دہری شہریت والے پاکستانی ارکان پارلیمنٹ پر امریکا و دیگر ممالک میں غداری کے مقدمے کا امکان

نیٹو سپلائی کی بندش اور ڈرون حملوں کیخلاف قراردادوں کی حمایت سب سے بڑا جرم بن گیا


Faisal Hussain October 05, 2012
ایسے سیاستدانوں کو امریکا، برطانیہ و دیگر ملکوں میں واپس جانے پر گرفتاری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، تمام اثاثے، کاروبار اور بینک اکاؤنٹس ضبط کیے جاسکتے ہیں، عالمی ماہرین کی رائے

پاکستانی پارلیمنٹ میں موجود ایسے ارکان جوامریکا، برطانیہ اور دیگر ممالک کی شہریت کے حامل ہیں وہ اس وقت انتہائی مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔

کیوں کہ ایک طرف تو سپریم کورٹ نے انھیں نااہل قرار دے کر ان کی رکنیت ختم کردی ہے تو دوسری جانب ان ممالک میں جہاں کی شہریت ان کے پاس ہے، وہاں ان پر غداری کا مقدمہ قائم کیا جاسکتا ہے۔ عالمی قوانین پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ دہری شہریت کے حامل ارکان پارلیمنٹ نے ڈرون حملوں، نیٹو سپلائی پر پابندی اور سلالہ حملے پر امریکا سے معافی سے متعلق پارلیمنٹ میں قراردادوں کی منظوری میں حصہ لیا جو ان ممالک میں شہریت حاصل کرنے کے لیے دیے گئے حلف کی کھلی خلاف ورزی ہے اور اس کے نتیجے میں ان ارکان پارلمینٹ کو امریکا، برطانیہ اور دیگر ممالک میں واپس جانے پر گرفتاری کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ان ممالک میں ان ارکان کے تمام اثاثے ضبط کیے جاسکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے ان ارکان پارلیمنٹ کاسب سے بڑا جرم یہ ہے کہ انھوں نے 12 اپریل 2012ء کو ہونے والے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں امریکا سے ڈرون حملے بند کرنے، سلالہ حملے پر معافی مانگنے اور افغانستان میں برسرپیکار اتحادی فوجوں کی مدد کے لیے اسلحہ بھیجنے کیلیے رسد دینے پر پابندی کا مطالبہ کیاتھا۔ یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور ہوئی تھی اور اس قرارداد کی حمایت کرنے والوں میں دہری شہریت رکھنے والے تمام اراکین بھی شریک تھے۔ اس قرارداد کے متن کی رو سے وہ امریکا، برطانیہ سمیت دیگر ممالک کے قوانین کی نظر میں غداری کے مرتکب قرار پاتے ہیں اور ان ممالک کے قوانین کے تحت ان پر غداری کا مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔

مثال کے طور پر امریکی شہریت اختیار کرتے وقت جو حلف اٹھایا جاتا ہے اس میں یہ کہا جاتا ہے کہ میں حلفیہ اعلان کرتا ہوں کہ کسی اور غیرملکی شہزادے، حکمراں، ریاست یا اقتدار اعلیٰ سے اخلاص اور وفاداری کو مکمل طور پر ترک کرتا ہوں، جن کی میں اس سے قبل رعایا یا شہری رہا ہوں۔ یہ حلف ان ارکان پر شمشیر برہنہ کی طرح لٹک گیا ہے جس سے بچنا ان کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہوگا۔ امریکا میں شہریت کے لیے جو حلف لیا جاتا ہے اس میں یہ کہا جاتا ہے کہ میں تمام ملکی اور غیرملکی دشمنوں کے مقابلے میں ریاست ہائے متحدہ امریکا کے آئین اور قوانین کی حمایت اور ان کا دفاع کروں گا۔ امریکی قوانین کے مطابق جب ضروری ہوگا میں امریکا کیلیے ہتھیار اٹھائوں گا اور امریکی مسلح افواج میں غیر فوجی خدمات بھی انجام دوں گا۔

قومی اہمیت کے مواقع پر جمہوری امریکی قیادت کیلیے کام کروں گا، یہ تمام ذمے داریاں اپنی رضامندی سے بغیر کسی ذہنی تحفظات اور پہلو تہی کے جذبے کے بغیر اٹھا رہا ہوں، خدا میری مدد کرے۔ کینیڈاکا شہری بننے کے لیے جو حلف اٹھایا جاتا ہے اس کے مطابق یہ کہا جاتا ہے کہ میں قسم کھاتا ہوں کہ میںکینیڈا کی ملکہ عزت مآب ملکہ الزبتھ دوم، ان کے جانشینوں اور ان کی جگہ لینے والوں کی مکمل وفاداری اور مسلسل حمایت کا بیڑا اٹھائے رکھوں گا اور وفاداری کے ساتھ کینیڈا کے قوانین کا احترام کروں گا اور بطور کنیڈین شہری اپنی ذمے داریاں ادا کروں گا۔

برطانوی حلف نامے کے مطابق کہا جاتا ہے کہ میں خدا کی قسم کھاتا ہوں کہ برطانوی شہری بننے کے بعد میں قانون کے مطابق عزت مآب ملکہ الزبتھ دوم، ان کے جانشینوں اور ان کی جگہ لینے والوں کی مکمل وفاداری اور مسلسل حمایت کا بیڑا اٹھائوں گا۔ عالمی قوانین کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان ممالک کے قوانین کا اطلاق صرف دہری شہریت رکھنے والے ارکان پر نہیں ہوتا بلکہ پارلیمنٹ کے وہ ارکان اور ملک کے اہم سیاستدان جن کے امریکا اور برطانیہ سمیت دیگر ممالک میں بڑے بڑے کاروبار اور جائیدادیں ہیں، وہ بھی ان ممالک کے قوانین کی لپیٹ میں آٓسکتے ہیں کیوں کہ ان ممالک میں کسی ایسے فرد کو کاروبار کرنے کی اجازت نہیں ہوتی کہ جو اس ملک کی سلامتی، دفاع اور عوام کے وسیع تر مفاد میں تیار کی جانے والی پالیسیوں کے خلاف کسی بھی سطح پر ہونے والی جدوجہد کا حصہ ہو۔ اس طرح پاکستان کے اہم سیاستدان اپنے وقت کے مشکل ترین وقت سے گزر رہے ہیں۔

ایک طرف ان کے خلاف پاکستان میں سیاست کے دروازے بند ہوگئے ہیں، وہ دنیا بھر میں اپنے اثاثوں، کاروبار اور بینک اکاؤنٹ سے محروم ہوسکتے ہیں تو دوسری طرف ان کے پاس اپنے اثاثے دوبارہ حاصل کرنے کے لیے بھی کوئی راستہ نہیں ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں