غلاف کعبہ کی ایک یاد
سڑکوں پر زندگی سسکتی پائی، تو قلم سے رجوع کیا۔ 27 دسمبر کو قیامت اتری، تو اسی سرسراہٹ میں پناہ لی۔
SUKKUR:
نور کا مینہ برس رہا تھا۔ وقت تھم سا گیا۔ ایک طلسمی سرسراہٹ ہوئی۔
اس شام پورا چاند تھا اور چاند کے گرد ہالا تھا۔ لطافت موج زَن تھی۔ خانۂ خدا ہزاروں انسانوں کے طواف کا محور تھا۔ ان چہروں پر اطمینان کا اجالا تھا۔ درجنوں سنہری دروازوں والی عمارت کے وسط میںآب زم زم کی مہک ہے۔ حجرہ اسود کے گرد ہجوم میں ایک خاموش ترتیب نظر آتی ہے۔ آسمانوں کو تھامے ستون ابھی چپ ہیں کہ اذان عشاء میں تھوڑا وقت ہے۔یہ خدا کا پہلا گھر ہے۔ جسے رب کائنات کے حکم پر حضرت ابراہیم نے تعمیر کیا، جن کے نقش پا آج بھی سنہری جالیوں میں محفوظ ہیں۔
اور ادھر صفا اور مروہ کی پہاڑیاں ہیں، جن کے درمیانی فاصلے کو مقدس کلمات ادا کرتے ہوئے سات بار پاٹا جاتا ہے۔ آغاز اسلام کی پہلی نشانی، آج اتنی وسیع و عریض کہ لبیک کہنے والے لاکھوں نفوس کو ٹھنڈک بخشتی ہے۔ یقین سے مالامال کرتی ہے۔ جو خوش نصیب ہوتے ہیں، ان کا پیالا بھر کر انھیں مکمل کردیتی ہے۔
اس شام میں وہیں تھا۔ طواف کے بعد اگلی صفوں میں بیٹھا سیاہ غلاف میں لپٹی عمارت کو دیکھ رہا تھا، جسے عقیدت سے چھوتے سمے فردوسی عطر کی مہک روح میں اتر گئی۔ سرشار کر گئی۔ عجب سرمستی تھی۔ یوں لگتا، جیسے لمحے ٹھہر گئے ہوں۔ ایسے میں ایک طلسمی سرسراہٹ ہوئی۔
میں پلٹا۔ وہ کاغذ پر قلم کے چلنے کی آواز تھی۔ ایک ضعیف شخص۔ چہرے پر اطمینان کی دولت۔ گود میں قرطاس۔ ہاتھ میں نفیس قلم۔ عبارت عربی میں تھی۔ آدمی کا چہرہ اور لباس اس کے پس منظر کی بابت خاموش تھے۔ وہ آسمان کی سمت دیکھتا۔ پھر سر جھکا کر تیزی سے قلم کو حرکت دیتا۔ سفید ورق پر سیاہ الفاظ ابھرتے۔
پرنور ماحول میں اس مطمئن شخص کی موجودگی غیرمعمولی نہیں تھی، قلم کی سرسراہٹ اور اس کے لبادے سے اٹھتا فردوسی عطر بھی معمول کا واقعہ تھا، یہ تو ورق پر لکھے حروف تھے جنھوں نے مجھ میں حرکت کرتی سرمستی کو نیا روپ دیا۔ خود سے باندھ لیا۔ تحریر کے ماتھے پر نسل انسانی کے لیے اولین حکم درج تھا: ''اقراء۔''
توجہ مرکوز کی۔ پر اِعراب سے عاری، روانی سے لکھی تحریر اجنبی رہی البتہ قلم کی سرسراہٹ قلب میں اتر رہی تھی۔ اسے میری توجہ کا ادراک ہو گیا۔ جھریوں زدہ چہرے پر شفیق سی مسکراہٹ ابھری۔ وہ ایک لمحے کو ٹھہر گیا۔ اور اب جو قلم کو حرکت دی، تو ایسی عبارت ابھری، جسے میں فوراً پہچان گیا کہ میرا بچپن اسکول کے درودیوار پر اسے کئی بار پڑھ چکا تھا۔ وہ سورہ قلم کی پہلی آیت تھی: ''قلم اور اس چیز کی قسم جو یہ لکھ رہے ہیں!''
عشاء کی اذان بلند ہوئی، طواف کرتے ہزاروں نفوس نے یک آواز ہو کر اللہ اکبر کہا۔ نور کی برسات یک دم بڑھ گئی۔ میں نے غلاف کعبہ پر کشید و کندہ آیات کو دمکتے دیکھا۔ سحر سے نکلنے میں کچھ وقت لگا۔ اور تب احساس ہوا، سرسراہٹ غائب ہے۔ بوڑھا جاچکا تھا۔ عمرے کی ادائی کے بعد گھر کو لوٹا۔ زندگی اپنی مصروفیات میں الجھ گئی، مگر ذہن کے نہاں گوشوں میں وہ طلسماتی سرسراہٹ محفوظ رہی۔ اب قلم کی اہمیت دوچند ہوگئی تھی کہ جب جب اسے تھاما غلاف کعبہ کی یاد مہکتی چلی آئی۔
نصابی کتابوں سے الجھ لیے، تو زندگی صحافت کے پیشے میں لے آئی۔ کہانیوں کو ٹکڑوں میں بانٹنے کا شوق تھا۔ تو قلم جزولاینفک بن گیا۔ برقیات کی دنیا کا غلبہ بھی کاغذ اور قلم کی رگڑ سے جنم لیتی جادوئی آواز سے دور نہ کرسکا کہ پہلا عشق بھلائے نہیں بھولتا۔ قلم چلنے کی یہ آواز غموں میں سہارا بنی کہ یہ رب کائنات سے جوڑ دیتی۔ جو گزری، اسے رقم کرتے گئے۔ اپنوں کی جدائی کے کرب میں اسی صریر سے مدد چاہی۔ جب کراچی میں لسانی تعصب کا ابلیسی رقص دیکھا، تو اس کے روبرو کاغذ پر اپنا غم بیان کیا۔
سڑکوں پر زندگی سسکتی پائی، تو قلم سے رجوع کیا۔ 27 دسمبر کو قیامت اتری، تو اسی سرسراہٹ میں پناہ لی۔ مسیحائوں کی درندگی کے قصے سنے، عورتوں کے زندہ درگور ہونے کے حزنیے سماعت میں اترے، جاگیرداروں کے مظالم کی کہانی سنی، تو ہمیشہ لکھنے کی میز سے رجوع کیا۔ ہستی کے روبرو دل ہلکا کیا۔غلاف کعبہ کی یہ یاد میرا کل اثاثہ تھی۔ گرتا، تو یہ سنبھالتی۔ کمزور پڑتا، تو حوصلہ دیتی۔ مگر اب یہ تیزی سے دھندلانے لگی ہے۔ اس کے میرے درمیان غبار سا چھا گیا ہے۔ ایک دیوار دھیرے دھیرے اٹھ رہی ہے۔
کہرے کا سب سے گھاتک طوفان اس روز آیا جب پشاورکی درس گاہ قتل گاہ بنی، جب انسانیت کچل دی گئی اور علم مصلوب ہوا۔ پر اس طوفان سے قبل بھی کتنی ہی علامات ظاہر ہوئی تھیں۔ یہ روشن یاد اس روز مرجھا گئی، جب لڑکیوں کی 400 درسگاہوں پر خوف کے تالے پڑگئے تھے، اس روز شدید جھکڑ چلے، جب دھمکیوں کے باوجود کھلنے والے اسکولوں پر حملے ہوئے۔ یہ یاد اس شب مدہم پڑی، جب ادراک ہوا، ریاست کی فقط 18 فیصد بچیاں آٹھویں کی حد عبور کرپاتی ہیں۔
یہ اس روز روٹھی روٹھی تھی، جب سندھ کے سیکڑوں اسکولوں کو اوطاق بنانے کا انکشاف ہوا، جب جعلی اساتذہ کی مکروہ کہانی سامنے آئی، جب درس گاہوں پر قبضوں کے سلسلے نے زور پکڑا، اور کتابوں کی جگہ کم سن ہاتھوں میں اوزار نظر آنے لگے۔ ہاں، یہ کرب کی دھول میں چھپ گئی، جب سرکاری اسکول تباہ ہونے لگے، تعلیم مہنگی ہوتی گئی، غریب کے بچے سے پڑھنے کا حق چھین لیا گیا اساتذہ معاشی معاملات میں الجھ گئے، نصاب پر بوسیدگی غالب آئی اور ہڑتالوں نے درسگاہوں پر مہر لگا دی۔
تو ہر اس پل، ہر اس روز جب کوئی علم دشمن واقعہ رونما ہوا، خانۂ خدا میں عطا ہونے والی اس حسین یاد میں ایک دراڑ پڑگئی۔ سانحۂ پشاور کے بعد تو یہ جیسے خفا ہوگئی ہے۔ جب انگلیاں قلم تھامتی ہیں، تو اس میں اجنبی سی ٹھنڈ ہوتی ہے۔ ورق پر اس کی حرکت خاموش ہوگئی ہے۔ اس کا طلسم جنگلوں میں جا چھپا ہے۔ ایسا ایک بار پہلے بھی ہوا تھا۔ اس روز، جب ایک معصوم طالبہ کی پرواز پر قدغن لگانے کی کوشش کی گئی۔ تب، گولیوں کی گونج میں یہ یاد کتنے ہی روز ویرانوں میں بھٹکتی رہی تھی۔
عزیزو، لفظ بے روح ہوگئے، اور سیاہی بے تاثیر،اس ریاست میں خِرد کو غلام بنانے کی کوششیں ہماری حسین یادوں میں چھید کر رہی ہیں، علم دشمن سرگرمیاں ہماری روح کو داغدار کرتی جا رہی ہیں، تباہ حال درسگاہیں ہمارے ضمیر کا مقتل ہیں۔ کیا ہم اندھیروں کے پرستار ہیں۔ نہیں دیکھتے، ہمارے ہاں استاد بے توقیر ہوئے۔ علم کاروبار بن گیا۔ تعلیم کی اہمیت ماند پڑتی گئی۔ طالب علموں میں خوف بیٹھ گیا۔ اور نصاب کی سوختگی انتہا کو پہنچی۔ جس ہتھیار سے دشمن کو شکست دینی تھی، اسے زنگ لگ گیا۔
علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض۔ اور فرض کی ادائی لازم۔ تحقیق، مشاہدہ، غور و فکر؛ قرآن کا حکم۔ مگر ہم نے کلام خدا سے منہ موڑ لیا۔ قلم کے دشمن ہوگئے۔ اس پر بندوق تان لی۔ آج ان ہی گناہوں کی سزا نازل ہو رہی ہے۔ رسی کھینچی جارہی ہے۔ دشمن ہم پر مسلط ہو گیا۔ بدامنی نگل رہی ہے۔ غربت سماج کو چاٹ گئی۔ اور فرقہ واریت نے ہمیں گھیر لیا۔
کیا جو علم رکھتے ہیں، اور علم نہیں رکھتے، برابر ہو سکتے ہیں۔ نصیحت تو وہی پکڑتے ہیں، جو عقل مند ہوں۔ اب بھی وقت ہے۔ علم کا راستہ اختیار کریں۔ تعلیم کا راستہ۔ زوال ٹل سکتا ہے۔ گناہ معاف ہوسکتے ہیں۔ راہ سامنے ہے: پڑھو، اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا: (سورہ علق)