’’مجھے مرنے کی اجازت ہے‘‘

لاعلاج مریضوں کو سہل موت سے ہم کنار کرنے کا رجحان فروغ پارہا ہے


سید بابر علی February 08, 2015
بے ایذا موت دینے کا طریقہ قدیم یونان اور روم میں بھی موجود تھا، فوٹو: فائل

موت کا تصور ہر معاشرے میں غم کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔ اس میں اچھے یا بُرے کی کوئی تمیز نہیں۔ تا ہم اٹھارھویں صدی میں یونانی زبان کا ایک لفظ یوتھینیسا (Euthanasia) سامنے آیا جس کے لفظی معنیٰ 'اچھی موت' یا 'بے ایذاموت ' کے ہیں۔

یہ اصطلاح ایسے مریضوں کو موت سے ہم کنار کرنے کے لیے استعمال کی گئی جن میں کسی جان لیوا بیماری کی تشخیص ہوجائے اور ڈاکٹروں نے اُسے چند ماہ اور سالوں کی مہلت دے دی ہو۔ مورخ این ڈی اے کیمپ کے مطابق بے ایذا موت دینے کا طریقہ قدیم یونان اور روم میں بھی موجود تھا، جس کی سب سے بڑی مثال سقراط کی ہے، جس نے اپنی حق پرستانہ فطرت کے باعث عمر کے آخری حصے میں دیوتائوں کے حقیقی وجود سے انکار کردیا، جس کی پاداش میں روم کے شہر ایتھنز کی عدالت نے سقراط کو موت کی سزا سنائی۔

سقراط نے بے ایذا موت کے لیے زہر کا پیالہ پینے کو ترجیح دی۔ سقراط کے شاگرد افلاطون اور اس قبل بھی کئی مصنفین اور فلسفی بھی 'بے ایذا موت' کی حمایت کر چکے ہیں۔ نیدرلینڈ، بیلجیم، لیکسمبرگ، سوئٹزر لینڈ، ایسٹونیا، البانیہ سمیت امریکا کی ریاستوں واشنگٹن، اوریگن مونٹانا اور کینیڈا کے صوبے کیوبک میں 'رضاکارانہ آسان موت' کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ غیررضاکارانہ یوتھینیسا تمام ملکوں میں غیرقانونی ہے، جب کہ بلا ارادہ آسان موت کو قتل تصور کیا جاتا ہے۔

دنیا کے کچھ ممالک میں 'بے ایذا موت' کا معاملہ بہت متنازع ہے اور لوگ اس اقدام کے قانونی اور اخلاقی ہونے پر دو حصوں میں منقسم ہیں۔ اس کے مخالفین کا کہنا ہے کہ آسان موت کا طریقہ زندگی کے تقدس کو پامال کرنے کے مترادف ہے، جب کہ حامیوں کا کہنا ہے کہ بیماری کی وجہ سے تکلیف میں مبتلا مریضوں کے لیے بے ایذا موت کا انتخاب کرنے میں کوئی برائی نہیں، کیوں کہ یہ ایسے مریض کا ذاتی اختیار ہے۔ تاہم جان لیوا بیماری یا کسی بڑے نقص کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کو 'سہل موت' دینے کا معاملہ بہت زیادہ متنازع ہے۔

بچوں کے مستقبل کا تعین کرنا والدین کی ذمے داری ہوتی ہے، لیکن اگر کوئی بچہ کسی نْقص یا لاعلاج بیماری کے ساتھ جنم لیتا ہے تو پھر ڈاکٹر اور والدین دونوں کو مشترکہ طور پر فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ بچے کی زندگی کے فیصلے میں بچے کے مستقبل اور طبی اخراجات کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے۔ علاج کے اخراجات میں طبی وسائل اور اُن کی دست یابی شامل ہے۔ نوزائیدہ بچے کی زندگی کا انحصار علاج پر ہے کہ اُسے زندہ رکھا جائے یا موت سے ہم کنار کردیا جائے۔ تاہم والدین کی اجازت کے بنا بچے کو بے ایذا موت دینا جرم ہے، لیکن اس معاملے میں مغربی والدین کا کردار بھی موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔

اب تک دنیا کے تین ممالک بیلجیم، ہالینڈ اور برطانیہ ہی نے کچھ شرائط کے ساتھ 'چائلڈ یوتھینیسیا' کو قانونی قرار دیا ہے۔ تیرہ فروری 2014کو بیلجیم دنیا کا واحد ملک بن گیا۔ جہاں Terminally ill بچوں کو (ایسا فرد جس میں کسی جان لیوا بیماری کی تشخیص ہوجائے اور ڈاکٹروں نے اُسے چند ماہ اور سالوں کی مہلت دے دی ہو) رضاکارانہ سہل موت دینے کو قانونی قرار دیا گیا۔ بیلجیم کے ایوانِ زیریں میں ارکانِ پارلیمنٹ کی اکثریت نے ''رائٹ ٹو ڈائی'' کے نام سے پیش کیے گئے اس قانون کے نفاذ کی منظوری دی۔

ایوان میں 86ارکان نے اس قانون کے حق، 44نے مخالفت میں ووٹ دیے، جب کہ 12ارکان نے اپنا ووٹ دینے سے اجتناب کیا۔ ہالینڈ میں 12سال سے کم عمر بچوں کو بے ایذا موت دینا تیکنیکی طور غیرقانونی ہے، تاہم 'یونیورسٹی میڈیکل سینٹرگروننجین' شعبۂ اطفال کے میڈیکل ڈائریکٹر اور اٹارنی Eduard Verhagen کی دستاویزات نوزائیدہ بچوں کو بھی بے ایذا موت دیے جانے کو ظاہر کرتی ہیں۔ Eduard ہالینڈ میں 'انفینٹ یوتھونیسیا' کی وجہ سے متنازع شہرت کے حامل ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ 'معصوم بچوں کو مرتے دیکھنا بہت مشکل کام ہے۔ اولاد کی جان نکلتے دیکھنا والدین کے لیے ساری زندگی تکلیف کا سبب بن سکتا ہے لیکن بچوں کے مفاد میں اس تکلیف کو برداشت کرنا بھی ضروری ہے۔' بنیادی طور پر 'بے ایذاموت ' کی درجہ بندی چار حصوں میں کی گئی ہے، جن میں رضا کارانہ سہل موت، غیر رضاکارانہ یوتھونیسیا، مرضی کے خلاف یوتھینیسا اور پیسو اور ایکٹو یوتھا نیسیا شامل ہیں۔

٭ رضاکارانہ سہل موت

اس طریقۂ کار میں معالج اپنے مریض کی مرضی سے اُسے بنا کسی تکلیف موت سے ہم کنا ر کرسکتا ہے۔ اسے عموماً 'فزیشن اسسٹڈ سوسائیڈ' بھی کہا جاتا ہے۔ اس عمل کے حامیوں کا کہنا ہے کہ کسی بھی جان لیوا بیماری میں مبتلا مریض کو دافع درد ادویات کے باوجود شدید درد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مستقل بیماری اور درد مریض کو چڑچڑا کردیتا ہے اور اس کی دلی خواہش ہی سہل موت ہوتی ہے۔ اگر ڈاکٹر کسی مریض کی زندگی سے مایوس ہوگئے ہوں تو پھر اُسے چند مہینے زندہ رکھ کر اذیت دینے سے بہتر آسان موت دینا ہے۔

٭ غیر رضاکارانہ یوتھینیسا

یہ طریقۂ کار ایسے مریضوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو فالج، دماغ کی شریان پھٹنے یا کسی حادثے کے نتیجے میں دماغی طور پر مردہ قرار دے دیے گئے ہو۔ عموماًاس بات کا فیصلہ مریض کے گھر والوں کی مشاورت سے کیا جاتا ہے، تاہم حتمی فیصلہ مریض کا معالج ہی کرتا ہے کہ اُس (مریض) کے لیے زندہ رہنا زیادہ بہتر ہے یا اُسے تکلیف سے بچانے کے لیے موت ہم کنار کرنا۔

٭ خلافِ مرضی یوتھو نیسیا

اگر کسی ایسے فرد کو بے ایذا موت دی جائے جو انفارمڈ کونسینٹ (ایک طریقۂ کار جس میں کسی فردکے صحت کے معاملے میں کسی مداخلت سے قبل اجازت لی جائے) فراہم کرنے کے قابل ہو، لیکن اُسے آسان موت دے دی جائے۔ خلاف مرضی یوتھو نیسیا کی سب سے بڑی مثال 1939میں ایڈولف ہٹلر کی جانب سے نافذ کیا گیا پروگرام 'ایٹکیون ٹی 4' ہے۔ یہ پروگرام لاعلاج مریضوں، جسمانی اور ذہنی معذور جرمن شہریوں کو آسان موت دینے کے لیے نافذ کیا گیا تھا۔ جو لوگ مرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے انہیں زبردستی موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔

اس مقصد کے لیے جرمنی اور آسٹریا کے چھے بڑے نفسیاتی اسپتالوں میں 'قتل گاہیں' بنائی گئی تھیں۔ جہاں طبی ماہرین کی جانب سے ان فٹ یا معذور قرار دیے گئے افراد کو بے ایذا موت کے نام پر بہیمانہ طریقے سے ہلاک کیا گیا۔ کسی کو زہریلی گیس سے ہلاک کیا گیا، کسی کو بھوکا رکھ کر مارا گیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دو سال کے عرصے میں 'ایکشن ٹی 4' پلان کے تحت 70ہزار 273افراد کو 'بے ایذا موت' دی گئی۔ آسٹریا اور جرمنی کے ڈاکٹروں نے اس پروگرام کو سرکاری طور پر بند ہونے کے باوجود 1945میں جرمنی کی شکست تک جاری رکھا، جس کی وجہ سے مزید دو لاکھ سے زاید لوگ 'بے ایذا موت' کا شکار ہوئے۔

اس پروگرام کے تحت دو سال میں 5ہزار سے زاید بچوں کو بھی 'آسان موت' دی گئی۔ جرمنی کی وزارت داخلہ کے حکام نے بچوں کے والدین اور سرپرستوں کو یہ کہہ کر رضا مند کیا کہ 'ان کے بچے کو خصوصی دیکھ بھال کے مرکز بھیجا جا ئے گا، جہاں ان کی طبیعت میں بہتری آئے گی۔ ان بچوں کو نہ صرف زہر کے انجکشن لگا کر ہلاک کر نے کے بعد ریکارڈ میں موت کی وجہ نمونیا درج کی گئی بل کہ ا ن بچوں کا پوسٹ مارٹم کرکے ان کے دماغ کو طبی تحقیق کے لیے محفوظ بھی کیا گیا۔

٭پیسِو اور ایکٹیو یوتھینیسا

پیسِو یو تھینیسیا میں مریض کی وہ ادویات بند کردی جاتی ہیں، جو اس کا زندگی سے رشتہ جوڑے رکھتی ہیں۔ ایکٹیِو یوتھینیسیا میں لاعلاج مریض کو آسان موت دینے کے لیے زبردستی یا اُس کی اجازت سے زہر کا انجکشن لگایا جاتا ہے۔

اس معاملے پر تمام آراء اپنی جگہ مگر بہ حیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہے کہ زندگی اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت ہے، جس کی ہر حال میں حفاظت ہمارا فرض ہے اور ہمیں بھی اختیار نہیں کہ خود کو اس نعمت سے محروم کریں۔



بے ایذا موت پر مختلف مذاہب کا نقطۂ نظر

٭ اسلام : اسلام میں یوتھینیسیا کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہمارے مذہب میں خودکشی کرنے یا کسی کو مرنے میں مدد دینے کی سختی سے ممانعت ہے۔

٭ عیسائیت: عیسائیوں کے کیتھولک فرقے میں یوتھینیسیا کو 'زندگی کے خلاف جنگ' اور 'خدا کے خلاف جنگ' قرار دیا جاتا ہے، جب کہ کچھ مسیحی مبلغین کا کہنا ہے کہ مغربی مذہبی کلچر میں ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ بائبل میں خودکشی کی واضح اور پُرزور طریقے سے ممانعت ہے۔ تاہم بائبل کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ مفروضہ غلط ہے۔ بائبل میں واضح طور پر خود کشی سے منع نہیں کیا گیا ہے۔ کچھ ابتدائی عیسائی لکھاریوں کے مطابق عیسائیت کے ابتدائی ادوار میں کئی راسخ العقیدہ افراد نے مذہبی سختیوں پر خودکشی کو ترجیح دی۔ لکھاریوں کے مطابق اُس دور کے عیسائیوں میں خودکشی کی شرح میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا کیوں کہ یہودیوں نے خودکشی کرنے والے افراد کے لیے سرعام غم منانے پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔ تا ہم چرچ نے پہلی بار اُس وقت خود کشی کی مذمت کی جب یہودی راہ نمائوں نے خودکشی کرنے والے عیسائیوں کی تدفین کی اجازت دینے سے منع کردیا۔

٭ بدھ مت: خودکشی بدھ مت کی تعلیمات کے برعکس ہے، کیوں کہ کسی کی موت دوسروں کے لیے باعث غم ہوتی ہے۔ بے ایذا موت پر بدھ مت میں کئی آرا ہیں۔ بدھ مت کے اصول 'کرما' کے مطابق موت کسی بھی شخص کی مشکلات ختم نہیں کرتی، اسے لیے خودکشی میں کسی فرد کی مدد اس سے محبت نہیں بل کہ اس کے لیے نقصان دہ ہے۔ خود کو موت کے حوالے کرنا کرما کے اصول کی نفی کرتا ہے۔ بدھ تعلیمات میں رحم دلی کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ بدھ مت کے کچھ پیروکار 'سہل موت' کے لیے 'رحم دلی' کا جواز پیش کرتے ہیں۔ اُن کے نزدیک تکلیف میں مبتلا فرد کو اذیت سے نجات دلانا بھی رحم دلی ہے، تاہم بدھ مت کے زیادہ تر پیروکار مشکلات کو برداشت کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔

٭ ہندو مذہب: بے ایذا موت پر ہندو مذہب میں دو نقطئہ نظر ہیں۔ ایک نظریہ کہتا ہے،'اچھی نیت سے کسی کو تکلیف دہ زندگی سے نجات (مُکتی) دلانا اخلاقی ذمہ داری ہے۔' دوسرے نظریے کے مطابق کسی انسان کو زندگی کے خاتمے میں مدد دینا، چاہے وہ تکلیف میں ہی مبتلا کیوں نہ ہو غلط ہے کیوں کہ اس سے موت اور دوبارہ جنم کے گردشی وقت میں خلل پیدا ہوجاتا ہے۔ ہندوئوں کی مذہبی کتاب 'وید' میں واضح لکھا ہوا ہے کہ 'انسان کے زندگی میں دو ہی قابلِ اعتبار دوست ہیں، پہلا وِدیا (علم) اور دوسرا مرتیو (موت)۔

٭ شنتو مذہب: جاپان کا سب سے بڑا مذہب شنتو ہے۔ شنتو مذہب میں رضاکارانہ بے ایذا موت کی اجازت ہے۔ شنتو عقائد کے مطابق مصنوعی طریقے سے زندگی کو طول دینا زندگی کے خلاف شرم ناک عمل ہے۔



ہالینڈ، جہاں موت لائف اسٹائل کے انتخاب سے زیادہ کچھ نہیں

ہالینڈ دنیا کا ایسا ملک بن گیا ہے جہاں 'بے ایذا' موت منتخب کرنا معاشرتی زندگی کا حصہ بنتا جارہا ہے۔ ایمسٹرڈیم کے64سالہ Andre Verhoeven نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ ایک دن اپنی مرضی سے زہر کا انجکشن لگوا کر موت کی آغوش میں چلا جائے گا۔ اپنی بیوی ڈورا سے بے پناہ محبت کرنے والے اینڈری نے ریٹائرمنٹ کے بعد دنیا گھومنے کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ خون کے کینسر کی تشخیص ہونے کے بعد بھی Verhoeven نے ہمت نہیں ہاری، لیکن اس مہلک بیماری کی وجہ سے ہونے والی پیچیدگیوں نے اینڈری کے گردن سے نچلے حصے کو مفلوج کردیا۔

پانی پینے سے بھی قاصر اینڈری نے اس محتاجی سے تنگ آکر دو ماہ بعد ہی اپنے معالج کے مشورے سے زندگی ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ جنوری کی سرد صبح ایک جنرل فزیشن نے اینڈری کو دو انجکشن لگائے، جن میں ایک اُسے پُرسکون کرنے اور دوسرا اُس کی روح کو جسم کی قید سے آزاد کرنے کے لیے تھا۔ پہلا انجکشن لگنے کے تین سیکنڈ بعد ہی اینڈی کوما میں چلا گیا۔ دوسرا انجکشن لگنے کے دو منٹ بعد اُس نے آخری سانس لی۔

اس موقع پر اینڈری کو الوداع کہنے کے لیے تما م گھر والے اور قریبی دوست بھی موجود تھے۔ Verhoeven کی بیٹی Bregje کا کہنا ہے،'میرے والد کی زندگی کا اختتام بہت پُرسکون ہوا، وہ کبھی بھی یوتھونیسیا کے حامی نہیں رہے لیکن خود کو موت کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرکے وہ بہت پُر سکون ہوگئے تھے۔' Bregje کے مطابق اینڈری کی آخری رسومات اُسی چرچ میں ادا کی گئیں جہاں انہوں نے شادی کی تھی، لیکن پادری نے ہمیں لوگوں کو 'یوتھینیسیا ' کا بتانے سے منع کردیا تھا، کیوں کہ کیتھولک چرچ رائٹ ٹو ڈائی قانون کی مخالفت کرتا ہے۔

ہالینڈ میں2002 میں پاس ہونے والے قانون 'رائٹ ٹو ڈائی' کے بعد یوتھونیسیا یا بے ایذا موت ایک معمول کی بات بنتی جا رہی ہے۔ ہالینڈ کے ہر 33 شہریوں میں سے ایک فرد یوتھونیسیا کے ذریعے اپنی زندگی کا خاتمہ کر رہا ہے۔ گذشتہ سال 6ہزار افراد نے اس طریقے سے موت کا انتخاب کیا۔ ہالینڈ میں اس قانون کا غلط استعمال بھی فروغ پا رہا ہے۔ مایوسی کا شکار صحت مند افراد بھی اس قانون کے تحت 'لائف اینڈ کلینکس' میں سہل موت حاصل کر رہے ہیں۔

گذشتہ سال مارچ میں 47سالہ Gaby Olthuis نے اپنے کم سن بچوں کی فکر کیے بنا 'لائف اینڈ کلینک' میں موت کو گلے لگا یا۔ گیبیtinnitus ( اس کیفیت میں کانوں میں مستقل سنسناہٹ یا گھنٹیاں بجتی ہیں) میں مبتلا تھی۔ موت سے قبل گیبی نے بتایا تھا،'چوبیس گھنٹے میرے کانوں میں شور ہوتا رہتا ہے، کبھی ٹرین کے شور کی آواز سنائی دیتی ہے تو کبھی ناخنوں کو چاک بورڈ پر رگڑنے سے پیدا ہونے والی آوازیں،بہ ظاہر میں صحت مند نظر آتی ہوں لیکن اندر سے مجھ پر تشدد کیا جا رہا ہے۔'

گیبی نے زہر کا انجکشن لگوانے کے بجائے زہر کا پیالہ پی کر جسم کو روح کی قید سے آزاد کیا۔ اس کی ماں جوآن کا کہنا ہے،'مرنے سے قبل گیبی نے اپنے بچوں کو بتادیا تھا کہ وہ ایسی تکلیف میں مبتلا ہے جس کا کوئی علاج نہیں، لہذا اس اذیت سے نجات کے لیے موت کو منتخب کرلیا ہے۔ اس نے اپنا آخری وقت بچوں کے ساتھ اور اپنی تجہیزو تکفین کے انتظامات میں گزارا۔'

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں