کیا آئیڈیا ہے‘ سرجی
جناب بارک اوبامانے بھارتی دارالحکومت میں ہندوستان کے یومِ جمہوریہ کے مہمانِ خصوصی کا لطف اٹھایا۔
KARACHI:
امریکی اور بھارتی تین باتوں پر بہت خوش ہو رہے ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ بھارت کو پاکستان کے مقابلے میں یہ منفرد اعزاز ملا ہے کہ کوئی ایک امریکی صدر اپنے دوبار کے اقتدار میں دوسری بار بھارت کا دورہ کررہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کسی امریکی صدر کو پہلی بار یہ موقع ملا ہے کہ وہ بھارت کے یومِ جمہوریہ پر ''چیف گیسٹ'' کے طور پر مدعو کیے گئے ہیں۔ تیسری ''فخر کی بات'' یہ اچھالی جارہی ہے کہ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل جناب بانکی مون اب تک بھارت کا چار بار دورہ کرچکے ہیں۔
ان کی ایک بیٹی بھارت میں تولّد ہوئیں اور بانکی مون کی ایک بہو صاحبہ بھارتی شہری ہیں۔ اور یہ آئیڈیا کہ امریکی صدر بارک اوباما کو بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر بطورِ چیف گیسٹ بلایا جائے، یہ اچھوتا خیال جناب نریندر مودی کے ذہنِ رسا کی پیداوار ہے۔ وہ ستمبر 2014ء کو یو این کی جنرل اسمبلی میں نیویارک آئے تو بارک اوباما سے بھی ملے۔ اوباما نے ان کے گلے میں بازو حمائل کیے تو مودی نے یہ پیشکش بھی کہہ ڈالی: ہم آپ کو بھارت کے یومِ جمہوریہ کے موقع پر چیف گیسٹ بنانے کے متمنی اور خواستگار ہیں۔ تمنا کو باریابی بخشی گئی۔ پاس کھڑے امریکی اور بھارتی اعلیٰ منصب داروں نے یہ سنا تو سب نے بیک زبان کہا: کیا آئیڈیا ہے' سرجی!
جناب بارک اوبامانے بھارتی دارالحکومت میں ہندوستان کے یومِ جمہوریہ کے مہمانِ خصوصی کا لطف اٹھایا۔ بھارتی وزیراعظم اور ان کی عوام اوباما صاحب کی موجودگی پر اترا رہے ہیں۔ ہم تو یہ خیال کیا کرتے تھے کہ ہمارے اور عالمِ اسلام ہی کے لیے کسی بھی امریکی صدر کی بے پناہ اہمیت ہوتی ہے، صرف ہم ہی انھیں ''دستگیر'' اور ''محسن''سمجھتے ہیں لیکن اوباما کی دہلی میں موجودگی ہم سب کو یہ حقیقت بتا رہی ہے کہ بھارت بھی ہماری طرح ہی امریکی انتظامیہ اور امریکی صدر کے اشارئہ ابرو کا ہمہ وقت منتظر رہتا ہے۔
اب نریندر مودی کے اچھوتے آئیڈیا کی بنیاد پر بننے والے پروگرام کے تحت صدرِ امریکا بارک اوباما دہلی میں ہیں اور بھارتی بنیا اس سہ روزہ دورے سے بھرپور مستفید ہونے کی کوشش کررہا ہے۔ خصوصاً امریکا سے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے۔ ''جینز ڈیفنس ویکلی'' کے تازہ شمارے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اوباما کے دورئہ بھارت کے دوران امریکا، بھارت کو سترہ ملٹری ٹیکنالوجی منتقل کرنے کی پیشکش کرے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امریکی صدر کے دورئہ بھارت کے نام پر بعض نام نہاد امریکی دانشور اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کے دیرینہ ساتھی پاکستان کو گالی دینے پر کیوں اُتر آئے ہیں؟ اور پاکستان اس امریکی دشنام کو ٹھنڈے پیٹوں کیوں برداشت کررہا ہے؟ اوباما صاحب کے اس دورئہ بھارت کے موقع پر امریکیوں (مثلاً امریکی وزیرِخارجہ جان کیری) اور بھارتیوں نے مل کر لشکرِ طیبہ اور محترم حافظ محمد سعید کے بارے میں بھی خاصا گند گھولا ہے۔
31دسمبر 2014ء کو انڈین کوسٹ گارڈز نے سمندر میں ایک کشتی کو ''لشکر طیبہ کے مجاہدین اور بارود سے بھری'' قرار دے کر اسے میزائل سے اڑا دیا۔ یہ دراصل پاکستان کے خلاف ایک بڑی سازش کا حصہ تھی مگر بات نہ بن سکی کیونکہ کانگریس پارٹی نے بھارتی پارلیمنٹ میں مقتدر جماعت کے سامنے تباہ شدہ ''لشکرِ طیبہ کی کشتی'' کے حوالے سے مختلف سوالات اٹھا کر نریندر مودی اور ان کے منصوبہ سازوں کا بھانڈا پھوڑ دیا۔
حتیٰ کہ غصے میں بی جے پی کو یہ بھی کہنا پڑا کہ (کشتی کے حوالے سے) کانگریس آگے بڑھ کر پاکستان کی زبان بول رہی ہے۔ بھارتی مقتدر جماعت (بی جے پی) کو پاکستان کے خلاف اس طرح کی پروپیگنڈہ بازی کا بہرحال یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ مبینہ طور پر ''جماعت الدعوۃ'' وغیرہ کے اثاثے منجمد کردیے گئے ہیں۔ رہی سہی کسر ذکی الرحمن لکھوی کی رہائی، بندی خانے اور نئے مقدمات کے نئے مناظر نے پوری کردی۔ اس سارے پس منظر کی بنیاد پر مگر بعض امریکی اخبار نویسوں کو آئی ایس آئی اور پاکستان کو گالی دینے کا اِذن کس نے دیا ہے؟
بروس رائیڈل ان امریکیوں میں سرِفہرست ہے جس نے اوباما کی بھارت میں موجودگی کے دوران پاکستان اور اس کے سیکیورٹی اداروں پر الزامات کی غلاظت پھینکنے کی جسارت کی ہے۔ اسے محض اس لیے درگزر نہیں کیا جاسکتا ہے کہ بروس رائیڈل ایسے دریدہ دہن پہلے بھی تو بھارت کی خوشنودی میں پاکستان اور پاکستان کے خفیہ اداروں کے خلاف دشنام بکتے رہے ہیں! بائیس جنوری 2015ء کو بھارت کے مشہور انگریزی اخبار ''دی ہندو'' میں بروس رائیڈل کا ایک طویل آرٹیکل شایع ہوا ہے جس میں اس نے منہ بھر کر وطنِ عزیز اور ہماری پریمئیر خفیہ ایجنسی پر بے بنیاد الزامات لگائے ہیں۔ FOR Prudent Crisis Planning on Terror کے زیرِ عنوان شایع ہونے والے اس آرٹیکل میں بروس رائیڈل نے کہا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی حمایت کرتا رہا ہے اور اب اس کا خود شکار بن گیا ہے' واہگہ بارڈر اور پشاور میں اسکول پر حملوں نے تو اسے ہلا کر رکھ دیا ہے۔
اس شخص نے، جو ماضی میں امریکی خفیہ ایجنسی کا باقاعدہ رکن رہا ہے، اپنے مضمون میں پاکستان پر الزام عائد کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے: ''پاکستان اب بھی لشکرِ طیبہ ایسے خطرناک دہشت گرد گروہ کی حمایت کررہا ہے اور اس تنظیم کے سربراہ پروفیسر حافظ محمد سعید کو آئی ایس آئی کی حفاظت حاصل ہے۔ امریکا نے جنرل راحیل شریف کو اپنے ہاں مدعو کیا لیکن بھارت ابھی تک یہ جاننے کا منتظر ہے کہ واشنگٹن میں راحیل شریف کے ساتھ کیا گفتگو ہوئی؟ اوباما اور نریندر مودی دلّی میں مل رہے ہیں، ان پر لازم ہے کہ دہشت گردی کے موضوع کو مرکزی خیال بنائیں۔
انھیں چاہیے کہ نواز شریف پر زور دیں کہ وہ دہشت گردوں کے بارے میں قطعی نرم پالیسی نہ رکھنے کو واضح کریں اور خصوصاً لشکرِ طیبہ کو جڑ سے اکھاڑ ڈالیں۔'' بروس رائیڈل نے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے ڈرایا ہے کہ لشکرِ طیبہ والے عنقریب بھارت پر ایک اور حملہ کرنے والے ہیں۔ اس امریکی نے بھارت کو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ وہ افغانستان سے ناٹو فوجیں نکلنے کے بعد پیدا ہونے والے خلا کر پُر کرنے کی بھرپور تیاریاں کرے۔ ہمیں حیرانی تو اس بات کی ہے کہ ایک امریکی لکھاری پاکستان اور پاکستان کے حساس اداروں پر رقیق حملے کررہا ہے لیکن پاکستان کی وزارتِ خارجہ خاموش بیٹھی ہے۔ کسی امریکی اور بھارتی الزام کا جواب دیا گیا ہے نہ بھارتی سمندر میں ایک پُراسرار کشتی کو ''لشکرِ طیبہ کی کشتی'' قرار دینے اور پھر اسے بھارت کے ہاتھوں تباہ ہونے کے حوالے سے پاکستان کے ذمے داران نے اقوامِ متحدہ کے دروازے پر دستک دینے کا تکلف گوارا کیا ہے۔