خاموش آواز
آپ مذاہب کی فکری اساس پرکھیے۔تمام مذاہب انسان کوبہتربننے کی تعلیم دیتے ہیں۔
مذہب اورعقیدہ انسان کوزندگی گزارنے کاایک طریقہ سمجھاتاہے۔آپ مذاہب کی فکری اساس پرکھیے۔تمام مذاہب انسان کوبہتربننے کی تعلیم دیتے ہیں۔مذہب ذاتی معاملات کا اہم ترین جزوہے۔ طویل عرصے سے مسلسل بحث جاری ہے۔ یہ لامحدود بحث ہے اور اس میں متضاد خیالات ہیں۔ بلاشبہ پاکستان دینی اورمعاشی قدروں کے زیرِاثروجودمیں آیا تھا۔ مگر اب شدت پسندی اور عدم برداشت کے گرداب میںہچکولے کھارہاہے۔ دنیامیں پاکستان کوایک دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش جاری ہے۔
یہ مہم کیوں ہے؟اسے کون مالی معاونت فراہم کر رہا ہے ؟یہ بات سمجھنے کے لیے آپ کواپنے ملک کے اردگردکے حالات پر سنجیدہ نظرڈالنے کی اشدضرورت ہے۔کوئی ملک ہمسائے تبدیل نہیں کرسکتا۔ہمارے ملک کی جغرافیائی حدود ہندوستان،افغانستان،ایران اورچین سے جڑی ہوئی ہیں۔ ہمیں ان کے ساتھ زندگی گزارنی ہے ۔لازم ہے کہ ان کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات ہوں لیکن یہ خواہش یکطرفہ نہیں ہوسکتی۔
بی جے پی نے دوسری مرتبہ مرکزی حکومت کی باگ ڈورسنبھالی ہے۔1998-2004کے دورانیے میں اس سیاسی پارٹی کی پہلی حکومت تھی۔اس عرصے میں بچوں کے نصاب میں بنیادی تبدیلیاں کی گئیں۔ولیم ڈیلرمپل(William Darlymple)نے اس موضوع پرلکھاہے کہ ''نصابی کتابوں میں قدیم ہندوستان کوایک جنت بتایاگیاہے جسے مسلمانوں نے بربریت سے ختم کردیا''۔ان کے دورِحکومت میں تاریخ کی کتابوں کوایک خاص نظریہ کوپھیلانے کی غرض سے تبدیل کیاگیا۔ماضی کوتبدیل کرنے کی ایک بھرپور مہم چلائی گئی۔ ''دیناناتھ بٹرا'' (Dinanath Batra)اس تعلیمی مہم کاایک کلیدی کردارتھا۔
مقصدصرف ایک تھاکہ بچوں کے ذہن میں ایک بات بٹھائی جائے کہ ہندوستان میں صرف ہندومذہب کے پیروکارہی اصل محب وطن شہری ہیں۔پہلے دورانیہ کے بعدبی جے پی اب دوبارہ حکومت میں ہے۔آج بھی حکومتی معاملات ایک محدودمذہبی نظریہ کے تحت چلائے جارہے ہیں۔پروفیسروینڈی ڈونیگر(Professor Wendy امریکی محقق خاتون ہے۔یہ ہارورڈکی تعلیم یافتہ ہے اورکافی عرصہ سے ہندوستان پرتحقیقی مقالے اورکتابیں لکھنے میں مصروف ہے۔ان کی نئی کتاب"ہندو۔۔مختلف تاریخی پسِ منظر " (The Hindus: Alternative History) شایع کی گئی ہے۔
آٹھ سوصفحے پرمشتمل کتاب اس خاتون کی ریسرچ کانچوڑہے۔جیسے ہی یہ کتاب شایع ہوئی، ہندوستان میں بنیاد پرستوں نے کہرام مچادیا۔دیناناتھ بٹرانے جلسے جلوس نکالنے شروع کردیے۔اس معاملے کو عدالت میں لے جایاگیا۔شدیددباؤکی بدولت اس کتاب کو شایع کرنے سے روک دیاگیا۔ میں یہاں قطعاًیہ عرض نہیں کررہا کہ کسی بھی مذہب کے خلاف کوئی بھی کتاب لکھنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔میرانکتہ محض یہ ہے کہ وہ ملک جو اپنے آپکوسیکولر گردانتا ہے۔وہاں آپ کواکثریت کے عقائدکے متعلق کوئی مختلف رائے رکھنے یالکھنے کاکوئی حق حاصل نہیں ہے۔
دہلی میں ایک میگزین کارواں (Caravan)کافی عرصہ سے شایع ہورہا ہے۔ اس کے نمایندے نے ایک ہندو بنیادپرست رہنما کا انٹرویو شایع کیا۔اس میں انکشاف کیا گیا کہ ایک رہنما نے پورے ہندوستان میں 2006-2008 کے دورانیہ میں سولوگوں کو مذہبی عقائدکی بنیادپرقتل کرایا۔مقتولین میں مسلمان اورعیسائی شامل تھے۔ جیسے ہی یہ انٹرویوشایع ہوا، "ہندوسینا" نے ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ میگزین کے ایڈیٹراورنامہ نگاروں کوقتل کی دھمکیاں ملنی شروع ہوگئیں۔ اس کے بعدآج تک وہ جریدہ آزادانہ رائے چھاپنے سے اجتناب کرتا ہے۔ برطانیہ کے چینل فورکے ایک رپورٹر جوناتھن ملرکی ایک رپورٹ ہے۔
اس نے ثابت کیاہے کہ امریکا اوربرطانیہ میں مقیم متمول کاروباری ہندو بنیادپرست تنظیموں کوبھاری مالی امداددیتے ہیں۔2002میں گجرات میں مسلمانوں کاجوقتلِ عام ہوا'اس میں بھی ان کاروباری لوگوں کاچندہ کی صورت میں بھرپور کردار تھا۔سنگاریکاگوش سی این این کی اینکرہیں۔ انھوں نے اپنے چینل پر"انٹرنیٹ ہندو"کالفظ استعمال کیا۔ اس خاتون کے مطابق ہندوستان کی سیاسی شخصیات کا"سنگ پریوار"سے بھرپورتعلق ہے۔سنگ پریوار کا مقصدپورے ملک میں صرف ایک مذہب کی مکمل اجارہ داری ہے۔جیسے ہی سنگاریکانے اپنے جذبات کااظہارکیا۔اسے قتل کرنے کے فون اور دھمکیاں موصول ہونی شروع ہوگئیں۔ اس کاجیناحرام کردیا گیا۔اس وقت سے کسی چینل کے اینکر میں یہ جرات نہیں کہ وہ"سنگ پریوار"کے خیالات کے برعکس کوئی بات کہہ سکے۔
آگرہ میں مسلمانوں کوہندو بنانے کی رسم اداکی گئی۔ تقریباً دوسوکے لگ بھگ مرد،عورتیں اوربچے شامل تھے۔ اس تقریب کاعنوان "گھرواپسی" رکھا گیا۔تقریب میں یہاں تک کہا گیا کہ "اصل میں یہ تمام لوگ ہندوتھے۔ان کو دہائیاں پہلے بزورشمشیرمسلمان بنادیا گیا تھا"۔بی جے پی کے کئی رہنماؤں نے اس طرح کی تقاریب میں شمولیت کرنے پر رضامندی ظاہرکی ہے۔یہ بات بھی درست ہے کہ اس طرح کی تقاریب کے خلاف بھرپوراحتجاج کیاگیا مگر چند بنیاد پرست گروہوں نے واشگاف طریقے سے اعلان کیاہے کہ" انھیں اس طرح کی تقاریب منعقدکرنے سے کوئی نہیں روک سکتا"۔مطلب صاف ظاہرہے کہ مسلمانوں کوہندو بنانے کی کوشش جاری رہے گی۔کیایہ واقعات کسی بھی ملک کے سیکولرہونے کے دعویٰ کی نفی نہیں کرتے!اس کاجواب آپ خودتلاش کیجیے۔
میں اس بات کوآگے بڑھاتے ہوئے ایک عرض کرنا چاہوںگا۔چیتن بھٹ لندن اسکول آف اکنامکس میں انسانی حقوق کے شعبہ کے ڈائریکٹر ہیں۔ انھوں نے تمام عمر ہندوستان کی سیاسی اورمذہبی تنظیموں پر تحقیق کرتے ہوئے گزاری ہے۔موجودہ ہندوستان کی قیادت کے متعلق انھوں نے برملالکھاہے کہ یہR.S.Sکے کارکن ہیں اوران کے تشدد آمیز خیالات میں کبھی تبدیلی نہیں آئے گی۔پیرومل مورگن (Perumal Murugun)تامل زبان میں لکھنے والے ایک معززلکھاری ہیں۔ وہ شعبہ تعلیم سے تعلق رکھتے ہیں۔تامل زبان میں انھوں نے بے مثال ناول تحریرکیے ہیں۔ان کے موضوع ذات برادری،کسانوں کے حالات اور نچلے درجے کے ہندوؤں کے مسائل زندگی ہیں۔ 2010میں پیرومل نے ایک ناول"مادھوروبگن" (Madhorubagan) کے نام سے تحریرکیا۔یہ محض ایک تصوراتی ناول تھا۔ناول میں استعارے اورعلامت کے طور پر چندقدیم ہندورسومات کاذکر کیاگیا تھا۔ چارسال کے بعداس ناول کاانگریزی ترجمہ کیا گیا۔جیسے ہی یہ انگریزی ترجمہ لوگوں تک پہنچا،پیرومل کے خلاف شدیداحتجاج شروع ہوگیا۔
بنیادپرست گروہوں نے اس کے متعلق جلوس نکالنے شروع کردیے۔اسے نقصان پہنچانے کی سرِعام دھمکیاں دی جانے لگیں۔پیرومل اتناذہنی دباؤبرداشت نہ کرسکا۔اس نے اعلان کردیاکہ وہ اپنی زندگی میں لکھی گئی تمام کتابیں،شاعری اورکہانیاں واپس لیتا ہے۔ اس نے اپنے اشاعتی اداروں کومکمل طورپراپنی کتابیں چھاپنے سے منع کردیا۔ اس نے یہ بھی اعلان کردیاکہ جس نے بھی اس کی کتابیں خریدیں ہیں،وہ ان کوجلادے،ان کے نقصان کووہ خود پوراکرے گا۔ اس نے یہ بھی اعلان کیاکہ اسے آیندہ کسی بھی ادبی تقریب میں آنے کی دعوت نہ دی جائے۔وہ اتنادل برداشتہ ہوگیاکہ اس نے فیس بُک پراپنے متعلق ایک فیصلہ تحریر کیا۔اس میں اس عظیم ادیب نے لکھا ''پیرومل موروگن نام کا ادیب مرچکا ہے۔وہ دوبارہ کبھی بھی زندہ نہیںہوگا۔اسے کوئی بھی واپس نہیں لاسکتا۔ہاں!اب پیرومل نام کاصرف ایک استاد زندہ ہے''۔
اس وقت میرے سامنے بہت سے مضامین اور رپورٹس موجودہیں جن میں بھارت میں کرسچن اور مسلمان اقلیتوں کے ساتھ نارواسلوک کاذکرہے۔ان تمام حقائق کوسامنے لانے والے اکثریت ہندوستان سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔میں یہاں یہ عرض کرونگاکہ وہاں آزادی فکراورآوازکودبانے کی سرکاری سطح پر کوشش جاری ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ ان عناصرکے خلاف ایک کمزورسی آوازبھی سنائی دیتی ہے!مگرسوال یہ ہے کہ کیاپاکستان کے معروضی حالات دیکھ کر اسے بنیادپرستی اور دہشت گردی کامنبع قراردینادرست ہے۔کیاوہ ملک جوخود سنگین تضادات کاشکارہے،محض پروپیگنڈا کے زور پر اپنی خامیوں کوخوبیوں میں بدل سکتا ہے؟کیایہ ملک ترقی کی چمکدار شاہراہ پران تمام تضادات کے ساتھ اپناسفربرقراررکھ سکتا ہے؟ کیااسے واقعی چاہیے کہ ہمارے متعلق ایسا منفی رویہ اپنائے رکھے،جس میں ہمارے نا کردہ گناہوں کوبھی حقیقت بناکر دنیا کے سامنے پیش کرسکے۔کیااس ملک میں معمولی سی بھی اختلافی آواز کو مستقل طورپر خاموش نہیں کردیاجاتا؟