امیر شہر کے نام

اب کتنا بُرا لگتا اگر امیر شہر بھی فاقوں سے مرجاتا، کچھ تو اس کے سٹیٹس کا خیال کریں۔


اویس حفیظ February 04, 2015
ہماری دانست میں تو امیر شہر ہر گز تمہیں اپنا مستقبل نہیں تصور کرتا، گر کرتا ہوتا تو تمھارا یہ حال ہوتا؟ اے امیر شہر بتا تو سہی! ہمارا جرم کیا ہے۔ فوٹو: فائل

افلاطون نے کسی ترنگ میں کہا تھا کہ ''ہر شہر میں دو شہر ہوتے ہیں ، ایک امیروں کا ایک غریبوں کا۔ دونوں کے اخلاق وعادات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں''۔ غالب حد تک یہ بات حقیقت ہے مگر بہت حد تک اس میں مبالغہ آرائی کی بھی آمیزش کی گئی ہے کیونکہ ہر شہر پر یہ اصول لاگو نہیں ہوتا۔ تقریباً تمام فلاحی ریاستیں اس قسم کی تقسیم سے ماؤرا ہیں۔ اب ہر ملک پاکستان نہیں ہوتا مگر ملک خداداد کا بنظرغائر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ ہر شہر میں محض دو نہیں بلکہ کئی کئی شہر آباد ہیں۔ امیروں کا شہر، غریبوں کا شہر، متوسط طبقے کا شہر، امیر متوسط طبقے کا شہر، غریب متوسط طبقے کا شہراور بہت غریب لوگوں کا شہر۔

اسی طرح اگر اردو شاعری کے ساتھ شہر کا جائزہ لیا جائے تو منکشف ہوتا ہے کہ ہر شہر میں دو طرح کی خلق رہتی ہے۔ ایک امیر شہر اور دوسری غریب شہر۔ اور محسوس یوں ہوتا ہے کہ غریبِ شہر دنیا کی سب سے مظلوم مخلوق ہے اور امیر شہرانتہائی عجب مخلوق ہے کہ کبھی کبھی تو اس پر ''پی کے'' فلم کے ''بھگوان'' کا گمان گزرتا ہے کہ ہر کوئی اسی سے امیدیں وابستہ کیے بیٹھا ہے اور پھر ان امیدوں کے بر نہ آنے پر امیر شہر سے گلہ بھی کرتا ہے البتہ بعض جگہوں پر امیر شہر نشانہ تیرالزام بنا نظر آتا ہے اورہر دوسرا شخص اسی کو ہی کلِخطا پر موردِ الزام ٹھہراتا ہے۔

اسی لئے ہم نے بھی سوچا کہ کیوں نہ امیر شہر سے وابستہ امیدوں اور گلوں کو یکجا کردیا جائے تا کہ امیر شہر کو بھی اندازہ ہو جائے کہ لوگ اس سے کیا کیا توقع لگائے بیٹھے ہیں اور اُن امیدوں اور گلوں کو ذرا ہلکے پھلکے انداز میں واضح بھی کردیا جائے تاکہ امیر شہر سے زیادہ امیدیں وابستہ نہ کی جائیں۔ اب یہ دیکھیں فٹ پاتھ پر بیٹھا ایک غریب بچہ امیر شہر سے یوں مخاطب ہے؛
ہوائیں سرد اورجسم بے لباس ہے میرا

امیر شہر تجھ کو ذرا بھی احساس ہے میرا؟

اب کیا اس بچے کو لباس فراہم کرنا امیر شہر کی ذمہ داری ہے؟ ارے بھائی کسی درزی کو جاکر یہ کتھا سنائو، امیر شہر کو ان کاموں کیلئے فرصت نہیں۔
میں کہیں بھوک سے نہ مر جاوں اے امیر شہر

گر مستقبل ہوں تمھارا تو بچالو مجھ کو

ہماری دانست میں تو امیر شہر ہر گز تمہیں اپنا مستقبل نہیں تصور کرتا، گر کرتا ہوتا تو تمھارا یہ حال ہوتا؟ تمھیں اپنا مسئلہ لے کر کسی اور کے پاس جانا چاہئے اور ویسے بھی تمھارا تو کام ہی یہ ہے کہ ہر وقت امیر شہر کو کوستے رہتے ہو وہ ابھی کچھ دیر پہلے تم امیر شہر سے اس کے حالات کچھ اس طرح پوچھ رہے تھے؛
کچرے سے چن چن کر کھانا ، سسک سسک کر وقت بیتانا

اپنے تو حالات یہی ہیں، امیر شہر تم کیسے ہو؟

اور کل کی بات ہے جب تم امیر شہر سے یہ سوال کررہے تھے کہ؛
میں خون بیچ کر روٹی خرید لایا ہوں

امیر شہر بتا یہ حلال ہے کہ نہیں

حالانکہ ہم نے تمھیں اس وقت بھی بتایا تھا کہ یہ سوال امیر شہر سے نہیں بلکہ فقیہِ شہر سے پوچھا جانا چاہئے تھا۔ فتاویٰ صادر کرنے کا اختیار خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد سے امیر شہر سے چھین لیا گیا تھا وگرنہ بنوعباس اور بنوامیہ کی آپس کی چپقلش کے باعث چشم تماشا نے وہ منظر بھی دیکھا کہ
اک سوچ لے کے اس کے مقابل جو آ گیا

نا گاہ امیر شہر نے شمشیر کھینچ لی

یعنی کہ اس دور میں اختلاف رائے کی بالکل بھی کوئی اجازت نہ تھی۔ خیر چھوڑئیے، راکھ میں دفن ان شراروں کو ہوا نہ ہی دی جائے تو اچھا ہے۔ وگرنہ کسی''ترشول'' کے تین نشان ہم بھی سجائے پھرتے نظر آئیں گے۔

ابھی ماضی قریب کی بات ہے کہ ایک صاحب سرِ بازار یہ چلایا کرتے تھے کہ
مجھ سے نہ ہوگا امیر شہر کا احترام

میری زبان کیلئے تالے خرید لو

اجی! آپ خود ایمانداری سے بتایئے کہ کیا آپ میں سے کسی نے آج تک زبانوں پر تالے لگے دیکھے ہیں؟ کم از کم ہم نے تو آج تک نہیں لگے دیکھے، وساطتِ سطورِ زیر نظر، ہمارا سبھی کو یہ پیغام ہے کہ اگر کسی نے دیکھے ہیں تو کم از کم ہمیں ایسے تالے لگے ضرور دکھائے، چلیں کوئی تصویر ہی اتار کر ''ایف بی'' پر شیئر کردیں، ہزاروں لائکس تو مل ہی جائیں گے۔

سر رہ گزر ایک صنم تراش کی دکان سے گزر ہوا تو وہ بھی امیر شہر کرکے کچھ بڑبڑا رہا تھا، ہم نے قریب ہوکر سننے کی کوشش کی تو کہہ رہا تھا کہ
امیر شہر کی مجھ سے فقط اتنی سی لڑائی ہے

میں وہ سر بناتا ہوں جنہیں جھکنا نہیں آتا

سراسر جھوٹ، ایک ذرا سی ٹھوکر پر اس کے بنائے ہوئے تمام مجسمے پاش پاش ہوجاتے ہیں اور دعوے دیکھیں، آسمان کو چھورہے ہیں۔ اب یہ شعر دیکھئے؛
امیر شہر لوٹ لیتا ہے غریبوں کو

کبھی بہ حیلہ مذہب، کبھی بنام وطن

امیر شہر اگر لوٹ لیتا ہے تو غریب شہر کو ہی کم از کم خیال کرنا چاہئے۔ اتنا معصوم غریب شہر کہ کوئی بھی اسے کسی بھی چیز کا بہانہ بنا کر لوٹ لے، واہ!؎ ایسی سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا!
نازاں امیر شہر کہ ہر سمت ہے سکوت

نالاں فقیر شہر کہ کب تک صدا نہ دے

اب خود بتائیں کہ اگر کسی کو کوئی مسئلہ درپیش ہے تو اس پر آواز اٹھانا بنتا ہے کہ نہیں، ''جب تک آپ کسی سے کچھ نہیں کہتے، تب تک کسی کو کیسے علم ہوسکتا ہے کہ آپ کے دل میں کیا ہے؟ ان کہے لفظوں کی زبان میں بات کرنے والے ہمیشہ مایوس ہوتے ہیں''۔ خیر یہ شعر ذرا ملاحظہ فرمائیں؛
اے امیر شہر ذرا نیچے اتر

روز لوگ یہاں غائب ہوتے ہیں

اب بھلا اس میں امیر شہر کیا کر سکتا ہے اگر کسی کو سلیمانی چادر میسر آ گئی ہوتو؟ یہاں تو آٹا، بجلی، پانی، گیس اور اب تو پٹرول بھی روز غائب ہوجاتا ہے اب ان سب کو ''ریکور'' کرنا کیا امیر شہر کی ذمہ داری ہے؟ چلیں چھوڑیے، آگے چلیں؛
امیر شہر کو خبر نہیں ہوتی

عید گھر گھر نہیں ہوتی

آپ خود اپنی پوری ایمانداری سے بتائیے کہ جس ملک میں خوشیوں کو اس قدر ''سلیبریٹ'' کیا جاتا ہو کہ تین تین عیدیں منائی جاتی ہوں کیا وہاں اس قسم کا گلہ زیب دیتا ہے؟ پھر امیر شہر سے سوال کرتے ہیں کہ
اے امیر شہر بتا تو سہی!

ہمارا جرم کیا ہے

ارے یہ جرم کیا کم ہے کہ ہر الزام امیر شہر کے سر۔ تم لوگ کیا زمین پر دوسروں کو ہی موردِ الزام ٹھہرانے کیلئے پیدا ہوئے ہو؟ تمھاری اپنی کوئی ذمہ داری نہیں؟
امیر شہر نے کیوں کردیا شہر بدر

جو نفرتوں میں محبت کا نام لیتا ہے

یعنی کہ صرف ایک ہی شخص پیدا ہوا ہے جس پر محبت کا اصل مفہوم نازل ہوا، اور ویسے بھی کیا خب کہ جس چیز کو یہ محبت سمجھ رہا ہے وہی اصل نفرت کا درس ہو۔ اب ایسے شخص کو سزا نہ دی جائے تو اور کیا کیا جائے؟
گندم امیر شہر کی ہوتی رہی خراب

بیٹی کسی مزدور کی فاقوں سے مرگئی

اب اگر امیر شہر نے اپنی حق حلال کی کمائی سے مال کمایا ہے تو اس میں عجب کیا ہے اور ویسے بھی یہی ہمارا مجموعی المیہ ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے سے اوپر دیکھتے ہیں، جو بچی کچھی چیزیں ہم کوڑے کے ڈرم کی خوراک بناتے ہیں وہ بھی تو کسی کے کام آسکتی ہیں مگر کیا کبھی کسی کو خیال آیا؟ جو قوم شادی بیاہ کے مواقع پر نصف کے قریب کھانا ضائع کر دیتی ہو، اسے کم از کم اس طرح کا گلہ کرنے کا کوئی حق نہیں۔
غریب شہر ترستا ہے اک نوالے کو

امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں

پھر وہی بات، امیر شہر کی دولت پر ہی تم لوگوں کی نظر کیوں ہے؟ اگر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اپنے پالتو جانوروں سے زیادہ کسی انسان کو کھانا کھلانا زیادہ ضروری ہے تو پھر میزان بھی یکساں ہونا چاہئے، اس اصول کے تحت مملکتِ خداداد پاکستان میں کسی بھی شخص کیلئے یہ غیر جائز ہے کہ وہ کوئی جانور، پرندہ وغیرہ پال سکے۔ یہاں تو کروڑوں لوگ بھوک کے مرض میں مبتلا ہیں، ہر سال ہزاروں افراد صرف قحط اور بھوک کے سبب جان دے دیتے ہیں، میں نے کہا کہ ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ ہم خود کو کسی اور معیار پر رکھتے ہیں اور اوروں کو کسی اور معیار پر۔
امیر شہر میں اک راز کہوں

تجھے افلاس نے گھیرا ہوا ہے

ابھی امیر شہر کی دولت کے تذکرے ہورہے تھے اور اب امیر شہر کو مفلس بنادیا گیا۔ اب افلاس کی تعریف پر مباحثے کیے جائیں گے اور ثابت کیا جائے گا کہ غربت روپے پیسے سے مشروط نہیں حالانکہ اگر اس طبقے کو دولت کی آفر ہو تو یہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس کے پیچھے بھاگیں گے مگر ابھی تو انگور کھٹے ہی ہیں۔
امیر شہر کے دست ہنر کا ذکر نہیں

تمام شہر جلا اُس کے گھر کا ذکر نہیں

انتہائے حسد کو بام عروج پر دیکھنا ہو تو اس شعر کو دیکھ لیجئے۔ مجھے حیرانی شاعر پر نہیں بلکہ اس طبقے پر ہے کہ ایک طرف یہ شعر سناتا ہے اور دوسری طرف لہک لہک کر یہ قصہ سناتا ہے کہ ایک بینک میں ڈکیتی ہوئی اور ڈاکو سب کچھ لوٹ کر لے گئے مگر ایک لاکر محفوظ رہا، اس کے مالک سے پوچھا گیا تو اس نے یہ وجہ بتائی کہ وہ زکوۃ باقاعدگی سے ادا کرتا ہے۔ یعنی ایک طرف اگر کوئی محفوظ رہتا ہے تو وہ اپنے اعمال صالح کی بدولت اور دوسری طرف سے انہیں سازش کی بو آتی ہے۔ آفرین! صد آفرین اس دوہرے معیار پر۔
امیر شہر کو تلوار کرنے والا ہوں

میں جی حضوری سے انکار کرنے والا ہوں

ضرور، ضرور۔ ہم تو روزِ اول سے ہی یہ کہہ رہے ہیں کہ بھائی آپ نے خود اپنے آپ کو مجبور کیا ہوا ہے وگرنہ آپ پر کسی مجبوری کی کوئی قید نہیں ہے۔ بصد شوق جی حضوری سے انکار کیجئے مگر آپ نہیں کریں گے، کبھی نہیں کریں گے کیونکہ آپ کے اپنے مفادات بھی اسی میں چھپے ہیں۔
روٹی امیر شہر کے کتوں نے خرید لی

فاقہ غریب شہر کے بچوں میں بٹ گیا

جس کے پاس قوت خرید ہے وہ خرید لیتا ہے، دوسرے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ یہاں تو جس کو جتنا موقع میسر آتا ہے وہ اتنا ہی بڑا نقب لگانے کی کوشش کرتا ہے، ابھی پٹرول بحران کے دوران کیا اس قوم کا اصل چہرہ سامنے نہیں آیا کہ ایک طبقہ اپنی ٹنکیاں فل کروانے میں مصروف تھا، ایک طبقہ گیلن میں پٹرول بھر بھر کر بلیک میں بیچ رہا تھا اور ایک طبقہ اپنی ضرورت کیلئے بھی مجبور و بے کس دکھائی دیتا تھا۔
دریدہ پیرہن کا خیال کیا آتا

امیر شہر کی اپنی ضرورتیں تھیں بہت

وہی بات، آپ خود اپنا محاسبہ کریں کہ جب آپ کے پاس پیسے آتے ہیں تو آپ کسے ترجیح دیتے ہیں؟ اپنی ضرورتوں کو کہ پاس پڑوس میں بسنے والے غرباء کو؟ حضور والا! معیار ایک ہونا چاہئے۔
ہر شخص اسی کی دہائی دیتا ہے

بڑا عجیب سا منظر دکھائی دیتا ہے

محل کے سامنے اک شور ہے قیامت کا

امیر شہر کو اونچا سنائی دیتا ہے

جی بالکل! یہی ہم پوچھ رہے ہیں کہ ہر شخص اسی کے نام کی دہائی کیوں دیتا ہے؟ آخر ایسی بھی کیا وجہ ہے؟ کیا واقعی امیر شہر کو اونچا سنائی دیتا ہے یا یہ ایک مشاہدہ ہے مگر ٹھہرئیے، یہ ایک شاعر صاحب دور کی کوڑی لائے ہیں کہ
امیر شہر بہرا تو نہیں مگر عجیب مرض میں مبتلا تھا

اسے صرف مصاحب خاص کی بات سنائی دیتی تھی

واہ! لیکن کم از کم یہ تو ہے کہ آپ نے یہ بات تسلیم کرلی ہے کہ امیر شہر سے زیادہ اس کا مصاحب خاص آپ کا قصور وار ہے۔
امیر شہر نے کاغذ کی کشتیاں دے کر

سمندروں کے سفر پر روانہ کیا ہمیں

عزیزم! اگر تمھیں ڈوبنے کا خطرہ ہے تو تم مت جاو۔ ایسی بھی کیا زبردستی کہ کسی کو بالجبر ایسے سفر پر روانہ کیا جائے جس میں اس کی جان چلی جائے۔
غریب شہر تو فاقوں سے مرگیا عارفؔ

امیر شہر نے ہیرے سے خود کشی کرلی

اپنا اپنا ذوق ہے کہ آپ مرنے کیلئے کیا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ اب کتنا بُرا لگتا اگر امیر شہر بھی فاقوں سے مرجاتا، کچھ تو اس کے سٹیٹس کا خیال کریں۔
امیر شہر کو ضد ہے یہ

غریب شہر کی کٹیا میں چاندنی نہ ہو

امیر شہر بھی اک ''انوکھا لاڈلا'' دکھائی دیتا ہے مگر تسلی رکھیں کہ یہ خواہش عملی طور پر ممکن نہیں۔
امیر شہر سے جب ہو گفتگو تیری

نظر میں شہر کے منظر وہی ملال کے رکھ

یعنی یہاں پر تسلیم کیا جارہا ہے کہ امیر شہر کے رعب میں بڑے بڑے اپنا مطمع نظر بھول جاتے ہیں۔ اب قصوروار کا از سر نو تعین آپ کی ذمہ داری ہے۔
ہمارے عہد میں شاعر کے نرخ کیوں نہ بڑھیں

امیر شہر کو لاحق ہوئی سخن فہمی

بہادر شاہ ظفر کے بعد سے ہم نے کوئی ایسا شاہ نہیں دیکھا جو سخن وروں کو نوازے اور ویسے بھی شاعر کے نرخ کہاں بڑھیں ہیں، کس دور میں بڑھیں ہیں؟ ہم نے تو اپنی زندگی میں کسی صاحب قلم کو آسودہ حال نہیں دیکھا۔ اگر کسی صاحب کو ایسے کسی امیر شہر کا پتہ ہو تو ہمیں بھی یاد رکھیئیگا۔
امیر شہر کا سکہ ہے کھوٹا

مگر اس شہر میں چلتا بہت ہے

لاو بھائی ، کوئی اور بھی الزام باقی بچا ہو تو وہ بھی لے آو، یہاں تو تھوک کے حساب سے الزامات ہی سامنے آرہے ہیں لیکن ہمیں بھی اس دکان کا پتہ بتا دیجئے جہاں کھوٹے سکے چلتے ہوں۔ کسی پر تنقید میں اتنا بھی نہ بڑھ جائیں کہ رات کو دن اور دن کو رات کہنے لگیں۔ یہاں صرف میدان سیاست میں ہی کھوٹے سکے چلتے ہیں اور خوب چلتے ہیں بلکہ ہماری سیاست کا تو معیار ہی یہ ہے کہ سکہ جتنا کھوٹا ہو گا، اتنا زیادہ چلے گا۔
امیر شہر تو نے تنگ کر دی ہے زمیںہم پر

مگر پھر بھی تو کہتا ہے کوئی قدغن نہیں ہم پر

ہائے، ہائے، بھائی جی، قطعاً آپ پر کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں ہے۔ یہ محض ایک ذہنی اختراع ہے۔ آپ کا حال بھی ہاتھی کے ان بچوں کی طرح ہے جنہیں بچپن میں ایک مضبوط کھونٹے سے باندھ دیا جاتا ہے اور وہ ہر قسم کی کوشش کرلیتے ہیں مگر خود کو اس کھونٹے سے آزاد نہیں کروا پاتے اور نتیجتاً وہ اپنی قید کو مقدر کا لکھا سمجھ لیتے ہیں اور غلامی کو ذہنی طور پر قبول کرلیتے ہیں حالانکہ چند سال بعد جب وہ گوشت کا پہاڑ بن جاتے ہیں تب وہ ذرا سے جھٹکے سے اس کھونٹے سے آزاد ہوسکتے ہیں مگر وہ خود کو چھڑانے کی کوشش ہی نہیں کرتے کیونکہ وہ ذہنی غلام بن چکے ہوتے ہیں، ہمارے معاشرے کی بھی یہی کہانی ہے۔

تو یہ تھی امیر شہر کی کتھا۔ اب امیر شہر کو بھی اِدھر اُدھر بھٹکنا نہیں پڑے گا کہ لوگ اس سے کیا کیا امیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں اور غریب شہر کا سارا مدعا اور ان کا اپنے تئیں جواب بھی ہم نے ان سطور میں کھول کر بیان کر دیاہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں