مدارس تعلیم ہی حرف آخر
برسوں پہلے گھر کے دروازے پر مغرب کے بعد دستک ہوتی تو مکین سمجھ جاتے کس نے دروازہ کھٹکھٹایا ہے
برسوں پہلے گھر کے دروازے پر مغرب کے بعد دستک ہوتی تو مکین سمجھ جاتے کس نے دروازہ کھٹکھٹایا ہے، بناء کسی خوف و دہشت کے دروازہ کھولتے دس، گیارہ سالہ بچہ پرانی سی شلوار قمیض پہنے سر پر ٹوپی لگائے کھڑا ہوتا۔ اس کے ایک ہا تھ میں کپڑے کا تھیلا اور دوسرے میں المونیم کی چھوٹی سی بالٹی ہوتی جس میں محلے کے گھروں سے جمع کیا ہوا سالن ہوتا وہ بالٹی آگے بڑھاتا۔ مکین اپنے گھرکا پکا کھانا اس میں شامل کرتے اور روٹی سمیت وا پس کر دیتے۔
بچہ روٹی تھیلے میں ڈالتا اور اگلے گھر کی جانب چل پڑتا۔ یہ کوئی معمولی بچے نہ تھے قریب کے مدرسوں میں حافظ قرآن کی تعلیم حاصل کرتے عالم دین بننے کا خواب دیکھنے والے طالب علم تھے انھیں ماں، باپ و بہن بھائی کی دوری کا صدمہ جھیلنا پڑتا۔ استاد جی کی مار اور سزائیں بھی سہنی پڑتی، ان مدرسوں کا انتظام چلانے والے بچوں کو حافظ قرآن بننے تک اپنے پاس رکھتے وہ مدرسوں و مسجدوں سے ملحق ہُجروں میں رہتے۔
ان بچوں کے والدین کبھی غربت کے ہاتھوں اور کبھی کامیاب مذہبی رہنما کے خواب پورا کرنے کی خا طر ان مدارس میں داخل کرتے۔ بالکل اسی طرح جیسے ہم اپنے بچوں کو ڈاکٹر، انجنیئر اور چارٹرڈ اکا ؤنٹینٹ بنا نے کے لیے بڑی جامعات کا رخ کر تے ہیں۔ ان مدارس میں پڑھنے والے بچوں کو محض دینی تعلیم فراہم کی جاتی دنیاوی تعلیم سے یہ طالب علم بے بہرہ رہتے۔ شاید کچھ مدرسوں میں ثانوی تعلیم کا کچھ نظا م ہو اب سوال یہ کہ ایسے بچے جو اس طرح کے گھٹے ہوئے ماحول میں پرورش پاتے ہوں گے ان کی شخصیت کیا رخ اختیار کر ے گی؟ کیا وہ کھلے ذہن کے ساتھ ایک بالغ شہری کی حیثیت سے دنیا میں تیز تر زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھ پا ئیں گے؟
زمانہ بدل گیا مدارس بھی مختلف ذرایع سے ملنے والی مالی امداد سے کافی خوشحال ہو چکے ہیں۔ ان کے اکابرین کے پاس قیمتی گاڑیاں و دیگر زندگی کی آسا ئشیں بھی ہیں مگر ان طالب علموں کی ذاتی زندگی و ذہنی بالیدگی کا کیا کیجیے کہ وہ اب بھی بند گلیوں کے سفر میں ہیں۔ ایک آئیڈیل سچوایشن تو یہ ہونی چاہیے تھی کہ جب یہ بچے فارغ تحصیل ہو کر مدارس سے نکلیں تو ایک کھلے ذہن کے ساتھ معاشرے کا حصہ بن سکے۔
قرآن ایک مکمل ضابطہ حیات ہے دینی و دنیاوی علوم کے تمام پہلو اس میں لکھ دیے گئے ہیں جو دنیا کے تمام علوم کا نچوڑ ہے یہ اجتہاد کا دروازہ بھی کھولتی ہے تو پھر شاہراہ زندگی پر اکثر اس کا طالب علم دنیاوی لحاظ سے نا کام و کنفیوژ کیوں نظر آتا ہے۔ یہ وہی علم ہے جس سے ہمارے بزرگوں نے دنیا میں فتح کا علم بلند کیا مگر اب تا ریکی ہی تاریکی کیوں دکھائی دیتی ہے اب ان مدارس کی جانب اٹھنے والی آنکھوں میں عزت و توقیر کی جگہ شکوک وشبہات، ڈر و خوف نے کیوں لے لی ہے ۔
11 ویں صدی میں مدارس عالم اسلام میں تعلیم کا واحد ذر یعہ تھے یہاں سے وہ قابل طبیب و حکمت، فلسفہ و فقہ ، مورخ ، انجینئر، استاد، ماہر فلکیات ونجوم ، سماجیات، ماہرقانون، جغرافیہ داں اور امام عالم دین کی سند لے کر نکلتے تھے۔ برصغیر میں محمد بن قاسم کی آمد کے بعد یہاں بھی اسلام پھیلا تو مدارس کو اولین درسگاہ کی حیثیت حاصل ہوئی، مسلمان حکمرانوں نے اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا۔
قیام پا کستا ن کے بعد 149 مدارس پا کستان میں تھے لیکن روس، افغانستان جنگ کے بعد ان کی تعداد میں 1977ء سے 1988 ء کے درمیان حیرت انگیز اضافہ ہوا یہ جنرل ضیاء الحق کا دور اقتدار تھا جب مذہبی رحجانات میں غیر معمولی بلکہ خطرناک تبدیلی آئی جسے شدت پسندی بھی کہا جا سکتا ہے۔ مدارس کو جہادیوں کی تر بیت گاہوں کے طور پر آباد کیا گیا۔ 2002ء میں دس سے پندرہ ہزار غیر رجسٹرڈ مدارس تھے۔ 2008ء میں اس کا تخمینہ چالیس ہزار تک پہنچ جاتا ہے پھر یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ سرکاری اسکولوں کی کمی کو پورا کرتے ہیں لیکن اس حد تک کہ یہ پا کستان کے غریب ترین خاندانوں کے بچوں کا ذریعہ تعلیم ہے۔
آج جب پاکستان کے آئین کی شق 25 اے، جس کے تحت 6 سے 16 سال تک کے تما م بچوں کو اسکول کی تعلیم مفت فراہم کی جائے گی یہ بات افسوس ناک ہے ہمارے دیہاتوں کے 23 فی صد بچوں نے اب تک اسکولوں میں دا خلہ نہیں لیا۔ ان پسماندہ علاقوں کی سماجی، ثقافتی، سیاسی سماجی حالت ہم سے کس قدر مختلف ہیں۔ جہاں دو وقت کی روٹی کا حصول بھی نا ممکن ہو وہاں مدارس کی تعلیم و مفت کھانا اور رہائش اولین ترجیح سمجنا لازمی امر ہے مگر بد قسمتی سے 11 ستمبر کے بعد مدارس کو جہادیوں کی تر بیت گاہ کے طور پر استعما ل کیا گیا حتیٰ کہ غیر ملکی طلبا ء کی آماج گاہ بھی بن گیا۔
ملک میں آئے دن کی دہشت گردی کے وا قعات کے بعد حکومت اسے محدود کرنے کی کو شش کر رہی ہے۔ اب ان مدارس پر توجہ دی جا رہی ہے جو وقت کی ضرورت بھی ہے۔ معاشرے کو تشدد و انتہا پسندی سے پاک کرنے کے لیے درس گا ہوں کے نصاب میں تبدیل لا ئی جائے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہما رے طا لب علموں کو صحیح سوچ کی سمت تربیت نہیں دی جاتی ان کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالوں کے جواب نہیں دیے جاتے جس کی بناء پر وہ چیزوں کو سمجھ نہیں پاتا، وہ اختلاف رائے کو برداشت نہیں کر پاتا، انھیں رٹا لگا کر سبق یاد کروایا جا تا ہے۔
ہمیں اب اپنے مدارس کے کورس میں سماجی علوم پر اپنے ماحول کے مطا بق تحقیق کر کے درسی کتابیں تیار کر کے شامل کرنا ہوں گی جس کی ایک مثال فزکس کے ما یہ ناز سائنس داں اور لمز یونیورسٹی کے بہترین استاد ڈا کٹر ہود بھا ئی نے لمز یونیورسٹی کے طبی سا ئنس کے نصاب میں سماجیات کے حوالے سے مضامین شامل کیے ہیں کہ طب کی آگا ہی کے سا تھ طلبا کے لیے اپنے سماج، ثقافت اور ریاست کے بارے میں بھی آگا ہی ہو سکے۔ آگے چل کر ان کا تعلق اسی معاشرے کے افراد سے ہو گا۔ ہم نے تعلیم کو بھی مختلف معاشی درجوں میں بانٹ دیا ہے۔
اس درجہ بندی کے نظام کو تبدیل کرنا عام مدارس کے بس کی بات نہیں، یہ شاید ان پڑھے لکھے دانشور و آزاد مکتبہ فکر رکھنے والوں کی ناکامی ہے، جو عام لوگوں میں وہ آگاہی و شعور پیدا نہیں کر سکی کہ سیکولر زم کی اہمیت و افادیت کیا ہے بات یہیں پرختم نہیں ہو جاتی۔ اب خود دا نشور طبقہ اس مشکل میں پھنس گیا ہے کس طرح اپنی پوزیشن کلئیر کرے، گلوبل ولیج و میڈیا نے سوچ کی کئی راہیں کھول دی ہیں۔ ایک مسلم معاشرے میں مدارس کی اہمیت سے انکار ناممکن ہے لیکن جس طرح ہمارے مدارس کی پوری دنیا میں جہادی تنظیموں کے حوالے سے بدنامی ہو ئی ہے یہ بہت افسوس ناک ہے۔
مدارس کے اکا برین پر اب بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے انھیں دنیا کے سامنے مدارس کے بارے میں خوف و دہشت کی علامت کو ختم کر نے میں زیادہ محنت کی ضرورت ہو گی۔ بات محض اسے قائم رکھنے کی نہیں اس کے معیار کی بھی ہے، مدارس کو ایک تعلیم گاہ کے طور پر ہی رہنا چاہیے جب ایک بچہ سند لے کے باہر آئے تو اس کی مضبوط شخصیت دیکھ کر معلوم ہو کہ وہ اپنی تعلیم کی بنیاد پر کس قدر ذہین و باشعور ہے پھر آگے چل کر وہ معاشی ترقی بھی کرے گا بے شک رکا وٹیں بے شما ر ہیں لیکن تعلیم ہی حرف آخر ہے۔