چلے تھے انجینئر بننے بن گئے شاعر
وہ شاعر بھی اچھا تھا اور رائٹر بھی بہت خوب تھا اور وہ مجھ سے زیادہ پروفیشنل تھا،
میرا اور مسرور انور کا ایک ہی اسکول سے تعلق رہا ہے وہ سینئر تھا اور میں جونیئر اور اسکول تھا گورنمنٹ ٹیکنیکل ہائی اسکول جیکب لائن۔ کراچی میں این ای ڈی انجینئرنگ یونیورسٹی کے بعد صوبہ سندھ کا یہ واحد ٹیکنیکل اسکول تھا۔ مکینیکل انجینئرنگ سول انجینئرنگ ووڈ ورکس اور الیکٹریکل انجینئرنگ کی بھی تعلیم دی جاتی تھی۔
مسرور انور کے والدین کی خواہش تھی کہ ان کا سپوت بڑا ہوکر ایک انجینئر بنے گا اور اسی طرح میرے ماں باپ کی بھی آرزو تھی کہ ان کا بیٹا مستقبل میں ایک انجینئر بن کر ملک کی خدمت کرے، مگر قدرت نے دونوں کے والدین کی خواہش اور آرزو کے برعکس کیا ٹیکنیکل کیا ٹیکنیکل ہائی اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد مسرور انور بھی انجینئرنگ کے شعبے کی بجائے شعر و ادب سے وابستہ ہو گیا اور میں نے بھی اسکول میگزین سے اپنی شاعری کا آغاز کیا اس میگزین کا ایڈیٹر مسرور انور تھا۔
میں نے اسلامیہ آرٹس کو اپنا مرکز بنایا اور مسرور انور نے جناح آرٹس کالج سے ناتا جوڑ لیا اور دونوں ہی نے شاعری کے میدان کو چن لیا۔ میں نے اپنا خرچہ چلانے کے لیے لا کالج کی فیس دینے کے لیے مشہور فلمی ہفت روزہ نگار میں باقاعدہ لکھنا شروع کر دیا اور مسرور انور نے ریڈیو کے لیے لکھنا اپنا مستقبل بنا لیا۔ اس دوران ریڈیو سے کمرشل سروس کا آغاز کیا گیا اور مسرور انور کمرشل سروس میں بطور اسکرپٹ رائٹر ملازم ہو گیا۔
وہ شاعر بھی اچھا تھا اور رائٹر بھی بہت خوب تھا اور وہ مجھ سے زیادہ پروفیشنل تھا، کمرشل سروس کا پہلا اناؤنسر قربان جیلانی تھا، قربان جیلانی کے ساتھ بعد کی مشہور براڈ کاسٹر ثریا شہاب بھی تھیں ایک طرف قربان جیلانی کی کمنٹری کی دھوم تھی تو دوسری طرف ثریا شہاب بھی بولنے میں کسی سے پیچھے نہیں تھیں خوش شکل، خوش لباس اور خوش گفتار ثریا شہاب کا وہ دور بڑا سہانا تھا ان کی آواز سننے والوں کے دلوں میں اتر جاتی تھی اور قربان جیلانی بھی کمرشل سروس کا چہیتا اناؤنسر تھا۔ وہ شعر و ادب کا بھی دلدادہ تھا اور قربان جیلانی سے میری دوستی کی وجہ شعر و شاعری سے دلچسپی ہی تھی۔
ریڈیو کے ہزاروں سننے والے قربان جیلانی کی آواز کے دیوانے تھے اور بڑی محبت سے پروگرام کی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے خطوط بھی لکھا کرتے تھے ان خطوط میں لڑکیوں کی طرف سے باقاعدہ بعض کشیدہ کاری کیے، گوٹا کناری کے ساتھ اور بعض خطوط ایسے بھی آتے تھے جن میں گلاب کے پھول کی پتیاں اور چمبیلی کے پھول بھی رکھے ہوتے تھے اور بعض خطوط کی دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ بھی ہوتی تھی کئی خط محبت اور اپنائیت کا شدت سے اظہار کرنے کے لیے خون سے بھی لکھے ہوئے آتے تھے۔
ایسے بہت سے خطوط قربان جیلانی نے اکثر مجھے بھی دکھائے تھے اور ریڈیو سننے والوں کی دیوانگی واقعی دیدنی ہوتی تھی وہ زمانہ ریڈیو کا زمانہ تھا اور ریڈیو کے ڈرامے بھی بڑے شوق اور لگن کے ساتھ سنے جاتے تھے اور لوگ ریڈیو کے ہی فنکاروں کو اپنے دلوں میں بسا کے رکھتے تھے۔ بات شروع ہوئی تھی مسرور انور سے اور آ گئی قربان جیلانی تک۔
اب میں پھر مسرور انور کی طرف آتا ہوں جس سے ملنے کے لیے میں اکثر ریڈیو کی کمرشل سروس کے آفس جایا کرتا تھا۔ مسرور میرا دیرینہ دوست تھا اور مجھ سے کافی سینئر بھی اس سے مل کر میری شاعری کو بھی بڑی تقویت ملتی تھی۔ میں ان دنوں ریڈیو کے نوجوانوں کے پروگرام بزم طلبا میں لکھتا بھی تھا اور بولتا بھی تھا ان دنوں ریڈیو کے صدا کار ابراہیم اب فلموں کے اداکار بن چکے تھے۔ اور کراچی کی کئی فلموں میں کام کر چکے تھے۔
فلموں کے شوق کی وجہ سے مسرور انور کی مجھ سے بھی زیادہ اور اچھی دوستی تھی ابراہیم نفیس سے اور ہم سب ان کو نفیس بھائی کہہ کر پکارتے تھے جس طرح بزم طلبا کے روح رواں یاور مہدی نوجوانوں میں یاور بھائی مشہور تھے۔ ایک دن جب میں مسرور انور سے ملنے کمرشل سروس گیا تو مسرور کو بہت خوش پایا اس نے فوراً میرے لیے چائے منگوائی۔ میں نے مسرور سے جب اس خاص خوشی کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ ابراہیم نفیس کے ساتھ وہ فلمساز اقبال شہزاد اور موسیقار دیبو بھٹا چاریہ سے مل کر آیا ہے اور اسی ہفتے وہ اقبال شہزاد کی فلم ''بنجارن'' کے لیے ایک گیت لکھ رہا ہے اور بات پکی ہو گئی ہے۔
میں نے بھی خوش ہو کر مسرور انور سے کہا یار تمہاری تو لاٹری نکل آئی ہے یہ کہتے ہوئے مجھے مسرور انور کی قسمت پر رشک بھی آ رہا تھا۔ پھر نفیس بھائی کی دوستی رنگ لائی اور مسرور انور کا لکھا ہوا اس کا پہلا گیت فلم ''بنجارن'' کے لیے ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں ریکارڈ کیا گیا۔
موسیقار دیبو بھٹا چاریہ تھے اور گیت کے بول تھے ''ماسٹر جی مجھے سبق پڑھا دو'' فلم بنجارن کے فلمساز و ہدایت کار اقبال کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی فلم ''بازی'' میں نشو جیسی باصلاحیت اداکارہ کو فلم انڈسٹری سے پہلی بار ندیم کے ساتھ فلم ''بازی'' میں روشناس کرایا تھا۔ فلم ''بنجارن'' زیادہ کامیاب نہ ہوسکی اور مسرور انور کا لکھا ہوا پہلا گیت بھی کوئی خاص ہٹ نہ ہو سکا مگر اس فلم کے بعد مسرور انور بحیثیت نغمہ نگار فلمی دنیا سے وابستہ ہو گیا تھا اور فلمی حلقوں میں اس کی پذیرائی ہونے لگی تھی اور مسرور انور کے حوصلے بلند ہو گئے تھے۔
اسی دوران اس نے موسیقار سہیل رعنا سے بھی اچھی خاصی دوستی کر لی تھی۔ سہیل رعنا ابھی بحیثیت موسیقار منظر عام پر نہ آ سکا تھا وہ موسیقار لال محمد اقبال کے فلمی گیتوں کی ریکارڈنگ میں بحیثیت اکارڈین پلیئر حصہ لیتا تھا۔ اور اکارڈین بجانے میں سہیل رعنا کو بڑی مہارت حاصل تھی اور ان دنوں یہ واحد اکارڈین پلیئر تھا جو ہر فلم کی ریکارڈنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔
اب میں پھر کمرشل سروس کے اسکرپٹ رائٹر مسرور انور کی طرف آتا ہوں جو اپنے خوبصورت جملوں، فقروں اور اشعار سے کمرشل سروس کے پروگرام کو دوبالا کیا کرتا تھا۔ ان دنوں ریڈیو کی یہ ریت ہوا کرتی تھی کہ جب بھی کسی اسٹیشن پر کسی دوسرے شہر کا فنکار آتا تھا تو اس فنکار کی آواز میں مقامی ریڈیو اسٹیشن پر اس کی فریش ریکارڈنگ ضرور کی جاتی تھی۔
اس طرح جب بھی کراچی میں غلام علی، شوکت علی، تصور خانم، اقبال بانو اور فریدہ خانم آتی تھیں تو کراچی ریڈیو پر ان کی ریکارڈنگ بھی ہوتی تھی یہ ان ہی دنوں کی بات ہے جب ملتان کی مشہور گلوکارہ ثریا ملتانیکر کراچی آئی ہوئی تھیں۔ مسرور انور کی بھی ان سے ملاقات ہوئی اس دوران ثریا ملتانیکر کی آواز میں مسرور انور کی لکھی ہوئی ایک غزل ریکارڈ کی گئی جس کے بول تھے:
بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے
کہیں دل لگانے کی کوشش نہ کرنا
ثریا ملتانیکر کی گرج دار آواز اور منفرد گائیکی کے ساتھ یہ غزل ریکارڈ کی گئی اور جب ریڈیو سے نشر ہوئی تو اس غزل کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی اور بہت کم دنوں میں یہ غزل ریڈیو پاکستان کے ہر اسٹیشن پر تسلسل کے ساتھ نشر ہونے لگی، اس غزل کی گائیکی کا انداز بھی خوب تھا اور شاعری بھی دل کو چھونے والی تھی، دیکھتے ہی دیکھتے اس غزل کے دیوانوں کی قدر اور بڑھتی چلی گئی اور اس طرح ثریا ملتانیکر کی اس غزل کی شہرت نے مسرور انور کو بڑی شہرت بخشی، اس غزل کو پھر اس کی شہرت کی وجہ سے اور اس کے خاص انداز کو فلم ''بدنام'' کے لیے نئے سرے سے ریکارڈ کیا گیا۔
اور جب فلم ''بدنام'' نمائش کے لیے پیش ہوئی تو اداکارہ نبیلہ کی جاندار اداکاری نے اس غزل میں اور چار چاند لگا دیے پھر تو یہ ہاٹ کیک ہو گئی۔ یہ غزل فلم کی کامیابی کی سند بن گئی اور جہاں ثریا ملتانیکر اس غزل کے بعد بلندیوں تک پہنچیں وہاں شاعر مسرور انور کے لیے بھی لاہور کی فلمی دنیا کے دروازے کھلتے چلے گئے۔ اور بڑی مختصر مدت میں مسرور انور لاہور کے معروف ترین نغمہ نگاروں کی صف میں آ گیا۔ اس دوران نامور موسیقاروں کی پسند بنتا چلا گیا۔ نثار بزمی، نذیر علی، کمال احمد اور ایم۔اشرف کی گڈبکس میں آ گیا۔
اس دوران اس نے کئی فلموں کے مکالمے بھی لکھے اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ وہ فلمساز بھی بن گیا مگر فلمسازی کا میدان کانٹوں کی سیج ہوتا ہے جس طرح حمایت علی شاعر فلمساز بن کر پچھتائے تھے اسی طرح مسرور انور کو بھی فلمسازی راس نہ آئی اور وہ ایک ہی فلم کے بعد دوبارہ نغمہ نگاری کی طرف آ گیا۔ اسی دوران میں بھی لاہور کی فلم انڈسٹری میں نیا نیا داخل ہوا تھا، کچھ عرصے میں نے نگار کے نمایندے کی حیثیت سے کام کیا اور پھر نغمہ نگاری کے لیے بھی کوششیں شروع کر دیں۔
مسرور انور نے بحیثیت ایک دیرینہ دوست مجھے کئی اچھے ٹپس دیتے ہوئے کہا یونس ہمدم! تم فلمسازوں اور ہدایت کاروں کی بجائے موسیقاروں سے دوستی کرو، ان لوگوں سے جتنے تم قریب ہوتے جاؤ گے یہ بھی تمہیں اپنے قریب کرتے جائیں گے۔ پھر ایک وہ وقت بھی آ گیا کہ مجھے اس دور کے نامور اداکار رنگیلا نے اپنی ایک فلم ''صبح کا تارا'' کے لیے گیت لکھنے کا چانس دیا۔ یہ پہلا چانس مجھے کس طرح ملا اور میرا گیت فلم کے لیے کس طرح منتخب کیا گیا یہ بھی بڑی دلچسپ کہانی ہے۔ اس کہانی سے آیندہ کسی کالم میں پردہ اٹھاؤں گا۔