2014 کی مہنگائی
آئی ایم ایف کے قرضے اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ڈالر بھیجنے پر ہی انحصار کرتے ہیں۔
اس وقت پا کستان میں عوام کے سب سے بڑے مسائل مہنگائی اور بیروز گاری ہیں جس سے عوام کی قوت خرید کم ہوتی جا رہی ہے جب کہ صاحب جائیداد طبقات کی قوت خرید بڑھتی جا رہی ہے اس لیے کہ طبقاتی خلیج میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے غریب آدمی دال، چاول، دودھ، آلو اور چینی وغیرہ ایک ایک کلو خریدتا تھا اور اب قوت خرید کم ہونے کی وجہ سے ایک ایک پائو خریدتا ہے۔ دکاندار خود پوچھنے پر ایک پائو کی قیمت بتاتا ہے۔ اسی طرح بیروزگاری نے بھی عوام میں بیگانگی ذات کا احساس پیدا کردیا ہے۔
بیروزگاری کی وجہ سے لوگ گداگری، خودکشی، چوری، عصمت فروشی اور منشیات کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب یہ عجیب بات ہے کہ ہم چاول برآمد کرتے ہیں جب کہ عوام اچھا چاول 150 روپے کلو اور گھٹیا چاول 100 روپے کلو خریدنے پر مجبور ہیں۔ گندم پیدا کرنیوالے دنیا کے چند ممالک میں سے ایک پاکستان ہے اور ہم آٹا 46 روپے کلو خریدتے ہیں۔ دنیا میں پاکستان چند ملکوں میں سے ہے جہاں بھینس کا دودھ وافر مقدار میں پیدا ہوتا ہے، اس لیے کہ دنیا کے بیشتر ملکوں میں گائے کا دودھ پیدا ہوتا ہے جب کہ بھینس 30 کلو تک دودھ دیتی ہے۔
دودھ میں پانی کی ملاوٹ پر کوئی انسپیکشن نہیں ہوتا، رشوتیں لے کر انسپیکٹرز چلے جاتے ہیں نتیجتاً عوام کو 50 فیصد پانی ملا ہوا دودھ 83 روپے کلو اور پائوڈر ملا ہوا دہی 120 روپے کلو ملتا ہے۔ دال برصغیر کی تاریخی اور روایتی کھانا ہے جو پاکستان میں وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہے اس کے باوجود مسور کی دال 120 روپے کلو اور مونگ کی 160 روپے کلو بک رہی ہے۔ ہم چینی برآمد کرتے ہیں جب کہ عوام کو سستی چینی فراہم کرنے کے بجائے50 روپے کلو فروخت کیا جارہا ہے۔
سب سے کم قیمت کا تیل 200 روپے کلو فروخت ہورہا ہے جب کہ پاکستان میں سرسوں، ناریل، کینولا، سویابین، بھٹہ اور زیتون کی کاشت ہوتی ہے اور ہم تیل درآمد بھی کرتے ہیں۔ چائے کی پتی ہم 500 روپے کلو خریدتے ہیں جب کہ چھ سات سال سے پختونخوا کے علاقے میں چائے کی کاشت ہورہی ہے، جسے محدود رکھا گیا ہے، اگر کسانوں کو بڑے پیمانے پر ایڈوانس رقم دی جائے تو ہم چائے کی پیداوار میں آگے چل کر خود کفیل ہوسکتے ہیں۔
چند روز قبل وزیر خزانہ اسحقٰ ڈار نے کہا کہ اس سال آلو کی پیداوار کاشتکاروں نے دس فیصد زیادہ کی ہے۔ اس کے باوجود آلو سستا ہونے کے بجائے 30 روپے کلو بک رہا ہے۔ مر غی، گائے اور بکرے کے گوشت ہم بیرون ملک برآمد کرتے ہیں جب کہ عوام 250، 400 اور 700 روپے کلو خریدنے پر مجبور ہیں۔ لوگ بجلی اور گیس کی اضافی بلنگ اور لوڈشیڈنگ سے پریشان ہیں اور اس کے اوپر آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان پر یہ شرط رکھی ہے کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہ کیا تو قرضوں کی قسطیں روک دی جائیں گی۔
اب آپ خود بتائیں کہ ایسے قرضوں سے ہمیں جان چھڑانا چاہیے کہ نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ قرض نہیں لیں گے تو ملک کیسے چلے گا۔ ان مسائل کا حل بجلی، گیس اور ملٹی نیشمل کمپنیوں کو قومی ملکیت میں لے کر مہنگائی اور بیروزگاری میں کمی کی جاسکتی ہے۔ ان سے قر ضے لے کر ہی ہم اس نوبت پہ پہنچے ہیں۔ 1948 میں 3روپے کا ایک ڈالر تھا اور اب 103 روپے کا ایک ڈالر ہے۔ اگر جنوبی امریکی ممالک آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کررہے ہیں تو کیا وہ زندہ نہیں ہیں؟ بلکہ ہم سے بہتر طور پر زندگی گزار رہے ہیں۔
پاکستان کی 60 فیصد زمین بنجر پڑی ہیں جنھیں ٹیوب ویل سے پانی نکال کر اور ہل چلا کر چند برسوں میں قابل کاشت بنایا جا سکتا ہے اور دوسری جانب جہاں ہیروئن کی کاشت ہوتی ہے، وہاں اس پر ہیلی کاپٹر سے ادویات کے چھڑکائو کے ذریعے یا پھر ٹریکٹر کے ذریعے تباہ کرکے دوسری زرعی پیداوار کی جاسکتی ہے۔ ہم لوگوں کو باروزگار، قرضوں کے ذریعے نہیں بلکہ کارخانے لگا کر کرسکتے ہیں۔ کسی بھی ملک کو خود انحصار بنانے کے لیے کیمیائی، دھات سازی، دوا سازی اور الیکٹرونک کے بنیادی کارخانے قائم کرنے کی ضرورت ہے جب کہ ہم صرف اسلحہ اور منشیات کی پیداوار میں ہی اضافہ کرتے رہتے ہیں۔
آئی ایم ایف کے قرضے اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ڈالر بھیجنے پر ہی انحصار کرتے ہیں۔ مزید برآں کرپشن ہر ادارے میں انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ عالمی بینک کے پاکستان میں مقیم کنٹری ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ پا کستان میں سب سے کم کرپشن تعلیمی ادارے میں ہے اور وہ 95 فیصد ہے۔ کم از کم گندم، چاول، دال، تیل اور دودھ کی پیداوار کو بڑھانا ضروری ہے۔
دوائیاں اتنی مہنگی ہوگئی ہیں کہ غریب آدمی کے لیے خریدنا دوبھر ہوگیا ہے۔ پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنیاں عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہیں۔ دو روپے کی دوا بیس روپے میں بیچتی ہیں۔ مسائل سے تو ہمارے ملک کے گلی کوچے بھرے پڑے ہیں۔ حال ہی میں پشاور سے شیراز خان لکھتے ہیں کہ والد کے انتقال کے بعد وہ بہن کی شادی کرنے سے محروم ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی ہمدرد اس سلسلے میں مدد کرنا چاہے تو 03077496050 پر یا راقم سے رابطہ کرسکتا ہے۔
کراچی کے ساحلوں پر مچھیرے، مچھلی آزادی سے فروخت نہیں کرسکتے ہیں۔ انھیں ساحلی وڈیروں کے پاس ہی اونے پونے قیمت میں دینا ہوتا ہے ورنہ وہ مچھلی کا شکار نہیں کر سکے اس لیے وہ تقریباً بیروزگار ہوتے جاتے ہیں۔ جو لوگ روزگار پہ لگے ہوئے ہیں وہ بھی ایک طرح سے بیروزگار یا نیم بیروزگار ہیں۔ حکومت پاکستان نے کم از کم تنخواہ 12000 روپے مقرر کی ہے جب کہ 95 فیصد محنت کشوں کی کم از کم اتنی تنخواہ نہیں ملتی ہے۔
12ہزار تو درکنار 10ہزار بھی نہیں ہے اور اگر کوئی مزدور سات آٹھ ہزار روپے میں نوکری نہ کرے تو اس سے بھی جائیگا۔ پٹرول پمپ پر 12گھنٹے کام کرنیوالوں کو صرف 3سے 4ہزار روپے دیے جاتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ کرا چی بار، جہاں انصاف بٹتا ہے وہاں بھی جمہوریت اور انصاف کے دعویدار ویٹرز کو صرف 30رو پے روز کا دیتے ہیں۔ سوال کر نے سے بتایا جاتا ہے کہ یہ لوگ ٹھکیدار کے پاس ہیں، کرا چی بار ایسے ٹھیکیدار کو کیوں رکھتا ہے جو مزدوروں کو کم از کم تنخواہ12000رو پے نہیں دیتا۔
اسی طرح سیکیورٹی گارڈز کا مسلہ ہے۔ ٹھیکیدار اگر مالکان سے بارہ ہزار رو پے لیتا ہے تو گارڈز کو 6یا 7ہزار رو پے دیتا ہے اور 6ہزار روپے اپنے پاس رکھ لیتا ہے۔ 2014 ء میں صرف کرا چی شہر میں1929 شہری قتل ہو ئے110 افراد اغوا ہو ئے ،143 رینجرز ما رے گئے، 2014اء میں شام میں پرتشدد واقعات میں 76 ہزار افراد ما رے گئے ، عراق میں15ہزار لوگ ہلاک ہو ئے جب کہ سعودی عرب سے دو ماہ میں50 ہزار غیر ملکی نکال دیے گئیان مسا ئل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ریاست خود ہے، اس کے بعد جما عتیں، ادارے اور ان کے سر براہان ہیں۔
ہر چند کے مسا ئل کا واحد حل ایک اسٹیٹ لیس سوسائیٹی میں ہی مضمر ہے۔ عوام مسائل سے تنگ آ چکے ہیں، شیخ سعدی نے درست کہا تھا کہ تنگ آ مد ، بجنگ آ مد۔ جب لوگ انتہائی مصیبتوں اور اذیتوں میں مبتلا ہو نگے تو ایسا انقلاب بر پا کرینگے کہ جہاں طبقات کا خاتمہ ہو گا، ملکیت کا خاتمہ ہو گا، ملکوں کی سرحدیں ختم ہو جائینگی۔ ساری دنیا کے مالک سارے لوگ ہونگے۔ کو ئی ارب پتی ہو گا اور نہ گدا گر۔