کراچی حشرات الارض کا شہر نہیں
قربانی، حج اور عمرہ محض رسم یا نمود و نمائش نہیں بلکہ دینی فریضہ سمجھے جاتے تھے۔
تین عشرے قبل تک کراچی روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا اسے عروس البلاد یعنی شہروں کی دلہن کے نام سے پکارا جاتا تھا، شہر کے امن اور قانون پسند شہری امن و سکون کے ساتھ زندگیاں بسر کر رہے تھے۔ معاشی و سماجی سرگرمیاں عروج پر تھیں جس کی وجہ سے ملک کے دیگر شہروں کے لوگ بڑی تعداد میں رزق حلال کے حصول میں یہاں آتے تھے ہر شخص اپنی بساط، اہلیت اور محنت کے مطابق رزق حاصل کرتا تھا۔
تمام رکشہ، ٹیکسیوں میں میٹر نصب ہوتے تھے جن سے آج کی نسل ناآشنا ہے ٹریفک جام ہوتا تھا نہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کا کلچر تھا شہری ادارے فعال تھے لوگوں میں کافی حد تک سوک سینس بھی موجود تھا۔ سرکاری ملازمین اپنی ذمے داریوں کا احساس بھی کرتے تھے۔ سادگی، قناعت پسندی یا غربت کا یہ عالم تھا کہ جوتوں میں پیوند یا تلہ لگانا یا کپڑوں میں رفو کرا لینا عام تھا نہ کوئی انا تھی نہ کوئی کسی پر انگلی اٹھاتا تھا۔
قربانی، حج اور عمرہ محض رسم یا نمود و نمائش نہیں بلکہ دینی فریضہ سمجھے جاتے تھے۔ غریبوں، ناداروں کا خاص خیال رکھا جاتا تھا بعض علاقوں میں لوگ گلیوں میں گھروں سے باہر چارپائیاں ڈال کر سوتے تھے جن کے سرہانے جگ، گلاس، اگلدان یا ٹارچ وغیرہ رکھی ہوئی تھیں لیکن کوئی چیز چوری نہیں ہوتی تھی۔ گھروں کے دروازے دن بھر کھلے رہا کرتے تھے جن پر اکثر و بیشتر کپڑے کا سادہ سا پردہ پڑا ہوتا تھا۔ رات کو بھی دروازے آج کی طرح مقفل نہیں ہوتے تھے۔ گھروں میں صحن اور برآمدے ہوتے تھے صحن کی دیواریں بھی چھوٹی چھوٹی ہوا کرتی تھیں مگر لوگوں میں خوف یا انا کا احساس نہیں پایا جاتا تھا۔
بجلی چلے جانے کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا تھا مہینوں سالوں میں اگر اچانک بجلی کی فراہمی بند ہو جاتی تو گھنٹوں دنوں نہیں بلکہ منٹوں میں آ جاتی تھی جس کی وجہ کوئی اچانک خرابی یا مینٹی ننس کا کام ہوتا تھا اگر محکمے کو شکایتی فون کیا جاتا تھا تو وہ فوراً وصول کرتے تھے اس کی وضاحت اور معذرت کرتے تھے شکایت نوٹ کر کے اس کی فوری درستگی کا انتظام کیا جاتا تھا۔ عوامی نمایندے شہری مسائل سنتے تھے عوام کے ساتھ اور ان سے رابطے میں رہتے تھے ایک کونسلر تک KESC کے ایکسیین، ٹیلی فون کے ڈی ای اور تھانے کے ایس ایچ او وغیرہ سے فون پر بات کر کے یا خود جا کر مسئلہ حل کرانے کی کوششیں کرتا تھا۔
تعلیمی و صنعتی اداروں میں سیاست اتنی گندی اور پرتشدد نہیں تھی وہاں سے طلبا و محنت کشوں کی سیاسی تعلیم و تربیت بھی ہوا کرتی تھی مگر آج کا کراچی کل سے بالکل مختلف، خوفناک، خطرناک، تباہ حال اور آسیب زدہ نظر آتا ہے یہاں شہریوں کی جان و مال، عزت و آبرو اور املاک کسی چیز کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ غیر ممالک اپنے شہریوں کو کراچی آنے سے منع کرتے یا انتہائی محتاط رہنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ شہر میں خوفناک وارداتوں کا سلسلہ 80ء کی دہائی سے شروع ہوا جب ملک کے دیگر شہروں کی طرح کراچی میں بھی ہتھوڑا گروپ کی کارروائیوں میں سوتے ہوئے لوگوں کے سر کچل کر قتل کرنے کی وارداتوں کا سلسلہ شروع ہوا پھر بم دھماکے مذہبی اور لسانی فسادات شروع ہوئے اور یہ شہر مستقل جرائم اور مسائل میں گھرتا چلا گیا۔
اب یہ لامتناہی سلسلہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ امن و تحفظ تو دور کی بات شہریوں کے لیے پینے کا پانی ہے نہ سیوریج سسٹم کا نظام ہے بجلی ہے نہ ٹرانسپورٹ کی سہولیات ہیں تمام حکومتی و شہری ادارے غیر فعال و بدحال ہیں۔ شہر تباہی و بربادی سے دوچار ہے تجاوزات، بدامنی، جرائم، بیروزگاری، بھوک، پیاس، تاریکی، ٹریفک جام آئے دن کی ہڑتالیں یہاں کے باسیوں کے مقدر میں لکھ دیے گئے ہیں۔ یہ شہر ایک ایسی گائے کی مانند ہے جس کا دودھ تو ہر کوئی پینا چاہتا ہے بعض اس کی بوٹیوں پر بھی نظریں لگائے بیٹھے ہیں مگر اس کا گوبر کوئی صاف نہیں کرنا چاہتا ہے۔ ملک کے کسی کونے میں کوئی واقعہ پیش آ جائے کسی کو کسی بھی قسم کا احتجاج، ہڑتال، ہنگامہ کرنا ہو چاہے اس کا تعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ اس شہر سے ہو یا نہ ہو سیاستدانوں اور مذہبی گروہوں کی اولین ترجیح اس شہر کو بند کرانا ہوتا ہے۔
جس سے شہر اور ملک کی معیشت پر بڑے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس نے چھوٹے موٹے کاروبار اور روزانہ اجرت پر کام کرنیوالوں پر عرصہ حیات تنگ کر کے رکھ دیا ہے۔ شہر میں ٹریفک جام ایک بڑا سیکیورٹی رسک بن چکا ہے اس دوران جرائم پیشہ افراد بے خوف و خطر ٹریفک میں پھنسی گاڑیوں میں لوٹ مار کرتے ہیں لوگوں پر تشدد کرتے ہیں اور ٹریفک میں پھنسے ہزاروں شہری یہ منظر بے بسی سے دیکھتے رہتے ہیں جلسے، جلوس اور ریلیاں معمول بن چکی ہیں جو چند منٹوں میں سارے شہر کا ٹریفک درہم برہم کر ڈالتی ہیں جسے بحال ہونے میں گھنٹوں لگتے ہیں ایسے واقعات میں پولیس اور ٹریفک پولیس بے بسی اور بے حسی کا شکار نظر آتی ہے۔
ان میں تربیت، وسائل اور عزم کی کمی پائی جاتی ہے ایسی صورتحال میں اکثر اہلکار غائب ہو جاتے ہیں یا انھیں کوئی خاطر میں ہی نہیں لاتا بعض موبائل فون پر مصروف ہوتے ہیں جن کے دماغ غیرحاضر ہوتے ہیں انھیں خود یاد نہیں رہتا کہ کس طرف کا ٹریفک روکا تھا کس طرف کا رواں کرنا ہے۔ ڈرائیوروں کے لیے ان کے اشارے سمجھنا بھی مشکل ہوتے ہیں جس سے سگنلوں پر حادثات کے امکانات مزید بڑھ جاتے ہیں اعلیٰ افسران اپنے دفاتر میں بیٹھ کر صورتحال کو مانیٹر کرتے رہتے ہیں۔ کراچی کی ڈیڑھ کروڑ سے زائد آبادی کے لیے 4 ہزار ٹوٹی پھوٹی تباہ حال بسیں اور منی بسیں اور 75 ہزار چنگ چی رکشے ہیں جن کے زیادہ تر ڈرائیور غیر تربیت یافتہ کم عمر اور نشے کے عادی ہیں محکمہ ٹرانسپورٹ، ٹریفک پولیس اور محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی مجرمانہ غفلت نے ٹرانسپورٹ کا سارا نظام تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق چنگ چی رکشہ سے روزانہ 50 لاکھ روپے بھتہ وصول کیا جاتا ہے۔ شہر میں منظم قبضہ گروپ ہیں زمینوں کو ہڑپ کر رہے ہیں غیرقانونی پارکنگ اور تجاوزات کا کاروبار کر رہے ہیں۔ ڈی جی احتساب بیورو کا کہنا ہے کہ سندھ میں متعدد ترقیاتی اسکیموں کے 85 فیصد سے زائد فنڈز کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں، ہزاروں ارب مالیت کی سرکاری زمینوں پر قبضہ مافیا کا راج ہے جس میں سیاسی لوگ ملوث ہیں چند سالوں میں صوبے کا انتظامی ڈھانچہ بری طرح تباہ کر دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے بلدیہ اور پولیس کو کراچی سے تجاوزات ختم کر کے عدالت میں اس کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا جس پر ان محکموں نے متعدد علاقوں میں کچھ دیر کے لیے پتھارے اور ٹھیلے ہٹوا کر میڈیا میں فلمیں اور تصویریں بنا کر عدالت کو رپورٹ پیش کر دی کہ حکم کی تعمیل کر دی گئی ہے۔ عدالت نے شہر میں قائم 154 غیر قانونی ہائیڈرنٹس کو مسمار کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے دیکھنا یہ ہے کہ اس پر کیا کارروائی عمل میں آتی ہے۔
عوام میں شعور و آگہی اور سوک سینس پیدا کرنا حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے اور آئین کے تحت ہر شہری کو عوامی اہمیت کے معاملات معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے پنجاب اور کے پی کے میں تو یہ قانون نافذ ہے لیکن سندھ اور بلوچستان کے عوام اس سے محروم ہیں۔ اس سلسلے میں ایک سماجی تنظیم حکومت اور عوام کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کے لیے اخبارات میں اشتہارات بھی شایع کرتی رہتی ہے لیکن حکومت کے کانوں پر کوئی جوں نہیں رینگتی۔ قوانین کی اشاعت کیس کی سماعت کے موقعے پر سپریم کورٹ نے برہم ہوتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ''سندھ حکومت کو اپنے لوگوں سے آخر کیا نفرت ہے جو ان سے ان کے حقوق چھپاتی ہے؟ صوبائی حکومت کام نہیں کر سکتی تو کسی اور کے حوالے کر دیں۔''
سندھ ملک کا سب سے تعلیم یافتہ اور جدید صوبہ تھا جہاں سے بہت نامور شخصیات پیدا ہوئیں اب یہ معاملہ الٹا ہو رہا ہے۔ سندھ میں 1989ء میں کورٹ لا شایع ہوا تھا اس کے بعد کسی نے زحمت نہیں کی۔ شکر ہے کہ پی ایل ڈی (Pakistan Legal Decision) کی اشاعت حکومت کی ذمے داری نہیں ہے ورنہ اب تک تو عدالتیں بند ہو چکی ہوتیں۔ وزارت قانون کو بند کر کے کسی بیورو آفس کو ٹھیکہ دے دیں تو وزارت کے ایک فیصد بجٹ میں سارا کام ہو جائے گا۔ کاش ہمارے حکمراں و سیاستدان اس بات کا احساس کریں کہ کراچی حشرات الارض کا شہر نہیں ڈیڑھ کروڑ سے زائد جیتے جاگتے انسانوں کا میٹروپولیٹن شہر ہے جہاں تعلیم یافتہ ہنرمند امن پسند شہری بستے ہیں جن کے ٹیکسوں سے حکمراں پرتعیش زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔ اگر اس شہر سے اسی طرح بے اعتناعی کی روش برقرار رکھی گئی تو ملک اور خود حکمرانوں کے لیے بھی اچھا ثابت نہیں ہو گا۔