ایک اچھا دن کیوں نہیں گزار سکتے
ایک پورا دن موسم کی خوبصورتی کے ساتھ وقت کی دہلیز پر دستک دیتا ہے۔
ایک پورا دن موسم کی خوبصورتی کے ساتھ وقت کی دہلیز پر دستک دیتا ہے۔ ہماری ترجیحات و مصروفیت یہ آواز سن نہیں پاتی۔ صبح کا وقت خوبصورت ہوتا ہے۔ پو پھٹنے سے پہلے کا منظر جب ہر لمحہ سرمئی رنگ میں لپٹا ہوتا ہے، سکوت و آگہی کو بانٹتا ہے۔
لمحے وقت پر منکشف ہونے لگتے ہیں۔ پھر یکایک آسمان پر سورج کی لکیر نمودار ہوتی ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ کانوں میں رس گھولنے لگتی ہے۔ ایک اچھا اور خوشگوار احساس فضا میں تیرتا ہے۔ ایک اچھے دن کو محسوس کرنا اور اس صبح کے آغاز کا سواگت دل سے کرنے سے پورا دن اچھا گزرتا ہے۔ جس چیز کو ہم دل کی اچھائی کے احساس سے قبول کرتے ہیں، وہ بدلے میں ویسی ہی مثبت روشنی لوٹا دیتی ہے۔ مگر بہت کم لوگ صبح کے پرنور منظر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
رات دیر تک کمپیوٹر، موبائل اور اسمارٹ فون استعمال کیے جاتے ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق لیپ ٹاپ، اسمارٹ فون اور ٹیبلٹ کی روشن لہریں اعصابی نظام کے لیے انتہائی مضر ہیں۔ یہ نیند سے محرومی کا باعث بنتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ صبح دیر سے اٹھتے ہیں اس کے بعد اخبار اور نیوز دیکھنے لگتے ہیں۔ متضاد خبریں الگ احساس کو بوجھل کر دیتی ہیں۔ دن کا آغاز ایک مسکراہٹ اور خوشی کے جذبے سے نہ ہو تو پورا دن بے زاری کی نظر ہو جاتا ہے۔
ایک اچھا دن گزارنے کے لیے ذہن میں اچھی سوچ کا ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ ہم خیال و عمل کے ذریعے اپنی زندگی کی حقیقت کا انتخاب کرتے ہیں۔ مثبت سوچ کا انتخاب بہتر رویوں کو تشکیل دیتا ہے۔ نتائج بھی رویوں کا عکس ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے جب ذہن، جسم و روح کو یکجا کیا جا سکتا ہے لیکن بری خبروں سے ذہن کا انتشار جنم لیتا ہے۔ کوئی بھی برا احساس سوچ کو منتشر کر دیتا ہے۔ جسم، ذہن و روح کی اکائی بکھرنے لگتی ہے۔
سوچ کا انتشار گھر سے باہر کی دنیا کی طرف سفر کرنے لگتا ہے۔ باہر ایک مختلف دنیا ہماری منتظر ہوتی ہے۔ یہ فضائی آلودگی کے ساتھ رویوں کی آلودگی سے بھری ہے۔ ٹریفک کا ہجوم، دھواں، تیز رفتاری، بھاگ دوڑ میں منتظر ملتے ہیں۔ ایک تیز رفتار دن جو ذہن کی یکسوئی کو افراتفری میں بدل دیتا ہے۔ یہ ذہن کی بے ترتیبی ساتھ لے کر لوگ جب آفس میں داخل ہوتے ہیں تو کام کی رفتار بھی سست ہو جاتی ہے۔ کسی الجھن میں مبتلا ذہن اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ ہم کام کے بہتر معیار پر یقین نہیں رکھتے۔ ذہنی یکسوئی اور کام کا بہتر معیار دو الگ رویے نہیں ہیں بلکہ ایک ہی سوچ سے جڑے ہیں۔ ہم ذات کا انتشار اداروں میں بانٹ دیتے ہیں اور کام نپٹنے کے بجائے ادھورا رہ جاتا ہے۔ دنیا بدل گئی مگر ہم نے اپنی عادتیں نہ بدلیں۔ ہر طرف لفظوں کے بادشاہ نظر آتے ہیں۔ روز لفظوں کے پل باندھے جاتے ہیں۔
دلاسوں کے نئے محل تعمیر ہوتے ہیں، آسروں کے بند باندھے جاتے ہیں۔ یہ بات سچ ثابت کرنے پر مصر بھی ہیں کہ لفظوں کے بادشاہ عملی طور پر فقیر ہوتے ہیں۔ لہٰذا دن بھی فقیری کے اثر تلے خود کو گھسیٹ کر چلتا ہے۔ یہ کھوکھلے لفظ تکمیل تک پہنچنے سے پہلے دم توڑ جاتے ہیں۔ ان جھوٹے دعوؤں اور وعدوں پر پھر بھی امیدوں کی دنیا قائم و دائم ہے۔ دن گزرتا ہے۔ خاموشی سے محو پرواز رہتا ہے۔ یہ محسوس ہوئے بنا گزر جاتا ہے۔
اس کے موسم و بدلتے رنگ بے اثر رہ جاتے ہیں۔ وقت کے مختلف لمحوں کا موسم کے اثر تلے الگ کیمیائی اثر ہوتا ہے۔ یہ لمحے توجہ چاہتے ہیں، بار بار بلاتے ہیں۔ مگر اپنی سوچ و مسائل میں گھرے لوگ ان کی آواز سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔ ذہن و جسم کی ہم آہنگی اگر وقت کے لمحوں کے ساتھ نہ ہو تو روح کا گلاب مرجھا جاتا ہے۔ روح کو ہر وقت احساس کی تازگی چاہیے۔ یہ تازگی موسم عطا کریں یا اپنائیت خوبصورت احساس سے لی جائے۔
یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ملکوں میں لوگ کام کے وقفے کے دوران جاگنگ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ مل کر مسکراتے ہیں۔ مل کے اچھا وقت گزارتے ہیں۔ خوبصورت احساس اب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ایک پورا دن جھوٹ، منافقت، بے ایمانی اور پرفریب باتوں میں بسر ہوتا ہے۔ جھوٹ ہمارے جسم کی فطری توانائی کا راستہ روک دیتا ہے۔ منافقت بے ساختہ خوشی کو نقب لگا دیتی ہے۔ بے ایمانی، ذہنی اطمینان کا خاتمہ ہے۔ جو پول کے کھل جانے کے ڈر میں الجھی رہتی ہے۔ اور پرفریب باتیں ہمارے احساس کمتری کی گواہی دیتی ہیں۔ ہم اکثر اپنی خامیاں لفظوں کے خوشنما نقاب میں چھپا دیتے ہیں۔
خوف الگ دن بھر ذہنی سکون کا پیچھا کرتا رہتا ہے۔ اور حسین منظر ہماری بے بسی کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں۔ یہ بات اکثر سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک مکمل دن اپنی تمام تر نعمتوں سمیت ہماری دسترس میں کیوں نہیں آسکتا؟ شاید یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ہم شب و روز بغیر سوچے اور طے کیے گزار دیتے ہیں۔ ہمارے رشتے، ناتے، دوست و احباب شکایت کرتے رہ جاتے ہیں۔ وقت کی اڑان اور مصروفیت کے درمیان اگر اپنائیت اور یقین کی طاقت ساتھ نہ ہو تو گزرتا ہوا وقت بے معنی ہو جاتا ہے۔ وقت کو معنی انسان عطا کرتا ہے۔ چاہے وہ اسے ضایع کر دے یا ان لمحوں کو معنویت بخش دے۔ وقت کا صحیح استعمال ہی سکون و اطمینان کا باعث بنتا ہے۔
کام کا معیار کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو، اگر رویوں اور رابطوں میں اعتدال نہیں ہے تو زندگی کا معیار براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ صلاحیت کو سلیقہ چاہیے۔ جذبے کو اظہار کا طریقہ نہ ہو تو لفظ بے اثر ہوجاتے ہیں۔ سوچ منظم ہو تو زندگی کا انتشار بھی بالآخر تھک جاتا ہے۔ منتشر خیال وقت کی ترتیب میں نقب لگاتے ہیں۔ وقت ہاتھ نہیں آتا اور دسترس سے نکل کر اڑتا چلا جاتا ہے۔ ہم ایک دوسرے سے اکثر یہ کہتے ہیں کہ وقت میں بھی ملاوٹ کی آمیزش ہو گئی ہے۔ وقت خالص نہیں رہا۔ نہ جانے کیا ہو گیا ہے کہ وقت اڑنے لگا ہے۔ تو صاحبو! اس کی وجہ ہمارے بے ربط ذہن ہیں۔ جو رابطوں کے ہنر سے ناآشنا ہو چکے ہیں۔
ذہن میں سکون ہو تو وقت بھی ٹھہر ٹھہر کر مزے سے گزرتا ہے۔ زندگی کا ہر لمحہ محسوس ہوتا ہے۔ ذہن میں اطمینان ہو تو شک اور غلط فہمیوں کی گنجائش بھی باقی نہیں رہتی۔ بے سکونی اور بے اطمینانی وقت کے سب سے بڑی دشمن ہیں۔ سوچیے گا کہ آخر ہم کیوں ایک دن اچھا نہیں گزار سکتے، ایک ایسا دن جس میں جھوٹ اور منافقت کی کوئی آمیزش نہ ہو۔ کوئی دکھاوا یا اداکاری نہ ہو۔