دہشت گردوں کو ایوارڈ

بھارت اور عالمِ اسلام کے ایک ارب سے زائد مسلمان بھلا لال کرشن ایڈوانی کے چہرے اور شخصیت کو کیسے فراموش کرسکتے ہیں؟


Tanveer Qaisar Shahid February 03, 2015
[email protected]

زمانہ عجب چال چل رہا ہے۔ جنھیں اپنی بداعمالیوں اور خونریزیوں کے سبب پھانسی کے تختے پر جھولا جھلانا چاہیے تھا، وہ قومی اعزازات اور انعام و اکرام کے حق دار ٹھہرائے جارہے ہیں اور جن کے گلے میں انسانی خدمت کے صلے میں پھولوں کے ہار ڈالنے چاہئیں تھے، انھیں گردن زدنی قرار دیا جارہا ہے۔

بھارت نے یومِ جمہوریہ کے موقع پر جن بیس لوگوں کو ملک کا اعلیٰ سول ایوارڈ دینے کا اعلان کیا ہے، ان میں کئی ایسے ہیں جن کے ہاتھ سیکڑوں معصوم اور بے گناہ انسانوں کے خون سے لتھڑے ہوئے ہیں۔ اور کئی ایسے ہیں جنہوں نے دہشت گردوں سے تعاون کرکے اپنی دنیا سنوار لی لیکن ان کا ضمیر ابھی تک انھیں کچوکے دے رہا ہے۔ بھارت سرکار نے ان دہشت گردوں، خونخواروں اور انسانیت کے دشمنوں کو ''پدم بھوشن'' اور ''اشوک چکر'' ایوارڈز دے کر فی الحقیقت امن دشمنی اور دہشت گردی سے دوستی کا عملی ثبوت دیا ہے۔

اگرچہ ''پدم بھوشن'' ایوارڈ یافتگان میں سے چند ایک ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے ملک میں فن، تعلیم، سیاست اور صحافت کے میدان میں مہذب اور یادگار کردار ادا کیا ہے۔ لال کرشن ایڈوانی المعروف ایل کے ایڈوانی ایسے اسلام دشمن ہندوسیاست کار کو مگر پدم بھوشن ایوارڈ دینے کی کیا تُک بنتی ہے؟ یہ ''صاحب'' اگرچہ بھارت کے ممتاز اور معروف سیاستدان ہیں لیکن ہندو بنیاد پرستی سے مغلوب ہوکر انھوں نے ہمیشہ بھارتی مسلمانوں کی جڑیں کاٹنے، انھیں اسلامی تشخص سے محروم کرنے اور انھیں مساجد میں جانے سے روکنے کے لیے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔ ایل کے ایڈوانی بھارتی سیاست کی وہ ذاتِ شریف ہیں۔

جنہوں نے بی جے پی، وشوہندو پریشد، آر ایس ایس ، بجرنگ دَل وغیرہ مسلم دشمن اور ہندو بنیاد پرست جماعتوں سے مل کر اعلان کر رکھا ہے کہ بھارت کی 270مساجد کو شہید کرکے ان کی جگہ مندر تعمیر کیے جائیں گے۔ ایڈوانی ''صاحب'' ۔۔۔ جو کبھی بھارت کے وزیرداخلہ بھی رہے ہیں۔۔۔ بھارت میں مسلم و مساجد دشمنی کا وہ ''ماڈل'' ہیں جو بھارتی مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کا دعویٰ رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بھارت کے جُملہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو جبریہ ہندو بناکر ''دوبارہ اپنے گھر'' لائیں گے کیونکہ ان کے دادا پَڑدادا تو ہندو ہی تھے۔ یہ دعویٰ اور نعرہ اب مودی کے بھارت میں تحریک کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔

بھارت اور عالمِ اسلام کے ایک ارب سے زائد مسلمان بھلا لال کرشن ایڈوانی کے چہرے اور شخصیت کو کیسے فراموش کرسکتے ہیں؟ یہ وہی سفاک اسلام دشمن شخص ہے جس نے 90ء کے عشرے میں بھارت میں موجود سیکڑوں برس قدیم ''بابری مسجد'' کو شہید کرنے کے لیے ہندوؤں کے قلب و ذہن میں مسلمانوں، اسلام اور اس مسجد کے خلاف نفرت و عداوت کے شعلے بھڑکا دیے تھے۔ ایڈوانی نے ہندو طاقت کے پروپیگنڈہ سے یہ آگ لگائی تھی کہ مسلمان مغل بادشاہ نے مندر کو ڈھا کر دراصل بابری مسجد کی تعمیر کی تھی۔ تاریخ اگرچہ اس دعوے کو مسترد کرتی ہے اور بھارتی عدالتوں نے بھی اس پروپیگنڈے کو بے بنیاد قرار دیا لیکن ایل کے ایڈوانی باز نہ آیا؛ چنانچہ اس نے بابری مسجد کے خلاف پورے بھارت میں رتھ یاترا نکالی جس میں ہزاروں ہندو مذہبی رہنما اور ان کی جماعتیں شامل تھیں۔

ہندوستان بھر میں مسلمانوں کے خلاف ایک ہیجان پیدا کردیا گیا۔ درجنوں ہندو مسلم فسادات ہوئے۔ مرکزی حکومت مگر بُت بنی یہ تماشہ دیکھتی رہی اور ایڈوانی کی قیادت میں ہندو بنیاد پرستوں کو غارتگری کا دانستہ موقع فراہم کرتی رہی۔ آخر 6دسمبر 1992ء کو بھارت کے مشہور شہر ایودھیا میں ہندو بنیاد پرست دہشت گرد ایک طوفان کی طرح بابری مسجد پر چڑھ دوڑے اور پلک جھپکتے میں اسے شہید کردیا۔ بہت سے مسلمان اس یُدھ میں شہید کرڈالے گئے۔

ایڈوانی کے ساتھ اٹل بہاری واجپائی، مرلی منوہر جوشی، وجے راج، کلیان سنگھ، اوما بھارتی، وغیرہ نے بھی ڈیڑھ لاکھ حملہ آور ہندو کار سیوکوں کا ساتھ دیا۔ پولیس افسر انجو گپتا، جو حملہ کے وقت ایڈوانی کی سیکیورٹی پر مامور تھا، نے بعدازاں عدالت میں بیان دیا کہ ایڈوانی جی بلند نعرے لگا لگا کر حملہ آوروں کو مسجد کے خلاف اکسا رہے تھے۔

ایڈوانی ایسے مستند دہشت گرد کو مکرم ایوارڈ سے نوازنے کی یہ دوسری مثال ہے۔ اس سے قبل ایک اسرائیلی وزیراعظم اضحاک رابن، جس کے ہاتھ لاتعداد مظلوم فلسطینیوں کے بے گناہ خون سے رنگے ہوئے تھے، کو عالمی شہرت یافتہ امن کے ایوارڈ سے نواز کر دراصل اہلِ مغرب نے فلسطینیوں کے زخموں پر دانستہ نمک پاشی کی تھی۔ اور آج یہی حرکت بد بھارت کے وزیراعظم نے کی ہے۔ گویا ثابت کیا گیا ہے کہ بھارت واقعی اسرائیل کے نقشِ قدم پر رواں ہے۔ دونوں ممالک کے دونوں وزرائے اعظموں میں اسلام و مسلم دشمنی قدرِ مشترک رکھتی ہے۔ ''پدم بھوشن'' ایوارڈ مشرقی پنجاب کے ایک معروف سکھ سیاستدان (پرکاش سنگھ بادل) کو بھی دیا گیا ہے۔

بادل ''صاحب'' وہ شخص ہیں جنہوں نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے سکھوں کے مقابل ہندوؤں کا ساتھ دیا تھا۔ 1984ء کے دوران جب بھارتی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی نے سکھوں کے مقدس ترین مقام ''گولڈن ٹیمپل'' پر حملہ کیا تھا (تاکہ ''خالصتان'' کے مرکزی لیڈر سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اور ان کے ساتھیوں کو قتل کیا جاسکے) تو یہ پرکاش سنگھ بادل تھا جس نے درونِ خانہ اندرا سے تعاون کیا تھا۔ گولڈن ٹیمپل پر حملہ دراصل اندرا گاندھی کی دہشت گردی تھی۔ جنہوں نے اس عمل میں گاندھی کا ساتھ دیا، وہ بھی اسی اصول کے تحت دہشت گرد کہلائے۔ پرکاش سنگھ بادل بھی اس فہرست میں شمار کیے گئے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے بھارتی یومِ جمہوریہ کے موقع پر ''امن کے دنوں میں سب سے بڑا ملٹری اعزاز'' دو بھارتی فوجیوں کو دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔ اس اعزاز یا ایوارڈ کو ''اشوک چکر'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

جنھیں یہ ایوارڈ دیا گیا ہے، ان میں سے ایک کا نام میجر مکنڈ اور دوسرے کا نام نائیک نیرج کمار ہے۔ ان کا خصوصی ''کارنامہ'' یہ بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس ماہ اپریل میں ان دونوں فوجیوں نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے ''شوپیاں'' میں اکیلے ہی ''دہشت گردوں'' کو جان سے مار ڈالا تھا اور خود بھی جان ہار بیٹھے تھے۔ 25اپریل 2014ء کو دراصل مقبوضہ کشمیر کے علاقے ''شوپیاں'' میںکئی حریت پسندوں اور قابض بھارتی فوجیوں کے درمیان گھمسان کا ایک معرکہ ہوا تھا۔

میجر مکنڈ کی کمان میں بھارتی فوجی نصف درجن کشمیری مسلمان خواتین کو اغواء کرکے لے جارہے تھے۔ اپنی خواتین کو نجات دلانے کے لیے کشمیری حریت پسندوں نے دھاوا بولا تو بھارتی افواج نے انھیں ''دہشت گرد'' قرار دے ڈالا۔ علاقے کا گھیراؤ کرکے کئی کشمیریوں کو شہید کردیا گیا۔ اس تصادم میں میجر مکنڈ اور نائیک نیرج کمار کشمیریوں کے ہاتھوںمارے گئے۔ مجبور کشمیری مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کی واردات کرنے والے ان بھارتی فوجیوں کو ''اشوک چکر'' کا ایوارڈ دے کر دراصل بھارت نے کشمیر دشمنی کا ایک اور ثبوت دیا ہے۔ میجر مکنڈ اور نائیک نیرج کمار کو اعلیٰ ایوارڈ دیے جانے کا مقصد یہی ہوسکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی فوج مزید وحشت و دہشت کا بازار گرم کرے اور مزاحم کشمیریوں کا خون بے دریغ ہوکر بہا دیا جائے۔ انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں