ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں
ترک ماہرین نے پنجاب پولیس کے 56 افسران کو بطور ماسٹر ٹرینر بھی تربیت کی ہے۔
خاصے عرصے کے بعد ایک بار پھر قلم اٹھانے کو دل چاہا ہے، اگرچہ یہ کام مجھے ایک دو روز پہلے کر دینا چاہیے تھا لیکن کیا کروں کچھ کام کرنے میں مجھ سے ہمیشہ تاخیر ہو جاتی ہے۔ اردو کے بے بدل شاعر منیر نیازی کی مشہور نظم یاد آ رہی ہے، اس کا پہلا بند میری حالت کا ترجمان ہے۔
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں، ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو، اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں
لیکن پنجابی کا ایک محاورہ ہے، ،،ڈھلے بیراں دا کج نئیں وگڑدا،، (بیر ایسا پھل ہے، اگر وہ زمین پر گر بھی جائے تو اس کا کچھ نہیں بگڑتا) لہٰذا بعض موضوع، واقعہ یا تقریب ایسی ہوتی ہے جس کی تاثیر سدا بہار ہوتی ہے، اس پر جب بھی لکھا یا بیان کیا جائے، تازگی اور اطمینان کا احساس ہوتا ہے، 31 جنوری کو لاہور میں کاونٹر ٹیرر ازم فورس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ بھی ایسا ہی ایونٹ تھا، اس تقریب میں شرکت کرنا خاصی خجل خرابی والی بات تھی لیکن اپنی نوعیت کے اعتبار سے انتہائی اہم تقریب تھی، اس میں وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف، پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف شریک تھے، وفاقی، صوبائی وزراء، ارکان اسمبلی، غیر ملکی سفیر اور سرکاری افسر بھی موجود تھے۔
یوں یہ کوئی معمولی ایونٹ نہیں تھا، چنیدہ صحافیوں کو انسداد دہشت گردی فورس کے جوانوں کی پریڈ دیکھنے کے لیے بلایا گیا تھا، برادرم ایاز خان، خالد قیوم، محمد الیاس اور میں اکٹھے اس شاندار تقریب میں پہنچے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے پی آر او رفیع اللہ نے ہمیں بڑی محبت سے نشستوں پر بٹھایا۔ سیکریٹری اطلاعات مومن آغا، ڈی جی پی آر اطہر علی خان نے بہترین انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور ہر ایک صحافی سے برابر رابطے میں رہے۔ یہیں پر رانا ثناء اللہ سے بھی ملاقات ہوئی۔ وہ اس تقریب کے روح رواں تھے۔ اس تقریب کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ مہمانوں کے لیے کھانے کا کوئی پرتکلف اہتمام نہیں کیا گیا۔
سب کی چائے اور بسکٹ سے تواضع کی گئی بلکہ ہم تو چائے سے بھی محروم رہے۔ وزیراعظم صحافیوں سے گفتگو کر کے دوسرے پنڈال کی طرف گئے جہاں جنرل راحیل شریف موجود تھے، صحافی بھی ان کے پیچھے چل دیے۔ رانا ثناء اللہ نے ہمیں دیکھا اور کہا، آپ لوگوں کی چائے ادھر لگی ہے جدھر سے آپ آئے ہیں، یہاں تو چائے ختم ہو گئی ہے۔اس وقت مہمانوں کی رخصتی شروع ہو گئی یوں ہم ادھر کے رہے نہ ادھر کے اور بغیر چائے پئیے اور بسکٹ کھائے گھر واپس آ گئے۔
تقریب کے خاتمے کے بعد وزیراعظم نے پٹرول کے نرخوں میں کمی کی خوشخبری سنائی۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف پرعزم اور پر اعتماد نظر آ رہے تھے۔ میرے لیے اطمینان کی بات یہ ہے کہ جمہوری حکومت اور فوج نے اس تقریب میں ایک ساتھ بیٹھ کر یہ پیغام دے دیا کہ دہشت گردوں کے خاتمے کا یک نکاتی ایجنڈا ہی ان کا مشن ہے۔
کاونٹر ٹیرر ازم فورس کے جوانوں نے جس مہارت کا مظاہرہ کیا، اسے دیکھ کر پہلی بار احساس ہوا کہ ہم دہشت گردوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور حکومت دہشت گردی کے خاتمے پر پوری طرح سنجیدہ ہے، اس معاملے میں یقیناً پنجاب بازی لے گیا ہے۔وزیراعظم میاں محمد نواز شریف جو کبھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بڑے حامی تھے لیکن اب ان کی سوچ اور فکر تبدیل ہو چکی ہے۔ وہ دہشت گردی کی تمام شکلوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ کاؤنٹر ٹیرر ازم فورس بھی انھی کے حکم پر عمل میں لائی گئی ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے اسے ہر طرح کے وسائل فراہم کیے۔ کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ میں 1182 کارپورلز بھرتی کرکے کاؤنٹر ٹیرر ازم فورس قائم کی گئی ہے، ان کارپورلز کو دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے خصوصی تربیت دی گئی۔ ترکی نے ان کارپورلز کی انٹیلی جنس، آپریشنز اور انویسٹی گیشن کے حوالے سے خصوصی تربیت کے لیے تعاون کیا اور ترک نیشنل پولیس کے 45 سینئر افسران یہاں بھجوائے۔ ترک ٹرینرز اب کارپورلز کے دوسرے گروپ کی تربیت کر رہے ہیں۔ ترک ماہرین نے پنجاب پولیس کے 56 افسران کو بطور ماسٹر ٹرینر بھی تربیت کی ہے۔
کاؤنٹر ٹیرر ازم فورس کو تین شعبوں میں تقسیم کیا گیا تاکہ پیشہ وارانہ طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ کر اسے شکست دی جاسکے۔انسداد دہشت گردی فورس دہشت گردوں کے خلاف انٹیلی جنس ڈیٹا خود حاصل کرے گی، انویسٹی گیشن بھی خود کرے گی اور پھر آپریشن بھی اس کے جوان کریں گے، اس کے الگ تھانے ہوں گے لیکن وہ نظر نہیں آئیں گے یعنی کسی کو پتہ نہیں ہو گا کہ تھانہ کہاں ہے۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ یہ فورس اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں لڑکوں اور لڑکیوں پر مشتمل ہے اور ان کی ابتدائی تنخواہ 75 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔ میرا تو یہ مشورہ ہے کہ ان کی تنخواہ ایک لاکھ روپے سے شروع ہونی چاہیے کیونکہ دہشت گردوں سے لڑنے والوں کو فکر معاش سے آزاد ہونا چاہیے۔
دہشت گردوں سے جنگ کرنے والے ان جوانوں اور خواتین کو پریڈ کے دوران جو داد ملی، یہ پوری قوم کے دل کی آواز تھی، 421 کارپورلز کا ایک دستہ میدان میں اتر چکا ہے اور باقی جلد ان کے ساتھ شامل ہو جائیں گے۔ وہ دن دور نہیں جب ان کی دہشت گردوں سے مڈبھیڑ ہو گی اور وہ انشاء اللہ کامیابی سے ہمکنار ہوں اور دہشت گردوں کو ان کی زبان میں سبق سکھائیں گے۔سچی بات ہے کہ مجھے پہلی بار یہ یقین ہوا ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے گومگو کی حالت سے باہر آ گئی ہے۔
اینٹی ٹیرر ازم فورس کی تقریب کا تاثر یہ تھا کہ یہاں انتہائی سنجیدگی ہو گی لیکن پریڈ کے دوران جب کارپورلز نے دہشت گردوں کے خلاف لڑائی کی تمثیل پیش کی تو پورا پنڈال جوش و جذبے سے سرشار ہو گیا۔ ایک فلمی منظر ہمارے سامنے تھا کہ ایک مکان میں دہشت گرد موجود ہیں۔ اینٹی ٹیرر ازم فورس کے سرفروش بھیس بدل کر انٹیلی جنس اکٹھی کرتے ہیں۔ کوئی فقیر کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے، کسی نے پھل کی ریڑھی لگا رکھی ہے، کوئی گوالہ بن کر اس مکان کے مکینوں کے بارے میں معلومات لیتا ہے تو کوئی خواجہ سراؤں کے روپ میں اپنا کام کر رہا ہے، اس کے بعد آپریشن فورس دہشت گردوں کا قلع قمع کرتی ہے۔ یہ منظر بڑا تھرلنگ تھا۔ اگر دہشت گردوں کے خلاف واقعی اس طرح آپریشن ہو تو ان کا خاتمہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ انشاء اللہ ایسا ہی ہو گا۔