چنگ چی ۔۔۔۔۔ رحمت یا زحمت

ماضی میں بس کے اندر جیب کٹنے اور دم گھٹنے کا خطرہ محسوس ہوتا تو چلتی بس میں ہی چھت پر سفر کا خطرہ مول لینا پڑتا تھا۔


محمد نعیم February 05, 2015
لیکن چنگ چی کی بدولت اب نہ صرف وقت پر سواری بھی مل جاتی ہے بلکہ باعزت طور پر بیٹھنے کے لیے سیٹ بھی مل جاتی ہے۔ کیا ہوا جو اس کے لیے چند روپے اضافی دینے پڑتے ہیں! فوٹو: فائل

موجودہ کراچی کی معروف عوامی سواری چنگ چی سے استفادہ کرنے کا سلسلہ قریباً دو برس پہلے شروع ہوا۔ شروع شروع میں تو اس کا نام بھی زبان پر مشکل سے آتا تھا مگر اب یہ میری اور میرے جیسے ہزاروں افراد اور اگر لاکھوں کہا جائے تو بھی غلط نہ ہوگا، کی ضرورت بن چکا ہے۔ چنگ چی اب اتنا معروف نام ہو چکا ہے کہ کسی کو یہ بتانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ موٹرسائیکل کا پچھلا پہیہ نکال کر اس کے ساتھ آگے پیچھے لگی 6 سیٹوں کو جوڑنے سے بننے والے مرکب کا نام چنگ چی ہے۔

شروع شروع میں چنگ چی رکشہ ایسے رستوں پر چلے جہاں عموماً بسیں نہیں جاتی تھیں۔ مگر اب تقریباً ہر اسٹاپ, ہر سڑک پر موجود ہیں۔ رفتہ رفتہ بسیں ناپید اور چنگ چی یاجوج ماجوج کی طرح ہر جگہ پھیلتے جا رہے ہیں۔ اب چنگ چی کی ایک تھوڑی سی جدید شکل بھی سڑکوں پر کثرت سے نظر آ رہی ہے اور وہ ہیں اسی نوعیت کے سی این جی رکشے۔ مگر حکومت اور ایسے صاحب حیثیت افراد جو اپنی گاڑی رکھتے ہیں ان کے لیے چنگ چی رکشوں کی بہتات باعث تشویش ہے۔ اُن کی بھی اپنی وجوہات ہیں۔ جب ایسے بڑے لوگوں سے بات کی جائے تو وہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ ان چنگ چیوں نے سڑک پر ٹریفک کا نظام درہم برہم کردیا ہے۔ چونکہ اکثر چلانے والے تجربے سے عاری ہیں تو اِن کو پتہ ہی نہیں کہ یہ چلانی کیسی ہے۔ بس جب اور جیسے دل کرتا ہے دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں کو موڑ لیتے ہیں۔ یہ تک نہیں دیکھتے کہ پیچھے کوئی ہے بھی یہ نہیں۔

لیکن اگر میں اپنے آپ کو دیکھوں تو یہ ہمارے لیے ایک بڑی نعمت سے کم نہیں۔ مجھے اس کے باعث ملنے والے بے شمار فائدوں میں سے چند ایک کا ذکر کیے دیتا ہوں۔ کراچی کی سڑکوں پر چنگ چی آنے سے قبل لوگ طویل ٹائم تک مختلف اسٹاپس پر کھڑے رہتے تھے۔ پھر جیسے ہی کوئی پہلی ''فُل لوڈڈ'' بس آتی یہ اس پر چڑھنے کی جدوجہد میں لگ جاتے۔ ایسے میں جس کو دروازے کے آخری حصے پر ایک پاؤں ٹِکا کر لٹک جانے کا بھی موقع مل جاتا وہ اپنے آپ کو خوش نصیب لوگوں میں شمار کرتا۔ چنگ چی آنے سے قبل ہماری بھی کچھ ایسی ہی حالت ہوتی تھی۔ دوسروں سے پہلے بس پر چڑھنے کے لیے دھکے کھانا اور دینا۔ بس میں ایک ہاتھ سے ڈنڈا پکڑنے کے بعد دوسرا ہاتھ موبائل اور پرس کی حفاظت کے لیے اپنی جیب پر رکھے رکھنا۔

اگر بس کے اندر جیب کے کٹنے اور دم گھٹنے کا خطرہ محسوس ہوتا تو چلتی بس میں ہی چھت پر سفر کا خطرہ مول لینا۔ لیکن چنگ چی کی بدولت اب وقت پر سواری بھی مل جاتی ہے اور بس میں کنڈیکٹر کی آواز پر دائیں مڑ، بائیں مڑ اور آگے چل کی پریڈ سے بھی جان چھوٹ گئی ہے۔ باعزت طور پر بیٹھنے کے لیے سیٹ بھی مل جاتی ہے۔ کیا ہوا جو اس کے لیے چند روپے اضافی دینے پڑتے ہیں!

ایک اخباری رپورٹ کے مطابق سال 2014ء میں چنگ چی اور سی این جی کی تعداد میں ایک لاکھ تک اضافہ ہوا ہے۔ شہر کراچی میں 250 روٹس پر اس وقت 65 ہزار سے زائد رکشے چل رہے ہیں۔ بشمول سندھ، پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی چنگ چی رکشوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ پاکستان کراچی سینٹر کی جانب سے پیش کی گئی ایک سروے رپورٹ کے مطابق کراچی کے 65 فیصد افراد چنگ چی اور سی این جی رکشوں میں سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

میں تو اسی لیے چنگ چی پر سفر کرتا ہوں کیوں کہ میرے پاس ذاتی سواری نہیں مگر میرے ایک پڑوسی جو ذاتی گھر کے علاوہ دو گاڑیوں کے بھی مالک ہیں۔ وہ اپنے گھر سے آفس کا سفر جو کئی کلو میٹر طویل ہے روزانہ لوکل ٹرانسپورٹ پر کرتے ہیں۔ جس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں اس طرح وہ اپنی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ گاڑی کی ایندھن کی مد میں خرچ ہونے سے بچا لیتے ہیں۔ ان کی اس بات پر میں نے سوچا کہ روزانہ کراچی کی سڑکوں پر آنے والی ہزاروں گاڑیوں میں ایک ایک فرد سفر کررہا ہوتا ہے جس کے باعث ٹریفک جام، فضائی آلودگی اوراس جیسے دیگر مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ سڑکوں کی وسعت تو اتنی ہی ہے لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ اس پرگاڑیوں کی تعداد میں بیسیوں کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔

لاہور میں میٹرو بس سروس سے روزانہ ہزاروں افراد کو فائدہ اٹھاتے دیکھا تو سوچا کہ اگر وفاقی و صوبائی حکومت شہریوں کو آرام دہ اور محفوظ سفر کی ایسی سہولیات دینا شروع کردے تو بہت سے مسائل خود بخود ختم ہو جائیں۔ لیکن ایوانوں میں بیٹھنے والے کبھی ایک عام شہری کی مشکلات دیکھیں تو اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ ٹرام، سرکلر ریلوے یہ تو وہ سفری ذرائع ہیں جو ہم نے صرف کراچی کی تاریخ میں پڑھے ہیں۔ اب جلاؤ گھیراؤ کے سبب کراچی کی سڑکوں سے بسیں، منی بسیں اور مزدے بھی غائب ہوتے جا رہے ہیں۔

ماحول دوست گرین بسوں کا تو ذکر ہی نہیں کریں گے۔ سرکاری خزانہ اتنا بڑا ہے کہ اس میں کئی ٹرینیں اور پی آئی اے کے جہاز غائب ہوگئے ہیں۔ چند بسوں کو کون تلاش کرے گا؟ ہاں کراچی کی مختلف شاہراہوں پر بنے ہوئے گرین بسوں کے بوتھوں سے اب بھی ہیرونچیوں اور بھکاری استفادہ کررہے ہیں۔ ویسے کراچی میں آ ئے کسی بھی غیرملکی کے سامنے ہم چنگ چی اور سی این جی رکشوں کو رکھتے ہوئے یہ بات بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے معاملے میں ہم مائیکرو ٹیکنالوجی استعمال کررہے ہیں۔ اگر کسی کو یہ بات سمجھ نہ آئے تو چند سال قبل تک کراچی میں عوامی سفری ذرائع کی کچھ تصاویر رکھ دیں وہ ضرور سمجھ جائے گا کہ واقعی یہ مائئیکرو ٹیکنالوجی ہے۔

اب دیکھتے ہیں کہ سندھ حکومت چنگ چی جیسی عوامی سواری کو عذاب کے بجائے سہولت بننے کے لیے کب تک اس کو قانونی حیثیت دینے میں کامیاب ہوتی ہے۔ اگر چنگ چی کے ڈیزائن، ان کے سڑکوں پر چلنے کے قوانین اور ڈرائیورز کے لیے شرائط طے ہو جائیں تو غریب آدمی بسوں کے دروازوں پر لٹکنے، چھتوں پر چڑھنے، عورتیں، بچے اور بوڑھے بس اسٹاپوں پر دھکے کھانے کی اذیت سے بچ جائیں۔ باقی انڈر گراؤنڈ بلٹ ٹرینیں، جدید ٹرامز، بڑی بسوں جیسی سفری سہولیات سے استفادہ تو فی الحال ہم خوابوں میں کرسکتے ہیں یا شاید یہ منصوبے حکومتی فائلوں میں ملیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں