نے اپنا جمہوری حق مانگا ہے ۔ سابق حکمران چاہے وہ سیاسی ہوں یا فوجی ڈکٹیٹر انہوں نے اپنی سیاست کیلیے بلوچستان کے سرداروں اور نوابوں کو مراعات دیں مگر وہاں کے عوام کیلیے کوئی اقدام نہیںکیا ۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں خون چاہے بلوچ کا بہے یا غیر بلوچ کا یہ پاکستان کا ہی خون ہے ۔ آج تک بلوچستان میںہونیوالی قتل و غارت گری میں 15ہزار افراد قتل کئے جا چکے ہیں مگر ان کیخلاف آج تک باقاعدہ طور پر کہیں بات نہیں کی گئی ۔ میجر جنرل (ر ) راحت لطیف نے کہا کہ بلوچستان کے مسئلہ کو ہم نے بہت بڑی پرابلم بنا دیا ہے ۔ ہم نے اس سسٹم کو بدلنے کی بجائے اسی طرح جاری رکھا ' سرداروں کو ہی سب کچھ دیا کہ وہ خود ہی ڈیمز 'سکول کھولیں اور لوگوں کی فلاح وبہبود کیلیے کام کریں 'برٹش حکومت نے بھی یہی سلسلہ اختیار کیا ہوا تھا۔
ان کے جانے کے بعد یہ سسٹم رائج ہے 'جس سے نچلے طبقہ کے مسائل جوں کے توں ہی چلے آرہے ہیں۔ آج جب جمہوری حکومت قائم ہے جس میں بلوچستان سے منتخب ہو کر آنیوالے تمام کے تمام پارلیمنٹرین اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان زیادہ تر اسلام آباد میں وقت گزارتے ہیں اس پر فیڈرل حکومت کو ایکشن لینا چاہئے کیونکہ منتخب نمائندے اور صوبہ کا وزیراعلیٰ اپنے عوام کے مسائل سننے اور ان کی دادرسی کیلیے نہیں ہونگے تو کس طرح سے ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔