سو سال بعد کا ایک مضمون

پُرانے پاکستان کے کچھ کھنڈرات دریافت ہوئے ہیں،جو دراصل دیواریں ہیں جن کی مدد سے اندازے لگے کہ پُرانا پاکستان کیسا تھا۔


Muhammad Usman Jami February 13, 2015
پرانے پاکستان میں تمام ضروری معلومات دیواروں پر فراہم کردی جاتی تھیں. جیسے کو کون زندہ ہے، کون کتنا بھاری ہے اور کون شیر ہےغرض لوگ اتنے مصروف تھے کہ دیواروں پر پیغامات لکھ دیا کرتے تھے۔ فوٹو: فائل

(ماہ نامہ ''آثار''، شمارہ 11 فروری 2120 میں شایع ہونے والا ماہرِآثار قدیمہ، پروفیسر بونگے بغلول کا مضمون)

جیسا کہ آج سے لگ بھگ سو سال پہلے آنے والے تبدیلی کے سونامی نے پُرانے پاکستان کی ہر نشانی کو یوں مٹایا کہ اس کے کوئی آثار نہ بچے۔ ہمارے نئے پاکستان ماہرینِ تاریخ، آثاریات، سماجیات اور سیاسیات برسوں سے اس فکر میں غلطاں ہیں کہ پُرانا پاکستان کیسا تھا، اس کے لوگ کیسے تھے، ان کی زندگی کیسی تھی وغیرہ وغیرہ، لیکن پُرانے پاکستان کی کوئی ایک دستاویز بھی نہ مل سکی جو ان سوالوں کے جواب دے۔ حال ہی میں پُرانے پاکستان کے کچھ کھنڈرات دریافت ہوئے ہیں، جو دراصل دیواریں ہیں، جن پر کچھ تحریریں لکھی ہیں۔ ان تحریروں کی مدد سے ماہرین نے کچھ اندازے لگائے ہیں کہ پُرانا پاکستان کیسا تھا۔

ان میں سے ایک تحریر ہے، ''بھٹو زندہ ہے''، جس سے پتا چلتا ہے کہ پرانے پاکستان کے لوگ ایک دوسرے کے لیے بہت فکرمند رہتے تھے اور اپنے پیاروں کی خیریت دیواروں پر لکھ کر پوچھتے اور بتاتے تھے۔ اب بھٹو نامی کوئی صاحب تھے، جو کئی دن تک نظر نہیں آئے ہوں گے تو ان کے لیے فکرمند کسی شخص نے دیوار پر لکھا ہوگا، ''بھئی وہ اپنا بھٹو کہاں ہے، اس کا انتقال تو نہیں ہوگیا؟'' جواباً اطلاع دی گئی کہ نہیں بھئی، تمھارے منہ میں خاک، بھٹو زندہ ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پرانے پاکستان کے لوگ بہت مصروف تھے ان کے پاس آپس میں ملنے ملانے کا وقت نہیں تھا، اس لیے وہ دیواروں پر تحریروں کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے تھے۔

ایک جگہ یہ تحریر ملی،''دیکھو دیکھو کون آیا، شیر آیا شیر آیا۔ '' یہ تحریر بتاتی ہے کہ پُرانے پاکستانیوں کو وائلڈ لائف سے بہت محبت تھی۔ ان کی آبادیوں میں شیر کا آنا جانا رہتا تھا، جسے دیکھتے ہی وہ خوشی سے جھوم اٹھتے تھے۔ شیر پالنے کا رواج بھی عام تھا، مگر عموماً اجتماعی طور پر شیر پالے جاتے تھے۔ مختلف مذہبی طبقوں کے لوگ اپنے اپنے شیر پالتے تھے، جس کی تصدیق ''سُنیوں نے شیر پالا'' کی تحریر سے ہوتی ہے۔ یقیناً دیگر مذہبی مکاتب فکر نے بھی اسی طرح اپنے اپنے شیر پال رکھے ہوں گے، جن کے لیے وہ خون اور گوشت کا انتظام کرتے ہوں گے۔ مختلف مسالک کے پاس شیر ہی نہیں پلے تھے، بل کہ عسکری ٹیکنالوجی میں بھی وہ خود کفیل تھے، جیسے سُنیوں کا اپنا ذاتی ''جنگی جہاز'' تھا۔

''گو نواز گو'' کے الفاظ کئی دیواروں کو سیاہ کرتے نظر آئے۔ ماہرین ان کا مطلب سمجھنے سے قاصر تھے، پھر ایک جگہ یہ الفاظ ''قدم بڑھاؤ نواز شریف، ہم تمھارے ساتھ ہیں'' نوشتے کے عین نیچے لکھے پائے گئے تو بھید کھلا۔ دراصل کوئی نوازشریف صاحب ہوں گے، جب انھیں بتایا گیا ہوگا کہ ''شیرآیا شیر آیا'' چلو چل کے دیکھیں، تو وہ شیر کی آدم خوری کے قصوں کے باعث جانے سے کترا رہے ہوں گے۔ انھیں سمجھایا گیا ہوگا کہ ''ڈرو مت، نواز بھائی، قدم بڑھاؤ، دیکھو ہم بھی تمھارے ساتھ ہیں۔'' پھر بھی نہ مانیں ہوں گے تو یاردوستوں نے غصے میں لکھ دیا ''گو نواز گو۔ ''

ایک دیوار پر لکھا تھا، ''ظالمو! قاضی آرہا ہے۔'' بڑی تحقیق کے بعد بھی پتا نہیں چلا کہ یہ اعلان سُن کر ظالم کہیں چلے گئے یا نہیں، قاضی آیا یا نہیں، آیا تو کیا ہوا، نہیں آیا تو کیوں نہیں آیا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ تحریر کسی شادی کے موقع پر دلہن کے باپ نے باورچیوں کے مخاطب کرتے ہوئے لکھی ہو کہ بھیا ظالمو! جلدی جلدی دیگیں تیار کرلو، قاضی نکاح پڑھانے آیا ہی چاہتا ہے۔

اس تحریر نے ماہرین کو حیرت میں ڈال دیا، ''ہم کو منزل نہیں راہ نما چاہیے۔'' بڑی سوچ وبچار کے بعد اندازہ لگایا گا کہ پرانے پاکستانیوں کے ساتھ منزل کا کوئی ایشو نہیں تھا، وہ منزل پر پہنچ چکے تھے، جہاں پہنچ کر دیکھا ہوگا تو راہ نما غائب، اب ڈھنڈیا پڑگئی کہ راہ نما منزل پر پہنچا کر کہاں چلا گیا، سو دیواروں پر لکھ دیا گیا کہ ''راہ نما چاہیے'' تاکہ اس کا شکریہ ادا کر سکیں۔

ایک نہایت خستہ حال دیوار کہہ رہی تھی،''اک زرداری سب پر بھاری۔'' یقیناً یہ زرداری صاحب کوئی بھاری بھرکم پہلوان تھے، یہ اس قدر بھاری تھے کہ ان کے وزن کا اعلان کرتی تحریر کے بوجھ سے عین نیچے لکھے ''جیے بھٹو'' کے الفاظ دب کر تقریباً مٹ چکے تھے۔ اب اتنے وزن کے نیچے کون جی سکتا ہے۔

دستیاب ہونے والی مزید تحریریں بتاتی ہیں کہ پرانے پاکستان میں تمام ضروری معلومات دیواروں پر فراہم کردی جاتی تھیں، جیسے یہ کہ کون کافر ہے۔ یہ تحریریں بتاتی ہیں کہ پُرانے پاکستان میں کافر کس کثرت سے آباد تھے اور مومنوں کے درمیان یوں گھل مل کر رہتے تھے کہ بتانا پڑتا تھا کہ ''میاں، پیارے، جانی! دیکھو! ہماری محبت میں کھوکر کہیں اپنی شناخت مت بھول جانا، یاد رکھنا کہ تم کافر ہو۔''

بعض تحریریں بعض حضرات کے بارے میں عمومی غلط فہمی دور کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ وہ صاحب غلطی سے انسان سمجھ لیے گئے ہیں، دراصل وہ کُتے ہیں۔ کُتا قرار دیتے ہی ہائے ہائے لکھا جاتا تھا، جس سے پتا چلتا ہے کہ پرانے پاکستانی جانوروں سے کس قدر محبت کرتے تھے، وہ یقیناً یہ بتاتے تھے کہ فلاں صاحب جنھیں انسان سمجھ کر بدسلوکی کا نشانہ بنایا جارہا ہے، درحقیقت کُتے ہیں، لہٰذا ان سے رحم دلانہ سلوک کیا جائے۔

پُرانے پاکستان میں لوگ فطری موت مرنے کے بجائے شہید ہونا پسند کرتے تھے، تاکہ ان کے خون سے انقلاب آئے۔ شہیدوں کی تعداد سے لگتا ہے کہ ملک میں ہر ہفتے انقلاب آتا ہوگا، مگر ''ظالمو! جواب دو، خون کا حساب دو'' کی تحریر اس تاثر کی نفی کرتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب مَنوں خون بہنے کے بعد بھی انقلاب نہ آیا تو شہیدوں کو لواحقین نے جانے کس سے مطالبہ کیا کہ کم از کم یہ حساب تو دے دو کہ اب تک کتنا خون بہہ چکا ہے۔

''یہاں پیشاب کرنا منع ہے'' کی تحریریں اس کثرت سے ملی ہیں کہ معلوم ہوتا ہے پرانے پاکستان میں پیشاب کرنے پر مکمل پابندی عاید تھی۔ شاید یہ پابندی ہی تھی جس کی وجہ سے آخرکار ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور سونامی آگیا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں