تنازعات کی زد میں آنے والی بولی وڈ فلمیں

بولی وڈ کی چند ایسی فلمیں جن کا بے باک اور دلیرانہ موضوع ان کو متنازعہ بنانے کا باعث بن گیا


Muhammad Javed Yousuf February 03, 2015
بولی وڈ کی چند ایسی فلمیں جن کا بے باک اور دلیرانہ موضوع ان کو متنازعہ بنانے کا باعث بن گیا۔ فوٹو: فائل

سینما معاشرتی رجحانات کی عکاسی کرتے ہیں جہاں سماجی اور ثقافتی اقدار کو فلموں کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے، تاہم حالیہ برسوں میں کچھ بولی وڈ پروڈیوسرز اور ہدایتکاروں کو بڑی اسکرین پر بیان کی جانے والی کہانیوں کے کسی نئے خیال کو پیش کرنے پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مگر اس کے باوجود ان کی کاوش کو تجزیہ نگاروں اور سنجیدہ حلقوں میں سراہا بھی گیا کہ انہوں نے معاشرے کے ان تلخ حقائق کو دکھانے کی کوشش کی ہے جس پر لکھنا تو ایک طرف ذکر بھی کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ بولی وڈ کی ایسی چند فلمیں جن کا بے باک اور دلیرانہ موضوع ان کو متنازعہ بنانے کا باعث بن گیا اور ان کے خلاف کئی حلقوں کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا۔

ان میں پچھلے سال مسٹرپرفیکٹ کی ریلیز ہونے والی فلم ''پی کے'' بھی ہے جس کو پہلے پوسٹر کی ریلیز کے بعد سے ہی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جو سینماؤں پر ریلیز کے بعد مزید بڑھ گئی، کیونکہ اس میں معاشرتی توہم پرستی کو منفرد انداز میں پیش کیا گیا تھا، جس پر ہندو گروپس کی جانب سے فلم پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا جبکہ کئی شہروں میں سینماؤں کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا گیا، یہاں تک کہ حکمران جماعت بی جے پی کے ایک رہنماء نے یہ الزام بھی عائد کر دیا کہ اس کی تیاری کے لیے سرمایہ پاکستان سے آیا ہے۔ ان تمام اوچھے ہتھکنڈوں کے بعد یہ سال 2014ء کی کامیاب ترین فلم ثابت ہوئی۔

رام لیلا

رنویر سنگھ اور دپیکا پڈوکون کی فلم "رام لیلا" کو اس وقت مشکل کا سامنا کرنا پڑا، جب ایک عدالت نے اس کی ریلیز پر پابندی عائد کردی، جس کی وجہ ان میں دکھائے جانے والے تشدد اور عریاں مناظر سے ہندوں کے مذہبی جذبات کا متاثر ہونا تھا۔ طویل جدوجہد کے بعد عدالت نے ریلیز پر پابندی کا حکم واپس لیا اور یہ فلم 2013ء میں سب سے زیادہ کمانے والی فلموں میں سے ایک رہی۔

مدراس کیفے

جان ابراہم کی فلم "مدراس کیفے" میں سری لنکن خانہ جنگی کو پیش کیا گیا تھا اور اس کی ریلیز پر تامل برادری کی جانب سے شدید احتجاج سامنے آیا جنہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ اس میں تامل ٹائیگرز کو منفی انداز میں پیش کیا گیا۔ اس فلم کو سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر تامل ناڈو میں پیش نہیں کیا گیا ۔

آراکشن

کچھ دلت گروپس نے سیف علی خان کو اس فلم میں ایک دلت کا کردار دینے پر شدید احتجاج کیا، ان کا اعتراض تھا کہ سیف علی خان شاہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور انہیں دلت کے کردار میں دیکھنا ہماری برادری کی توہین ہے۔ اس فلم پر پنجاب، اترپردیش اور آندھرا پردیش میں پابندی بھی عائد کی گئی تاکہ مقامی برادریوں کے جذبات نہ بھڑک سکیں۔

وشواروپم

ساوتھ کے اداکار کمل ہاسن کی فلم "وشواروپم" کو بھی اس وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب ریاست تامل ناڈو کے شہریوں اور مسلم گروپس کی جانب سے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے پر فلم پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا۔ سینما مالکان سے بھی اس فلم کو نہ دکھانے کا کہا گیا تاہم یہ فلم تامل ناڈو سمیت ہر جگہ ریلیز کی گئی اور کامیاب بھی قرار پائی۔

او مائی گاڈ

اکشے کمار اور پاریش راول کی فلم'' او مائی گاڈ'' میں مذہبی توہم پرستی کو شدید طنز کا نشانہ بناتے ہوئے پرانی رسومات اور عقائد کی کھل کر مخالفت کی گئی۔ فلم کے خلاف انتہا پسند تنظیموں نے شدید احتجاج اور پابندی کا مطالبہ کیا۔ تاہم اس فلم کو ناقدین اور عوام نے خوب سراہا اور یہ 2012 کی بڑی فلموں میں سے ایک رہی۔

مائی نیم از خان

شاہ رخ خان کی یہ سپرہٹ فلم ریلیز کے موقع پر سیاسی تنازعات کا شکار رہی۔ سب سے پہلے تو شاہ رخ خان کو امریکا میں امیگریشن عملے کی جانب سے ہراساں کیے جانے کی اطلاعات سامنے آئیں جس پر ہندوستان نے امریکی حکام سے شدید احتجاج بھی کیا جبکہ فلم کو بھی خوب شہرت ملی۔ اس کے علاوہ فلم کو پاکستانی کرکٹرز کے بارے میں بولنے پر بھی ہندو جماعت شیو سینا کی جانب سے احتجاج کا سامنا کرنا پڑا جس نے فلم کے پوسٹرز جلائے اور سینما ہالوں پر حملے کیے۔

جودھا اکبر

ریتک روشن کی فلم "جودھا اکبر" کو راجھستان میں راجپوت برادری نے بلاک کروا دیا تھا۔ ان کا الزام تھا کہ ڈائریکٹر آشوتوش گواریکر نے اس فلم میں تاریخ کو تروڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔ ان کے بقول جودھا میواڑ کے راجا اودھے سنگھ کی بیٹی تھی اور اس کی شادی بادشاہ اکبر کی بجائے اس کے بیٹے سلیم سے ہوئی تھی۔

ویک اپ سڈ

رنبیر کپور کی فلم ''ویک اپ سڈ'' کو اس وقت مشکل کا سامنا ہوا جب اس میں ممبئی کو بمبئی پکارا گیا، جس پر ریاست مہاراشٹر میں سرگرم انتہا پسند تنظیم ایم این ایس نے شدید احتجاج کیا جس کے نتیجے میں فلمساز کرن جوہر کو اس تنظیم کے سربراہ راج ٹھاکرے سے معذرت کرنا پڑی بلکہ فلم کے آغاز پر ایک اعلامیہ بھی شامل کیا گیا۔

بلیک فرائیڈے

انوراگ کشپ کی تحریر اور ڈائریکٹ کردہ فلم ''بلیک فرائیڈے ''میں ایک ناول بلیک فرائیڈے کے خیال کو پیش کیا گیا تھا۔ یہ بمبئی بم حملوں پر سچی کہانی تھی جس میں 1993 میں ہونے والے بم دھماکوں کو پیش کیا گیا تھا ،مگر شدید اعتراضات کے باعث اس فلم کو دو سال تک سینماوں پر ریلیز نہیں کیا جاسکا۔

واٹر

دیپا مہتہ کی فلم ''واٹر'' میں ہندوستان میں بیواوں کی زندگیوں کو دکھایا گیا تھا، جس پر ہندو جذبات کو بھڑکانے کا الزام عائد کیا گیا۔ شیو سینا کی جانب سے اس فلم کی ڈی وی ڈیز نذر آتش کی گئیں اور دکانداروں کو دھمکیاں دی گئیں کہ فلم کی ڈی وی ڈیز کو کسی صورت فروخت نہ کیا جائے۔

بینڈٹ کوئین

شیکھر کپور کی فلم ''بینڈٹ کوئین'' کو سراہنے کے ساتھ تنقید کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ ایک ڈاکو پھولن دیوی کی زندگی پر بنائی جانے والی فلم کو تشدد اور عریاں مناظر پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں اس پر پابندی بھی لگ گئی۔ پھولن دیوی نے خود اس فلم کی ریلیز پر پابندی عائد کرنے کے لیے عدالت سے حکم امتناعی لینے کی کوشش کی تھی۔

آندھی

گلزار کی فلم ''آندھی'' کی ریلیز پر اس دور کی ہندوستانی وزیراعظم اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کے دوران پابندی عائد کردی تھی جس کی وجہ یہ خبریں تھیں کہ اس فلم میں اندرا گاندھی کی زندگی کو پیش کیا گیا ہے۔ تاہم 1977 کے انتخابات میں کانگریس کی شکست کے بعد حکمران جنتا پارٹی نے اسے ریلیز کے لیے کلیئر کردیا بلکہ اسے سرکاری ٹی وی چینل پر بھی دکھایا گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔