یہ تغافل کب تلک
اصل چیز جو ہمارے معاشرے کا ناسور بن چکی ہے وہ ہے اسٹیٹس کومپلکس۔ یعنی ہر کوئی صرف بابو بننا چاہتا ہے۔
ہر طرف دہائی دی جا رہی ہے، آپا دھاپی مچی ہوئی ہے کہ ہمارا معاشرہ تباہی و بربادی (معاشی، معاشرتی اور اخلاقی ہر زاویے سے) کے دہانے پر کھڑا ہے۔ کس کس انداز اور کس کس پہلو سے ہمارے دانشوروں نے، اہل قلم نے، ذرایع ابلاغ نے اس تباہی و بربادی کے اسباب کی نشاندہی نہیں کی، صرف نشاندہی نہیں بلکہ اس کے آسان و موثر حل بھی پیش کیے گئے مگر ان پر توجہ دینا تو حکومت وقت کی ہی ذمے داری ہے۔
کیونکہ چھوٹے بڑے تمام وسائل ان ہی کے اختیار میں ہیں (مگر لگتا ہے کہ ہمارے حکمران نہ اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں نہ ملکی چینلز دیکھنا گوارہ کرتے ہیں، رہی رائے عامہ تو اس سے انھیں کیا غرض؟) اب اگر وہ اپنے وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے کم مدتی اور کم لاگت منصوبوں کو بروئے کار لاکر اس بدنصیب قوم کو کچھ آسانیاں فراہم کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو یہ عوام ہی نہیں بلکہ خود ان کے (حکمرانوں) کے حق میں بھی بہتر ثابت ہوگا۔
لیکن عوام الناس یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر بڑی بڑی باتیں کرنے والے، بڑے بڑے یعنی اربوں کے منصوبے بنانے والے بنیادی اور چھوٹے پیمانے پر کام کا آغاز کرکے بہتر نتائج حاصل کرنے سے کیوں گریزاں ہیں۔ عجیب صورتحال ہے سمجھنے کی نہ سمجھانے کی۔
اخبارات کا باقاعدگی سے مطالعہ کرنے والا عام قاری اور معاشرے کا معمولی تعلیم یافتہ طبقہ بھی اتنا ادراک تو رکھتا ہے کہ کم لاگت سے شروع ہونے والے چھوٹے چھوٹے منصوبوں اور کاموں کو خلوص نیت سے انجام دے کر ہم اپنے روز مرہ کے کئی مسائل باآسانی حل کرسکتے ہیں اور اس طرح مہنگائی، بے روزگاری اور توانائی کے میدان میں خاصی پیش رفت ہوسکتی ہے۔ مثلاً عوام کو ذرایع آمدورفت، تعلیم، مہنگائی اور بیروزگاری سے اس طرح بھی چھٹکارا دلایا جاسکتا ہے کہ بجائے بلٹ ٹرین، میٹروبس یا سرکلر ریلوے جیسے بڑے منصوبوں کے ہم چند ہزار عام بسیں جن کی حالت اور رفتار مناسب ہو اور جن کے اوقات مقرر ہوں اگر سڑکوں پر مہیا کردیں تو عوام کو کافی سہولت میسر آجائے گی۔
سڑکوں سے ایس آر ٹی سی کی بسوں کے غائب ہونے کے بعد ویگن دور کا آغاز ہوا، جن کے کرائے بسوں کی نسبت خاصے زیادہ اور گنجائش کافی کم تھی جن کے بارے میں یہ عام تاثر تھا کہ ان کے مالکان پولیس کے اعلیٰ اہلکار اور سرکاری افسران ہیں۔ اب وینز کی تعداد بھی خطرناک حد تک کم ہوچکی ہے، ان کی جگہ 9 سیٹوں اور چھ سیٹوں والے چنگ چی رکشے چلا کر عوام سے زیادہ خواص کو سہولت مہیا کی جا رہی ہے اور دولت مندوں کو مزید دولت اکٹھی کرنے کا موقع فراہم کیا جا رہا ہے جب کہ عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں۔
قومی ترقی میں شرح خواندگی کی اہمیت سے کس کو انکار ہے، مگر تعلیم کو بھی کاروبار بناکر ہم نے قومی دولت کی بربادی کے بعد شرح خواندگی میں اضافے کے بجائے تنگ نظری، تعصب اور طبقاتی استحصال کے علاوہ کسی اور چیز کو فروغ نہ دیا، تعلیم جو ملکی سلامتی اور یکجہتی کا اصل محور ہوتی ہے، کو بھی قومی نفاق اور طبقاتی اونچ نیچ کا ذریعہ بنادیا۔
اگر سرکاری اسکولوں کو جو پہلے ہی سے موجود ہیں (تمام تر خرابیوں کے باوجود) اگر ان کی مناسب دیکھ بھال اور سرپرستی کی جائے، بدنظمی دور کرکے پہلے جیسے فعال سرکاری اسکول خلوص نیت کے ساتھ اساتذہ کو جدید خطوط پر دوران ملازمت (In Service) تربیت دے کر ان کو نجی اسکولوں جیسی مراعات دے کر ان کے جذبہ خدمت و حب الوطنی کو سراہتے ہوئے ماضی کے بہترین سرکاری اسکول کے انداز میں جہاں نصابی و ہم نصابی سرگرمیاں طلبا کو تعلیم کے ساتھ اچھے شہری، اچھے کردار بنانے پر توجہ دی جائے تو یقین جانیے نہ صرف غریب کا بچہ زیور علم سے آراستہ ہوجائے گا بلکہ لوگ مہنگے نجی تعلیمی اداروں کو بھول جائیں گے اور اس کام کے لیے بہت بڑے بجٹ کی نہیں بلکہ بڑے دل، ہمت اور خلوص کی ضرورت ہے۔
اگر صاحبان اختیار اپنے مفاد کے بجائے واقعی قوم کے لیے مخلص ہوں تو یہ اخراجات بھی قومی خزانے کی بجائے مخیر حضرات بخوشی برداشت کرنے کے لیے تیار ہوجائیں گے، مگر شرط ہے صرف اور صرف کچھ کرنے کی، کچھ عملی اقدامات کی، نیک نیتی کی، مگر۔۔۔۔۔ رہ گیا بیروزگاری کا مسئلہ تو جب ایسے سادہ اور یکساں نظام تعلیم کے اداروں سے پڑھ کر طلبا نکلیں گے تو ان کے دماغ پر نجی تعلیمی اداروں میں پیدا کیا جانے والا اسٹیٹس کومپلکس نہ ہوگا۔
میں نے اچھے کردار اور اچھے شہری بنانے کی بات کی تو اساتذہ ہی ان کے ذہن میں محنت کی عظمت، باعزت روزگار اور رزق حلال کی اہمیت کو اجاگر کردیں تو یہ تعلیم یافتہ افراد بطور سبزی فروش، سیلزمین، درزی، ٹیکسی رکشہ چلانے کے علاوہ چھوٹی موٹی اشیا کی دکان، پلمبر، الیکٹریشن وغیرہ بن کر بھی باعزت روزگار ازخود پیدا کرسکتے ہیں یا پھر چھوٹے چھوٹے صنعتی یونٹ چند افراد مل کر قائم کرکے ان میں باہنر محنتی اور تعلیم یافتہ افراد کو روزگار فراہم کرسکتے ہیں۔
اصل چیز جو ہمارے معاشرے کا ناسور بن چکی ہے وہ ہے اسٹیٹس کومپلکس۔ یعنی ہر کوئی صرف بابو بننا چاہتا ہے۔ جب کہ ایک مکمل معاشرہ وہی کہلاتا ہے جس میں صفائی کرنے والا، کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے والا حتیٰ کہ ابلتے گٹر اور نالوں کی بروقت صفائی کرنے والے سے لے کر بجلی کی اشیا کی خرابی درست کرنے والے، درزی، موچی، ڈاکٹر، انجینئر، اساتذہ اور انتظامی صلاحیتوں سے مالا مال افراد جو اپنے انتظام سے ہر ادارے کو کامیاب اور فعال بنادیں۔
غرض معاشرے کے بے شمار کردار ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہے تو کیوں نہ تمام پیشوں کو باعزت اور معزز سمجھا اور سمجھایا جائے۔ آخر یہی لوگ ممالک غیر میں جاکر ہوٹلز میں برتن دھونے، صفائی کرنے دکان اور سپر مارکیٹ میں معمولی کام کرنے کے علاوہ ٹیکسی چلانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تو اگر وہی ماحول اور ہر شعبے سے منسلک افراد کو باعزت سمجھا جائے تو یہاں بھی لوگ پڑھ لکھ کر ہر کام کرنے پر بخوشی آمادہ ہوجائیں گے، یوں نہ صرف روزگار کی بے شمار راہیں کھل جائیں گی بلکہ لوگ محنت سے کمانے اور باعزت زندگی بسر کرنے کے لائق بھی ہوجائیں گے۔
مگر ہمارے معاشرے میں ہو کیا رہا ہے کہ حلال مگر معمولی کمائی والے کو حقارت سے دھتکارا جا رہا ہے جب کہ بدعنوان، رشوت خور اور ناجائز ذرایع سے حاصل کردہ دولت کے بل بوتے پر لوگوں کو معزز اور اعلیٰ مرتبت سمجھا جاتا ہے، جو جتنا بڑا لٹیرا ہے وہ اتنا ہی معزز اور صاحب اختیار و اقتدار ہے۔ یہ لوگ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے اپنے گھر بھر کر زندگی کی تمام دشواریاں اور تلخیاں ان ہی کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔
ایک مزدور، محنت کش کا بچہ علاج کے لیے رقم نہ ہونے اور سرکاری اسپتالوں میں بھی رشوت و سفارش نہ ہونے کے باعث مر جاتا ہے جب کہ ان لٹیرے دولت مندوں کی اولاد دانت کے درد اور گھٹنے کے درد کا علاج بھی بڑے ممالک میں جاکر کراتے ہیں، انتخاب میں بھی نمایندہ دولت مندوں کو ہی چنا جاتا ہے کیونکہ ایک مزدور، معمولی آمدنی والا تو پارٹی کا ٹکٹ ہی حاصل نہیں کرسکتا اور پھر انتخابات کے اخراجات الامان الحفیظ۔ اس صورتحال میں سارا معاشرہ دولت کمانے، دکھانے اور ہر کام محض نمائشی طور پر کرنے کی عادت میں مبتلا ہے۔ لہٰذا پورا معاشرہ خلوص کی کمی کا شکار ہوکر کھوکھلی بنیاد پر کھڑا ہے جو کسی بھی وقت زمین بوس ہوسکتا ہے۔