حیاتیاتی جنگ
برطانوی فوج جنگ عظیم دوئم کے 77 ویں بریگیڈ کو دوبارہ قابل عمل بناتے ہوئے ’’فیس بک جنگجوؤں‘‘ کے نام سے استعمال کرے گی
بریگیڈئیر اورڈے وِِنگیٹ (جو بعد میں میجر جنرل بن گئے) 1942ء میں جھانسی کے مقام پر برٹش انڈیا کے 77 ویں بریگیڈ کی کمان کر رہے تھے جو دشمن کی صفوں کے اندر دور تک داخل ہو کر کارروائیاں کرنے والا گروپ تھا اور برما میں جاپانی فوج کے عقب میں گوریلا کارروائیاں کر رہا تھا۔ لیکن اس جنگ میں اس کی ایک تہائی افرادی قوت ضایع ہو گئی اور بہت سارا فوجی سازو سامان بھی تباہ ہوا۔ مشہور مصنف جون ماسٹرز جنہوں نے کہ بھوانی جنکشن' بگلز اینڈ ٹائیگرز' روڈ پاسٹ مینڈیلے جیسی مشہور کتابیں لکھیں وہ بھی بریگیڈ میجر کے طور پر تیسرے بریگیڈ کے ساتھ منسلک تھے۔
ہمارے اپنے اسپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) کی بنیاد رکھنے والے اساطیری میجر جنرل ابوبکر عثمان مٹھا نے اپنی تربیت جاپانی افواج کی صفوں کے پیچھے حاصل کی جب کہ اس وقت برما کی جنگ جاری تھی۔ اسی آپریشن سے ملتا جلتا آپریشن جبرالٹر 1965ء میں کیا گیا جس کی انھوں نے سختی سے مخالفت کی تھی' اس زمانے میں ایک اور مشہور کمانڈر ایس ایس جی (جو کہ فوجی حکمت عملی تیار کرنے میں اپنے وقت سے بہت آگے تھے) وہ تھے کرنل ایس جی مہدی (90 سال کی عمر میں یہ بہادر سپاہی آج اسلام آباد میں کوما میں پڑے ہیں) انھوں نے اس منصوبے کو بہت شاندار قرار دیا لیکن اس کی مفصل منصوبہ بندی کے بغیر اس کو نافذ العمل کرنے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں یہ ناکام ہو گیا۔ ہمارے دیگر غیر معمولی فوجیوں میں لیفٹیننٹ جنرل لہراسب خان شامل تھے جنہوں نے نوجوان رضاکار کے طور پر آپریشن جبرالٹر میں شرکت کی تھی اور وہ اس کے گواہ ہیں کہ کرنل مہدی نے اس کی ناکامی کے بارے میں پہلے ہی پیش گوئی کر دی تھی۔
برطانوی فوج جنگ عظیم دوئم کے 77 ویں بریگیڈ کو دوبارہ قابل عمل بناتے ہوئے ''فیس بک جنگجوؤں'' کے نام سے استعمال کرے گی۔ جس کو جدید جنگی حکمت عملی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اس بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ بریگیڈ کسی قسم کے تشدد کے بغیر اپنے مقاصد حاصل کر سکے گا اور اس میں ایک ایسی ٹیکنیک استعمال کی جائے گی جسے ''ریفلکس کنٹرول'' کہا جاتا ہے۔ وہ سوشل میڈیا کی اصطلاحوں یعنی ''ٹوئیٹر'' اور ''فیس بک'' کو ہتھیاروں کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
اس کے ذریعے ڈس انفارمیشن پھیلائی جائے گی اور جھوٹ کو سچ کے پرچم کے تحت آشکار کیا جائے گا۔ ان کا مقصد لوگوں کو بے وقوف بنانا ہو گا تا کہ انھیں انٹیلی جنس کی ان اطلاعات پر یقین آ سکے جو اس مقصد کے لیے اکٹھی کی جائیں گی۔ کریمیلن (روس) سائبر انفارمیشن کا بہت زیادہ استعمال کر رہا ہے جو کہ خاصا متنازعہ بھی ہے۔ جسے اصطلاح میں روس کا ''چھوٹا سبز آدمی'' کہا جاتا ہے۔ اس کا استعمال کریمیا کی طرف سے یوکرائن میں کیا جا رہا ہے۔
برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کے مطابق جدید میدان جنگ میں ایسے طریقے استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو کہ ضروری نہیں کہ پُرتشدد ہوں۔ افغانستان اور عراق کی جنگ سے حاصل ہونے والے نتائج کو جدید تنازعات کے حل میں استعمال کیا جائے گا۔ برطانیہ کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف سر نکولس ہیوٹن کا کہنا ہے کہ 77 ویں بریگیڈ کی تشکیل نو سے جنگی کارروائیوں اور تربیت کی روائتی شکل تبدیل ہو جائے گی۔ امید کی جا سکتی ہے کہ ہماری عسکری منصوبہ بندی کرنے والے جنگ عظیم دوئم کے مائنڈ سیٹ کو ترک کر سکیں گے۔ وکی پیڈیا انسائیکلو پیڈیا کا کہنا ہے کہ ہائیبرڈ وارفیئر (حیاتیاتی جنگ) ایک نئی حکمت عملی ہے۔
جس سے ایٹمی' بائیولاجیکل اور کیمیاوی ہتھیاروں کا انفارمیشن وارفیئر کے ذریعے مقابلہ کیا جائے گا۔ امریکی میرین کور کے لیفٹیننٹ کرنل بل نیمتھ کہتے ہیں کہ ہائی برڈ وارفیئر ہمعصر دور کی گوریلا جنگ ہے۔ جس میں جدید ٹیکنالوجی اور حرکت پذیری کے جدید طریقے استعمال کیے جائینگے۔ مثال کے طور پر نمبر۔1 روایتی طریقہ -2 بے قاعدہ طریقہ -3 تباہ کن دہشت گردی -4 ایسی جدید ٹیکنالوجی جس سے دشمن کی فوجی بالادستی کو زیر کیا جا سکے۔ جن کو کہ تین جنگی میدانوں میں استعمال کیا جائے گا۔ امریکی فوج کے کرنل جیک میک کوئین کے مطابق-1 متنازعہ زون کی آبادی میں -2 ہوم فرنٹ کی آبادی میں -3 بین الاقوامی برادری میں جس کے لیے کہ دشمن کو بھی استعمال کرنا پڑ سکتا ہے۔
فرینک ہوف مین کے مطابق متنازعہ ہتھیاروں کا بہت پیچیدہ اتصال اور ارتباط۔ ہائیبرڈ وارفیئر کے ذریعے دہشت گردی کا زیادہ بہتر مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔بھارت نے 1998ء میں راجستھان صحرا کے علاقے پوکھران میں آپریشن شکتی کے نام سے جو پے در پے ایٹمی تجربات کیے تھے تو بی جے پی کی حکومت نے پاکستان کو نصیحت کی تھی کہ ہمیں ایٹمی صلاحیت کے بارے میں نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے۔ گویا بھارت اس حوالے سے جنوبی ایشیا میں اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے جب کہ وزیراعظم نواز شریف نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں چاغی کے مقام پر ایٹمی دھماکے کر کے حساب برابر کر دیا تھا۔
جس کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں امن قائم ہے اور ایٹمی مزاحمت (ڈیٹرنٹ) موجود ہے۔ بھارت نے 2008ء میں ممبئی حملوں پر پاکستان کی سرکاری ایجنسیوں پر غلط الزام تراشی کی۔ جس کے نتیجے میں اعتماد سازی کے لیے ہونے والے مذاکرات رک گئے لیکن جنگ صرف اس وجہ سے نہ ہو سکی کیونکہ ہمارے پاس بھی ایٹمی مزاحمت موجود تھی۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جو کہ افغان طالبان کے برعکس پاکستان دشمن ہے اور یہ یقیناً پاکستانی نہیں۔ اس کو بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' افغان انٹیلی جنس ایجنسی کے ساتھ مل کر کنٹرول کرتی ہے۔
انٹرنیشنل نیو یارک ٹائمز نے افغان انٹیلی جنس چیف نبیل کا حوالہ دیتے ہوئے کہ ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا چانکیا کوٹلیا کے فلسفے کے عین مطابق ہے۔ واضح رہے کہ نبیل جس نے کہ افغان مہاجر کے طور پر پاکستان میں تعلیم حاصل کی اس نے یہ بات ٹی ٹی پی کے سربراہ حکیم اللہ آفریدی کے نائب لطیف اللہ آفریدی کے حوالے سے کہی کہ جسے جب امریکا کے خصوصی فوجی دستوں نے گرفتار کیا تو وہ کرزئی سے ملاقات کے لیے کابل جا رہا تھا۔ اخبار فنانشل ٹائمز کے مطابق مستقبل میں ہونے والی جنگ کے بارے میں یہ ضروری نہیں کہ وہ باقاعدہ اعلان کے ساتھ شروع ہو بلکہ اسے جارحیت اور تشدد کے طور پر شروع کر کے پھیلایا جا سکتا ہے۔
''اسمارٹ پاور'' سخت اور نرم طاقت کا مجموعہ ہوتی ہے اور بھارت اسی اسمارٹ پاور کو استعمال کر رہا ہے اور ہمارے خلاف ہائیبرڈ وارفیئر شروع کیے ہوئے ہے۔ مودی کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول (جو کہ بلاشبہ ایک سرکاری کردار ہے) وہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کو ہوا دے رہا ہے۔ ہم پاکستانی یہ نہیں دیکھ سکتے کہ ہم پہلے ہی محاصرے میں آ چکے ہیں۔ مودی کے کارندے نہ صرف دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں بلکہ ہمارے میڈیا کو بھی گمراہ کر رہے ہیں اور کارپوریٹ سیکٹر کی طرف سے اربوں ڈالر کی امداد حاصل کر رہے ہیں۔
یہ بات حیرت انگیز ہے کہ نواز شریف حکومت ان حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے آخر کس بنا پر بھارت کے ساتھ کاروبار کی توسیع کی خواہش رکھتی ہے۔ یہ چیز ہمارے قومی مفاد کے خلاف ہو گی۔ حالانکہ سابق صدر زرداری کہہ چکے ہیں کہ پاکستان ایٹمی جنگ میں پہل نہیں کرے گا۔ اگرچہ کوئی درست سوچ رکھنے والا شخص بھارت کے ساتھ جنگ نہیں چاہے گا لیکن ہمارے خلاف جو بغیر اعلان کیے جنگ شروع کی جا چکی ہے اس کا تو ہمیں موثر طریقے سے جواب دینا ہو گا۔ اس کے لیے لازم ہے کہ میڈیا بھی زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ کرے اور سب سے بڑھ کر ہماری سیاسی قیادت کو زبانی جمع خرچ سے بڑھ کر حفاظتی اقدامات کرنے ہوں گے۔