پٹرول فری پاکستان

پٹرول بحران کی تحقیقات کے لیے ایک دو رکنی کمیٹی قائم کرکے گیند کمیٹی کے کورٹ میں ڈال دی گئی۔


MJ Gohar January 27, 2015

ملک میں پٹرول کا بحران جاری تھا لوگ ایک لیٹر پٹرول کو ترس رہے تھے، ٹرانسپورٹ اور کاروبار زندگی معطل ہوکر رہ گئے تھے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکمران صورت حال کی نزاکت کے پیش نظر ملک میں رہتے اور پٹرول بحران ختم کرنے اور حالات کو معمول پر لانے میں اپنا کردار ادا کرتے۔

سعودی دورے سے واپسی کے بعد وزیراعظم نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں بریفنگ لینے کے بعد کسی متعلقہ وزیر یا مشیر کی گوشمالی کرنے کی بجائے وزارت پٹرولیم کے چار اعلیٰ افسران کو معطل کرکے گویا ''حق حکمرانی'' ادا کردیا۔ پھر پٹرول بحران کی تحقیقات کے لیے ایک دو رکنی کمیٹی قائم کرکے گیند کمیٹی کے کورٹ میں ڈال دی گئی۔

عوام کو امید ہوچلی کہ 15 دنوں تک ان کی زندگی کو اجیرن اور قومی معیشت کا پہیہ جام کرنے والے متعلقہ وزیر اور وزارت ذمے دار ٹھہرائے جائیں گے اور انھیں سزا بھی ملے گی لیکن حیران کن طور پر ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ 18 کروڑ عوام کو پٹرول بحران سے دو چار کرنے کے بعد مذکورہ تحقیقاتی کمیٹی کے ذریعے وزرا کو بڑی صفائی سے بچا لیا گیا اور تمام تر ذمے داری آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی ''اوگرا'' کے سر مونڈھ دی گئی۔کہا جا رہا ہے کہ دوستوں نے ''شفاف تحقیقات'' کے نتیجے میں حکومت کے وزرا اور ان کی وزارتوں کو پٹرول بحران سے بری الذمہ قرار دیتے ہوئے سارا ملبہ اوگرا پر ڈال دیا اور حکومت کی ''گڈ گورننس'' کا بھرم قائم رکھا کہ جیسے ملک میں پٹرولیم مصنوعات کے اتار چڑھاؤ اور کمی بیشی کا سارا ریکارڈ رکھنا اوگرا کی ذمے داری ہے۔

متعلقہ وزیر اور وزارت بس مزے اڑائے یہی حکومت کی ''گڈ گورننس'' کا راز ہے جس کا میڈیا میں کھل کر ''پوسٹ مارٹم'' کیا جا رہا ہے لیکن حکمران مطمئن ہیں نہ ان کے چہروں پر پریشانی نہ فکر مندی کہ کوئی استعفیٰ دے دے۔ ہاں اخباری بیانات تک وہ پانی پانی ہو رہے ہیں اور ایک دوسرے پر تبصرے بھی بھیج رہے ہیں جس کا اندازہ ان کے میڈیا کو دیے گئے بیانات سے لگایا جا سکتا ہے۔

وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان پٹرول بحران پر حکومتی نا اہلی کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بحران کی ذمے دار پوری حکومت ہے ہمیں ذمے داری لینی چاہیے۔ انھوں نے پٹرول کے لیے لگی لمبی لمبی لائنوں پر شرمندگی کا احساس کرتے ہوئے کہاکہ پہلے گیس کے لیے لائنیں لگتی تھیں اور اب پٹرول کے لیے لائنیں لگ رہی ہیں جو بڑی نا اہلی ہے۔ وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق فرماتے ہیں کہ پٹرول کے بحران پر قوم سے معافی کے طلب گار ہیں تسلیم کرتے ہیں کہ ہم سے کوتاہی ہوئی، پٹرول کی قیمتیں کم ہونے کے بعد طلب بڑھنے کا متعلقہ وزارت کو ادراک ہونا چاہیے تھا۔

خواجہ آصف تسلیم کرتے ہیں کہ تیل بحران کی ذمے داری ان کی وزارت پانی و بجلی پر بھی عائد ہوتی ہے کیوں کہ ہم پی ایس او کے سب سے بڑے 191 ارب کے ڈیفالٹر ہیں۔ جب کہ حکومت کے اہم وزیر اسحاق ڈار کا کہناہے کہ ان کی وزارت کا پٹرول بحران سے کوئی تعلق نہیں، انھیں یہ بحران حکومت کے خلاف گہری سازش نظر آتا ہے۔ پٹرولیم کے متعلقہ وزیر شاہد خاقان عباسی کا موقف ہے کہ اگر وزیر داخلہ ان سے رابطہ کرلیتے تو انھیں شرمندگی نہ ہوتی۔

تحقیقات کے بعد اگر ذمے دار ثابت ہوا تو استعفیٰ دے دوںگا گویا وہ خود کو اس بحران سے بری الذمہ سمجھتے ہیں اور اب تو تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ میں انھیں ''کلین چٹ'' دے دی گئی ہے انھیں مبارک ہو کہ قوم کی مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور بزرگ کے ساتھ جو 15 دنوں تک ہوتا رہا اور ارباب اختیار محض اخباری بیانات دے کر ''گڈ گورننس'' کا مظاہرہ کرتے رہے، حد تو یہ ہے کہ ایک دوسرے کو ''اون'' کرنے کی بجائے الزام تراشیاں کرکے دلوں کا غبار نکالتے رہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ پی ایس او سے لے کر اوگرا تک تمام متعلقہ شعبوں کے ذمے داران سے کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی چوک اور غلطی ضرور سرزد ہوئی ہے جس کے باعث ملک میں اچانک پٹرول کی قلت پیدا ہوگئی اور بروقت اس کا ادراک نہ کیاجاسکا تاہم متعلقہ وزیر اور وزارت کو بھی اپنی غلطیاں، کمزوریاں اور کوتاہیاں کھلے دل سے تسلیم کرنی چاہئیں کہ بحیثیت وزارت کے کپتان کے وفاقی وزیر ہی بحران کے حوالے سے جوابدہ ہیں اور کابینہ کے سربراہ ہونے کے ناتے وزیراعظم میاں نواز شریف پر بھی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قوم کو اصل صورت حال سے آگاہ کریں بلکہ پٹرول بحران کے ذمے داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لے کر آئیں۔

اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ صاحب نے بالکل واضح کہاکہ ہم نے قومی اسمبلی کے گزشتہ اجلاس میں پٹرول بحران کے امکانی خطرات کی بار بار نشان دہی کی تھی لیکن حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔ نتیجتاً عوام پٹرول کے دھکے کھانے پر مجبور ہوئے۔ خورشید شاہ نے ایک مرتبہ پھر حکومت کو خبردار کیا ہے کہ فرنس آئل کی کمی کا مسئلہ بھی منہ کھولے سر پر کھڑا ہے اور اگر حکومت نے اس جانب توجہ نہ دی تو بجلی کا سنگین بحران بھی پیدا ہوجائے گا اور پھر حکومت دو دن بھی نہیں ٹھہر سکے گی۔ اپوزیشن لیڈر نے مطالبہ کیا کہ حکومت فوری طور پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلائے تاکہ صورت حال پر کھل کر بحث ہوسکے۔ بلا شبہ صورت حال پر کھل کر بحث کرنے کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ حکومت کی کارکردگی پر ہر گزرنے والے دن کے ساتھ سوال اٹھ رہے ہیں۔

اقتدار میں آنے سے قبل مسلم لیگ کی قیادت نے ملک سے غربت، مہنگائی، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ، گیس و بجلی بحران، دہشت گردی، کرپشن اور بد عنوانی و بد انتظامی ختم کرنے اور ''گڈ گورننس'' کی اعلیٰ مثال قائم کرنے کے بلند و بانگ دعوے کیے تھے لیکن گزشتہ 20 ماہ کے دوران حکومتی کارکردگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ یہ ایک قدم آگے بڑھنے کے بعد دو قوم پیچھے ہٹ جاتی ہے اور پرنالا وہیں کا وہیں رہتا ہے ماسوائے 21ویں ترمیم کی منظوری کے کوئی نیک عمل عوام کے سامنے پیش کرنے کے لیے حکومتی دفتر میں موجود ہیں۔

بے روزگاری سے لے کر بدعنوانی تک غربت سے لے کر مہنگائی تک، دہشت گردی سے لے کر لوڈ شیڈنگ وگیس و بجلی بحران تک اور کرپشن سے لے کر بد انتظامی تک ہر عفریت پوری قوت کے ساتھ نواز حکومت کی ''گڈ گورننس'' کا مذاق اڑا رہا ہے لیکن حکمران حال مست ہیں ہمارے ایک کرم ضیا کھوکھر صاحب جو سیاسی حرکیات اور حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں نے ایک خوبصورت جملے میں حکومتی کارکردگی کا کچھ اس طرح احاطہ کیا ہے کہ حکومت ملک کو کرپشن فری، پولیو فری، انرجی بحران فری اور دہشت گردی فری تو نہ بناسکی لیکن ''پٹرول فری'' بناکر نیا ریکارڈ قائم کردیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔