بداعمالیوں کے سبب
سچا مسلمان تو وہ ہے جو اپنے دین کی حفاظت کرے، اللہ کی اطاعت و خوشنودی کو مقدم جانے
مغرب کی یہ روش بڑی ہی پرانی ہے کہ مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ اور خواہ مخوا کی چھیڑخوانی کی جائے تاکہ نفرت کی فضا پروان چڑھے،مذاہب عالم کی تعلیمات پر اگر غور کیا جائے تو اندازہ ہوجائے گا کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب ناحق لڑائی جھگڑے کو منع فرماتا ہے، لیکن جب اپنی مذہبی کتابوں میں تبدیلی کرلی جائے اور اپنی من پسند چیزیں شامل کرلی جائیں تو کہاں کا مذہب اور کیسی انسانیت؟
اتحاد و اتفاق، شرافت و تہذیب اور زندگی گزارنے کے روشن راستوں کا تعین کرتی ہے، جہاں نہ جھوٹ ہے اور نہ بددیانتی وہ عفوودرگزر اور صبر و تحمل پر عمل کرنے کی تلقین کرتی ہے۔ اللہ نے اپنے محبوب پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن کی تفسیر بناکر بھیجا تھا، جو کچھ قرآن پاک میں ہے اسی تعلیمات پر عمل سے آپ ﷺ کی ذات مبارکہ آراستہ ہے۔ اگر محمد ﷺ کو اللہ پیدا نہ فرماتے تو یہ دنیا بھی وجود میں نہ آتی۔ آپ ﷺ کی سیرت پاک سے متاثر ہوکر غیر مسلم بھی آپ ﷺ کی تعریف و توصیف اور دنیا کی سب سے عظیم ہستی کہنے پر مجبور ہوئے۔
پاکستان میں اسرائیل و فرانس، ہندوستان اور دوسرے کئی ممالک کی اشیا اسی طرح فروخت ہو رہی ہیں، کاروبار خوب چمک رہا ہے، معاشی طور پر پاکستان اپنی دینی غیرت کو بھلا کر غیر مسلموں کو اپنے اور مذہب اسلام کے دشمنوں کو خوب منافع پہنچا رہا ہے۔
سچا مسلمان تو وہ ہے جو اپنے دین کی حفاظت کرے، اللہ کی اطاعت و خوشنودی کو مقدم جانے لیکن آج اگر ہم اپنے گریبان میں جھانکیں تو اہل ایمان ہونا تو دور کی بات ہے، اسلام سے بھی ہم محروم ہیں۔ پھر ہم اس بات کا دعویٰ کس طرح کرسکتے ہیں کہ ہمیں ساری کائنات سے زیادہ عزیز اللہ اور اس کا رسولؐ ہے، دراصل سچے مسلمان تو وہ تھے جنھوں نے اللہ کی فرمانبرداری اور طرح طرح کی ذہنی و جسمانی اذیتیں برداشت کیں ان کا جینا مرنا صرف اور صرف اللہ اور اس کے نبی پاک ﷺ کے لیے تھا۔
جنگ احد کا واقعہ ہے کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ دشمن کے نرغے میں آئے اس موقعے پر سات انصار مدد کے لیے آگے بڑھے اور سرکار دو عالم ﷺ پر نثار ہوگئے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص بھی آپ کے جانثاروں میں شامل تھے جنھیں اپنی جان کی پرواہ ہرگز نہ تھی، کفار نے حضرت سعدؓ کے سینے پر اتنے تیر برسائے کہ سینہ تیروں سے چھلنی ہوگیا لیکن آپ فوراً کفار کی طرف پیٹھ کرکے کھڑے ہوگئے اور حضور ﷺ کو اپنی آڑ میں لے لیا۔ اس موقع پر نبی پاک ﷺ نے فرمایا ''میرے ماں باپ تجھ پر نثار۔'' اس سے بڑا اعزاز اور خراج تحسین کیا ہوسکتا ہے۔
اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرنے دین حق کو اپنانے والوں کو ننھے بچوں سمیت جلتی آگ میں ڈالا گیا، جس کا ذکر قرآن حکیم میں موجود ہے، حبیب ابن زید مسلمہ جب مسلمان ہوئے تو ان کے جسم کا ایک ایک عضو کاٹ کر کہا جاتا تھا کہ اللہ اور اس کے حبیب احمد مصطفیٰ ﷺ کو چھوڑ دو، آپ نے ہر مرتبہ انکار کیا اور آخر کار بربریت کا شکار ہوگئے، حضرت بلالؒؓ ایسی ہی تکلیفوں سے گزرے لیکن آپؓ نے ایمان کی دولت کو دل سے نہ جانے دیا محبت تو ہوتی ہی ایسی ہے، جس میں طاقت اور ایمان کا نشہ ہے۔
قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی زندگیاں بھی اللہ اور نبی پاک ﷺ کے لیے وقف تھیں۔ وہ ضرورت پڑنے پر اپنا تن، من، دھن، قربان کرنے سے گریز نہ کرتے۔
شادم از زندگی خویش کد کار کردم
پوری دنیا میں مسلمان ذلیل و خوار ہیں اس کی وجہ انھوں نے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کی بجائے چھوڑ دیا ہے، امت مسلمہ کا اتحاد پارہ پارہ ہوچکا ہے، مغربی طرز حیات کو اپنا کر مسلمان فخر محسوس کر رہے ہیں۔ بدلے میں انھیں ذلت و رسوائی کے سوا کچھ میسر نہیں۔
بہرحال جو بھی قومیں اللہ کے احکامات ماننے سے انکار کردیتی ہیں ان کا انجام قابل عبرت ہوتا ہے۔ حضرت محمد ﷺ سے پہلے جتنے بھی نبی ہدایت کے لیے بھیجے گئے انھوں نے نیکی کا پیغام عام کیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کے توسط سے بنی اسرائیل کو چند احکامات دیے تھے جن کی پابندی کا انھوں نے عہد کیا لیکن وہ اپنے قول پر قائم نہ رہ سکے۔ حالانکہ ان پر عمل کرنا نہ کہ آسان تھا، بلکہ دنیا میں امن و سکون کا باعث بھی تھا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، والدین، رشتے داروں اور پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک، یتیم و مساکین کے ساتھ اچھا برتاؤ اور نماز، زکوٰۃ ادا کرو یہ احکامات ماننے سے معاشرہ امن کا گہوارہ بن جاتا، رشتوں ناطوں میں دراڑ پڑنے کی بجائے محبت میں اضافہ ہوتا، لوگ ایک دوسرے کے حقیقی دوست بن جاتے اور ایک دوسرے کے مددگار ثابت ہوتے، لیکن وہ تمام باتوں سے پھر گئے اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے اور انھیں ان کے وطن سے نکال دیتے، جیساکہ آج کل ہو رہا ہے، اسرائیل نے اپنی پرانی روش کو چھوڑا نہیں ہے اور فلسطینیوں کو گھر سے بے گھر کیا اور نہتے فلسطینیوں اور ان کی بستی کو پامال کردیا، ہزاروں فلسطینی شہید ہوگئے جب کہ اسرائیلیوں کا وطن فلسطین نہیں تھا انھیں تو سازش کے تحت بسایا گیا تھا، برطانیہ اور امریکا کی مدد سے۔
تو یہودیوں کا حال شروع ہی سے ایسا ہے جب بنی اسرائیل کے ایک شخص کا قتل ہوا تھا اور قاتل کا پتا نہیں چل رہا تھا وہ ایک دوسرے پر الزام تراش رہے تھے۔ یہ مقدمہ حضرت موسیٰؑ کے پاس آیا تو آپ بھی گواہ نہ ہونے کی وجہ سے فیصلہ نہ کرسکے چنانچہ ان حالات میں اللہ کا حکم ہوا کہ گائے کے گوشت کا ایک ٹکڑا مقتول کے جسم پر مارو اس سے مردہ زندہ ہوجائے گا، اور پھر ایسا ہی ہوا۔ قاتل کا نام مقتول نے بتا دیا اور اختلافات ختم ہوگئے (واقعہ یہ تھا کہ بھتیجے نے محض دولت کے حصول کے لیے اپنے چچا کو قتل کردیا تھا) یہ ایسا واقعہ تھا کہ انھیں اللہ کی قدرت پر یقین آجانا چاہیے تھا، لیکن وہ گمراہ اور ہٹ دھرم ہی رہے۔
اللہ فرماتا ہے کہ ''ہر چیز کا مشاہدہ کرنے کے بعد بھی ایمان و یقین کی دولت سے تم محروم ہو، تمہارے دل پتھر سے بھی زیادہ سخت ہیں، بسا اوقات پتھروں سے بھی اتنا پانی نکلنے لگتا ہے کہ اس سے دریا بہنے لگتے ہیں۔ لیکن تمہارے دل اس سے بھی بڑھ کر سخت ہیں کسی بات کا اثر نہیں ہوتا۔ (ساتھ میں) علمائے یہود اللہ کی مقدس کتابوں میں خود ہی ردوبدل کردیتے ہیں اور پھر ڈھٹائی سے لوگوں سے کہتے ہیں کہ دیکھو ہماری مقدس کتابوں میں یہ لکھا ہوا ہے اس طرح صحیح بات کو چھپاتے اور غلط بات لوگوں کو سمجھا کر ان سے معاوضہ لے لیتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ خرابی ہے ایسے لوگوں پر جو چند روزہ زندگی کی خاطر عاقبت خراب کر رہے ہیں۔
یہ تو یہودیوں کا معاملہ ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے لیکن مسلمانوں کے اعمال بھی بدتر ہوچکے ہیں وہ بھی آیات کو محض اپنے نفع کی خاطر فروخت کرتے ہیں، قرآن میں کچھ ہے، بتاتے کچھ ہیں، انھوں نے خود قرآن کو پڑھا اور سمجھا اپنی ناقص معلومات کی وجہ سے غلط بیانی سے کام لیتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں ، جھوٹے حلف اٹھاتے ہیں اور اچھے کام کرنے کا عہد کرتے ہیں، برسر اقتدار آتے ہی سب بھول جاتے ہیں۔ گاؤں، دیہات کی مساجد میں موذن اور امام کی اسلامی معلومات صفر ہوتی ہیں، بہت ہی کم یعنی آٹے میں نمک کے برابر ایسے مولوی ہوں گے جو حقیقتاً قرآن حکیم کا علم رکھتے ہیں اور تبلیغ دین کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
مسلمانوں نے اپنی بداعمالیوں کے سبب اپنے آپ کو تباہ و برباد کرلیا ہے اور دوسروں کو تمسخر کا موقع دیا ہے۔ ہمیشہ اپنے عمل اور قول و فعل سے اپنی شخصیت اور اپنے کردار کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کمزور سمجھ کر کوئی دھکا نہ دے سکے۔ مذہب اسلام بھی ہمیں یہی درس دیتا ہے۔