نئی سیاسی جماعت کی ضرورت
اول، کچھ مصلحین نظام حکمرانی میں موجود خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مختلف اصلاحات پیش کرتے ہیں
پاکستان کے اہل دانش اور متوشش شہریوں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ ملک میں جاری گورننس کا موجودہ نظام مکمل طورپر ناکام ہوچکا ہے جس کا جاری رہنا اب مشکل نظر آرہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس نظام کی تبدیلی کس طرح ممکن ہو۔ اس سلسلے میں معروف تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ دنیا کی معلوم تاریخ میں نظام حکمرانی میں پیدا ہونے والی خرابیوں اورکمزوریوں کو تبدیل کرنے کے دو طریقے مروج چلے آ رہے ہیں ۔
اول، کچھ مصلحین نظام حکمرانی میں موجود خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مختلف اصلاحات پیش کرتے ہیں، جن پر عمل درآمد بہتری کا سبب بنتا ہے ۔ دوئم، جب مقتدر اشرافیہ اصلاحات پر آمادہ نہ ہو اور معاشرے میں نظام حکمرانی کے لیے ناپسندیدگی اپنے عروج پر پہنچ جائے تو انقلابات رونما ہوتے ہیں۔ انقلابات عموماً خونریز ہوتے ہیں، کیونکہ ہر متحرک گروہ اپنے نظریات کو بزورطاقت رائج کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یوں ایک جابرانہ نظام کی جگہ دوسرا آمرانہ نظام ریاست پر مسلط ہوجاتا ہے۔
جس کی واضح مثال انقلاب فرانس کی ہے۔ جس کے نتیجے میں جہاں آزادی، مساوات اور اخوت جیسے اعلیٰ تصورات متعارف ہوئے، وہیںاہل فرانس کو طویل عرصہ تک نپولین کی نئی استعماری حکومت کو بھی برداشت کرنا پڑا۔ یہی سبب ہے کہ جدید دنیا میں انقلابات کے لیے گنجائش ختم ہوچکی ہے۔اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں گورننس کا موجودہ ڈھانچہ فرسودگی کی آخری حدود کو چھو رہا ہے، جس کا تبدیل ہونا ناگزیر ہوچکا ہے ، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خراب یا کمزور حکمرانی کے طویل عرصہ تک جاری رہنے کی صورت میں پورا نظام (یا طرز) حکمرانی اپنے اندر بہت سی خوبیاں رکھنے کے باوجود خراب گورننس کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔
حالیہ تاریخ میں اس کی واضح مثال سوویت یونین کی ہے،جہاں فرسودہ طرز حکمرانی سے اکتائے ہوئے لوگوں نے اس نظام (کمیونزم) کو بھی خیرآباد کہہ دیا، جس کی وجہ سے 70برسوں کے دوران انھیں بے پناہ مراعات اور فوائد حاصل ہوئے تھے۔ لہٰذا اس خدشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بری حکمرانی سے تنگ عوام جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی سے بددل ہوکر کہیں ایک بار پھر آمریت کی گود میں پناہ تلاش کرنے کی خواہش نہ کرنے لگیں۔ اس لیے کار از رفتہ گورننس کے نظام سے چھٹکارا پانے کے لیے غوروخوض وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
ملک میں تبدیلی کے طریقہ کار کے بارے میں معاشرے کے مختلف حلقوں کی جانب سے کافی عرصہ سے مختلف آراء سامنے آرہی ہیں۔سول سوسائٹی کے ایک بہت بڑے حلقے کی رائے میں جمہوریت کے تسلسل کی خاطرگورننس کے موجودہ ڈھانچے کو کچھ عرصہ برداشت کیا جائے اور پارلیمان کے ذریعہ اصلاحات لانے کی کوشش کی جائے۔ اس حلقے کی رائے میں ماورائے آئین کوئی بھی اقدام ملک کی سلامتی اور بقاء کو داؤ پر لگانے کا سبب بن سکتا ہے۔ جب کہ ایک دوسرا حلقہ پارلیمانی کی جگہ صدارتی نظام رائج کرنے کے حق میں دلائل دے رہا ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹرعطاالرحمان سمیت کئی اہم دانشور اور اہل قلم کا کہنا ہے کہ پارلیمانی نظام پاکستانی معاشرے کی نفسیات سے مطابقت نہیں رکھتا ،اس لیے اس کی جگہ ملک میں صدارتی نظام متعارف کیا جاناچاہیے۔
جب کہ جنرل(ر) حمید گل کی رائے ہے کہ موجودہ آئین میں چونکہ ان گنت تضادات پائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ گورننس مختلف نوعیت کے مسائل سے دوچارہوچکی ہے،اس لیے اسے منسوخ کر کے نیا آئین تشکیل دیا جانا چاہیے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کی رائے میں تین برس کے لیے ٹیکنوکریٹ حکومت قائم کی جائے، جو بلاامتیاز احتساب کر کے ان عناصر کے اقتدار میں آنے کا راستہ روکے،جوکرپشن، بدعنوانی اور نااہلی کا باعث ہیں۔ وہ پارلیمانی جمہوریت کے تسلسل کے اسی صورت میں حق میں ہیں جب صدر کو58(2)Bکے تحت اختیارات حاصل ہوں۔
ان آراء کا مروجہ سیاسی اصولوں اور تاریخ کے تناظر میں جائزہ لینا ضروری ہے۔ پہلی بات یہ کہ ملک کی موجودہ صورتحال اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ موجودہ آئین کو بیک جنبش قلم منسوخ کر کے نیا آئین تشکیل دیا جاسکے ۔جو اتفاق رائے1973ء میں پیداہوگیا تھا ،اس کا پیدا ہونااب ممکن نہیں ہے۔ دوسرے دنیا کے مختلف معاشروں میں آئین سازی باربار نہیں ہوتی، بلکہ اس میں موجود خامیوں، نقائص اورکمزوریوں کو وقتاً فوقتاً کی جانے والی ترامیم کے ذریعے دور کیا جاتا ہے۔ اسی طرح آئین کی ہئیت میں تبدیلی یعنی ایک مروجہ نظام سے دوسرے کی طرف مراجعت بھی پارلیمان کے عمل(Act of parliament) کے ذریعے ممکن ہے۔
لہٰذا موجودہ آئین کی تنسیخ اور اس کی جگہ نئے آئین کی تشکیل ایک ایسا بھیانک ایڈونچر ہوگا ،جو ریاستی ڈھانچہ کی شکست وریخت کا سبب بن سکتا ہے۔ جہاں تک پرویز مشرف کے مشورے کا تعلق ہے، تو یہ بھی ناقابل عمل مشورہ ہے۔ ٹیکنوکریٹ حکومت کون قائم کرے گا؟کس اختیار اور کس آئینی شق کے تحت قائم کی جائے گی؟ چونکہ یہ عمل ماورائے آئین عمل ہوگا،اس لیے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں قومی سلامتی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس کے علاوہ 58(2)B جیسی شقوں کی پارلیمانی جمہوریت میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔لہٰذا اس قسم کی آراء پیش کرنے سے پہلے ان کے مضمرات پر غور کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
تاریخ و سیاسیات کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ کسی بھی ریاست میںگورننس کے نظام میں مثبت تبدیلیوں کی راہ میں تین بڑی رکاوٹیں ہوتی ہیں۔اول، ریاستی اسٹبلشمنٹ (جو سول اور ملٹری بیوروکریسی پر مشتمل ہوتی ہے)، اپنے مخصوص ادارہ جاتی مفاد کی خاطرجاریStatus Quoکو برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ دوئم، وہ سیاسی جماعتیںجو فوقتاً فوقتاً اقتدار کا حصہ بنتی ہیں، ہر اس تبدیلی کی راہ میں روڑے اٹکاتی ہیں، جس کے نتیجے میں ان کے اقتدار میں آنے کے عمل میں رکاوٹیں پیدا ہوں۔ سوئم، وہ مراعات یافتہ طبقات جو جاری نظام سے مستفیض ہو رہے ہوتے ہیں اور جن کے مفادات نظام میں پائے جانے والے نقائص اورکمزوریوں سے مشروط ہوتے ہیں،Status Quoکے جاری رکھنے پر اصرار کرتے ہیںاور ہر اس تبدیلی کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کے مفادات مجروح ہوں۔
لہٰذا ایک ایسی صورت میں جب ریاست کے اہم شراکت دار اور مروجہ نظام کی بہتری کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہوں، تو معاملات کی درستی ایک پیچیدہ مسئلہ بن جاتی ہے۔ ایسی صورت میں جب اصلاحات کے لیے گنجائش کم سے کم ہوجائے،تو پھراصلاحات کے ذریعہ نظام کا بچانا مشکل ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ بھی طے ہے کہ نظام کا لپیٹا جانا بھی مسئلہ کا حل نہیں ہے،کیونکہ اس کے نتیجے میں ان گنت دیگر مسائل جنم لیتے ہیں ، جو گورننس کو مزید الجھا دیتے ہیں۔ لہٰذا اس سے پہلے کہ صورتحال اس حد تک بگڑجائے کہ پورے نظام کو لپیٹنے کے علاوہ کوئی چارہ باقی نہ رہے، مختلف متبادل آپشنز پر غور کیا جانا ضروری ہے۔
پہلا آپشن تو یہ ہے کہ پارلیمان عوامی جذبات کا ادراک کرتے ہوئے، فوری طور پر ایسی آئینی ترامیم لائے جن کے نتیجے میں موجودہ خرابیوں اور خامیوں سے نکلنے کی کوئی سبیل ہوسکے۔اس سلسلے میں دو اقدامات انتہائی اہم ہیں۔ اول،انتخابی نظام میں کلیدی نوعیت کی تبدیلیاں لائی جائیں اور الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی جائے، تاکہ شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کی راہ ہموار ہوسکے۔ دوئم، عدالتی نظام کی فعالیت بڑھائی جائے تاکہ فوری فیصلے ہو سکیں،گورننس میں پائی جانے والی موجودہ خرابیوںاور نقائص کو دور کرنے میں بہت حد تک معاون ثابت ہوسکتی ہے۔اس کے علاوہ ایک راستہ یہ بھی ہے کہ ایک نئی سیاسی جماعت وجود میں آئے، جسے عوام کے مسائل کا واضح ادراک ہو، جو عالمی معاملات و مسائل کی نزاکتوں کوسمجھتی ہو اور سب سے بڑھ کر سیاسی و انتظامی معاملات چلانے کی اہلیت رکھتی ہو، پاکستان کو گورننس کے موجودہ بحران سے نکال سکتی ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں مختلف مواقعے پر ایسی سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں، جنھیں عوام نے بے پناہ قبولیت بخشی ۔مگر وہ کچھ اپنی سوچ، کچھ اپنی ہئیت اور کچھ حالات کے جبر سے مجبور ہوکر ان اہداف سے ہٹتی چلی گئیں،جو ان کے قیام کا بنیادی سبب تھے۔سب سے پہلی مثال پیپلز پارٹی کی ہے، جو1967ء میںقائم ہوئی۔ جس کا منشوراور پارٹی آئین عوام کی خواہشات اور امنگوں کا آئینہ دار تھا۔ لیکن 1970ء کے انتخابات کے بعد بالعموم اور 1988ء کے بعد سے بالخصوص یہ جماعت اپنے بنیادی اہداف سے ہٹتی چلی گئی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کا اعتماد اس جماعت پر سے اٹھتا چلا گیا۔آج یہ سندھ تک محدود ہوچکی ہے۔
دوسری مثال تحریک انصاف کی ہے۔ جس نے دسمبر2011ء کے بعد نوجوان طبقات میں تیزی کے ساتھ قبولیت حاصل کی۔ اس وقت بھی یہ جماعت نوجوانوں کی مقبول ترین جماعت ہے۔ لیکن مراعات یافتہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے Electablesکی شمولیت اور قومی، علاقائی اور عالمی صورتحال کے بارے میں غیر واضح اور مبہم تصورات اور فکری کنفیوژن پر مبنی سیاسی سوچ کے باعث اس سے کسی مثبت اور بہترتبدیلی کی امید وقت گذرنے کے ساتھ کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔
لہٰذااسے میری بلند آہنگ سوچ(Loud Thinking) سمجھیے یاکئی دہائیوں پر مشتمل تجربات کا نچوڑ، میں ذاتی طورپر موجودہ نظام کے لپیٹے جانے کا شدید مخالف ہوں۔ بلکہ میری خواہش ہے کہ ایک ایسی جماعت تشکیل پائے ،جو عوام کی حقیقی نمایندہ ہو۔ جو سرد جنگ کے بعد پیدا ہونے والے قومی،علاقائی اور عالمی منظر نامے کی نزاکتوں کو سمجھنے کی اہلیت اور اسی مناسبت سے پالیسی سازی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
جو حقیقی معنی میں ہمہ دینیت پر یقین رکھتی ہو اور جس میں موروثی قیادت کے بجائے باصلاحیت، اہل اور دیانتدار اراکین کو آگے بڑھنے اور جماعت کی قیادت کرنے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو۔ ایک ایسی ہی جماعت اگر پاکستان کے عوام نے اسے اپنی قبولیت سے نوازا تو ملک کو موجودہ طرز حکمرانی میں رہتے ہوئے گورننس کے حالیہ بحران سے نکالنے کا سبب بن سکتی ہے۔