ہماری قیادت کریں

عالم اسلام کے علماء اگر اپنا کام ٹھیک سے کریں تو دنیا سے دہشتگردی اور مسلمانوں کیساتھ ناانصافی کا سلسلہ بھی رک جائیگا۔


محمد نعیم February 09, 2015
جب اسلامی حکومتیں اور علماء مسلمانوں کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کرنے لگ جائیں گے تو پھر انفرادی طور پر نہ کسی عسکری تنظیم کے قیام کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ فوٹو: فائل

دین اسلام تعمیر کا علمبردار ہے، تخریب کا نہیں۔ وہ آباد کرتا ہے، ویرانیوں کا خوگر نہیں۔ باہم متحد ہونے کا درس دیتاہے، تفریق کا نہیں۔ وہ تمام مسلمانوں کو ایک نعرے پراکٹھے اور یک جان ہوجانے کا پرزور داعی ہے، چاہے ان کے وطن اور علاقے کتنے ہی دور ہوں اور ان کی زبانیں کتنی مختلف ہوں۔

اسلام نے زندگی کا کوئی بھی عمل ہو اس کے لیے کچھ تعلیمات دی ہیں۔ جنگ اور محبت میں سب جائز ہونے کی نفی بھی اسلامی تعلیمات ہی کرتی ہیں۔بالخصوص اسلام میں جنگ، جہاد یا قتال کا مقصد تخریب نہیں بلکہ تعمیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبوی دور میں جو جنگیں لڑی گئیں۔ ان میں لوگوں کا قتل عام نہیں کیا گیا۔ ان جنگوں کا عالمی طور پر لڑی گئی اگر صرف پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے ساتھ ہی موازنہ کریں تو ہمیں عالمی جنگوں میں ہونے والے قتل عام کا گراف بہت بلند دکھائی دے گا۔ اس کی بہ نسبت اگر اسلامی دور کی جنگیں دیکھیں تو انہوں نے نقصانات بہت کم کیے مگر دنیا سے شر کا خاتمہ کیا اور انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلائی۔ نبی اکرم ﷺ نے میدان جنگ کے بھی اصول و ضوابط اس انداز میں بیان کردیئے کہ سامنے آکر لڑنے والے کفار کے ساتھ کیا معاملہ کرنا ہے، جنگ میں اگر کوئی قید ہوجائے تو اس کے ساتھ کیسا سلوک کرنا ہے اور اگرکسی کو سزا دینی ہو تو اس کے کیا اصول اور ضوابط ہیں۔

مگرموجودہ دور میں اسلامی تعلیمات سے دوری، قرآن اور سنت کا مطالعہ نہ کرنا، اسلام کے فلسفہ جہاد کو سمجھے بغیر جذباتیت سے کام لینے کا بڑا نقصان ہورہا ہے۔ اسلامی ممالک میں فساد پھیل چکا ہے۔ پہلے ہی وہ مسلمان جو کفار کے ہاتھوں محفوظ نہیں تھے۔ اب مسلمان ایک دوسرے کے دشمن بن چکے ہیں۔
کافروں کے لئے نازل شدہ آیات مسلمانوں پر چسپاں کی جارہی ہیں، کلمہ پڑھنے والے مسلمانوں کوان کے چھوٹے چھوٹے گناہوں اورغلطیوں کے باعث اسلام سے خارج کیا جارہا ہے اور پھر ان کے قتل کے لئے فتوے دیے جانے کے بعد مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنے کا عمل اجروثواب سمجھ کر کیا جارہا ہے۔

اس فساد کے باعث عالمی سطح پر اسلام کی غلط تشریح کی جارہی ہے۔ اسلام کا چہرہ بگاڑ کر پیش کیا جارہا ہے۔ جو لوگ اسلام کو ایک آفاقی دین سمجھتے تھے۔ اس قتل وغارت گری کو دیکھ کر متنفر ہورہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے بھی اسی طرح کا ایک واقعہ پیش آیا ۔ جب عراق و شام میں برسرپیکار بظاہر اسلامی گروپ نے حد درجے کی سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یرغمال پائلٹ کو زندہ جلا دیا ہے۔ ناصرف ایک زندہ انسان کو آگ لگائی گئی بلکہ اس کی ویڈیو بھی بنا کر پوری دنیا میں نشر کردی گئی۔

مجھے کچھ مسلمانوں سے یہ بات سن کر بہت افسوس ہوا جو یہ کہہ رہے تھے کہ یہ ٹھیک ہوا ہے۔ کیوں کہ جنگی جہاز کے ذریعے بھی وہ آگ کو برسا کر لوگ کو جلا رہے ہیں۔ بالفرض اگر وہ پائلٹ کسی اسلامی ملک کے بجائے کسی ایسے ملک کا ہو، جو کافر اور اسلام دشمن ہونے کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف جنگ کررہا ہو اور جنگ کا حصہ بھی ہو تو ذرا سوچیں کہ اگر وہ مسلمانوں کے ہاتھ لگ جائے تو کیا اس کے ساتھ ایسا کرنا درست عمل ہے؟ اگر مسلمان ہوکر بھی ہم انتقام میں آکر ایسے کام کرنے لگ جائیں گے تو پھر مسلمانوں اور کافروں میں تمیز کیسے کی جائے گی؟ حالانکہ نبی کریم ﷺ کی واضح حدیث موجود ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی کو آگ سے سزا دے۔

اس موقع پر سعودی عرب کے مفتی اعظم الشیخ عبدالعزیز آل شیخ نے اس عمل کی نفی اور مذمت کی اور داعش کے اس فعل کو وحشیانہ قرار دیا۔ یہ ایک اچھی بات تھی کہ اس سے قبل لوگ الزام اسلام پر لگاتے اوراسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرتے سعودی مفتی اعظم نے اس فعل کی مذمت کر دی۔

مفتی اعظم الشیخ عبدالعزیز آل شیخ ہمیشہ اْمت مسلمہ میں اتحاد ووحدت اور یگانگت پرر زور دیتے ہیں۔ علماء کے احترام، فرقہ واریت سے نفرت اور فروعی مسائل کی بنا پر فرقہ بند ہوجانے کے رویہ کی مذمت کرتے ہیں۔ سعودی عرب کا اْمتِ مسلمہ کو متحد ومتفق کرنے اور ان کے کلمہ کو مجتمع کرنے میں ایک نمایاں کرداررہا ہے کیونکہ حرمین پوری دنیا کے مسلمانوں کا مرکز ہے اور وہاں کے علماء کی بات پورے عالم اسلام میں سنی جاتی ہے اور لوگ اس بات کا احترام بھی کرتے ہیں اور مانتے بھی ہیں۔

اس وقت مختلف اسلامی ممالک ایک نازک صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ جتنے بھی شدت پسندی کے واقعات یا عسکری گروہ ہیں وہ مغربی ممالک کے جانب سے مختلف اسلامی ممالک پر حملوں اور مسلمانوں پر مظالم کے ردعمل میں پیدا ہوئے ہیں اور اپنی تمام عسکریت کا جواز وہ انہی عوامل کو قرار دیتے ہیں۔ اگر مفتی اعظم الشیخ عبدالعزیز آل شیخ سمیت سعودی عرب اور عالم اسلام کے تمام علماء اس بات پر متفق ہوجائیں کہ امریکہ امن کا علمبردار نہیں نہ مسلمانوں کا خیرخواہ ہے بلکہ دوستی اور قیام امن کا لبادہ اوڑھ کردنیا کے امن کو تباہ کر رہا ہے۔ پھر اس کے بعد تمام علماء امریکہ کی دنیا بھر اور بالخصوص اسلامی ممالک میں جاری جارحیت کی مذمت کریں۔ اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو اس بات کا پابند کریں کہ وہ عالمی سطح پر امریکہ کو اس دہشت گردی سے روکیں۔ اگر وہ باز نہیں آتا تو اس کے خلاف متحد ہوکر جنگ کا اعلان کیا جائے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اگر عالم اسلام کے علماء یہ فریضہ سرانجام دیں اور حرمین کے شیوخ اور مفتی اعظم اس عمل میں ان کی سرپرستی کریں تو دنیا سے نہ صرف دہشت گردی کا خاتمہ ہوجائے گا بلکہ مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی اور ظلم کا سلسلہ بھی رک جائے گا۔ جب اسلامی حکومتیں اور علماء مسلمانوں کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کرنے لگ جائیں گے تو پھر انفرادی طور پر نہ کسی عسکری تنظیم کے قیام کی ضرورت رہے گی اور نہ اسلام کے نام پرہر کوئی اُٹھ کر بصیرت اور فہم سے عاری کوئی ایسا عمل کرے گا جس سے اسلام اور مسلمانوں کو فائدے کے بجائے نقصان پہنچے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں