اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے

فیض نے ہمارے لئے کیا متاع چھوڑی ، ہمیں ا س بات سے کوئی غرض نہیں۔


اویس حفیظ February 13, 2015
معاشرے کو قریب سے بلکہ اگر معاشرے کو اندر سے دیکھنے کا ہنر کسی نے سیکھا ہے تو وہ فیض کے علاوہ کون ہو سکتا ہے۔ جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی کوئی بات نہیں۔ فوٹو: فائل

دل پر ہاتھ رکھیے اور ایمانداری سے بتائیے کہ اگر کوئی شخص اور وہ بھی جو پہلے فوج میں رہا ہو، اگر حکومت کا تختہ الٹنے کی ناکام سازش کرتا ہے تو کیا وہ کسی سزا کا مستحق نہیں ٹھہرے گا؟ ضرور ٹھہرے گا۔ کیا آپ کے دل میں اس کیلئے ہمدردی جاگے گی؟ یقینا نہیں۔ لیکن اگر اسی جرم میں دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کی جانب سے حصہ لینے والا اور 2 سال میں کیپٹن سے لیفٹینٹ کرنل کے عہدے تک ترقی پانے والے ''فیض احمد'' کو سزا مل جاتی ہے تو کیوں سار شہر پکارتا ہے کہ
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزر ی ہے

اگر اسی ''مجرم '' کو بیڑیوں میں جکڑ کر شہر کے بیچوں بیچ سے گزارا جاتا ہے تو کیوں پورا عالم اس کی اتباع میں نکل پڑتا ہے کہ
آج بازار میں پابجولاں چلو

کیونکہ یہ کوئی عام آدمی نہیں فیض احمد فیض ؔہے۔ جو جیل بھی جائے تو''زنداں نامہ'' جیسا شاہکار تخلیق کرتا ہے۔ فیض کو فیضؔ بننے کیلئے روالپنڈی سازش کیس میں قید و بند سے گزرنا ہی تھا کیونکہ اگر فیض بھی منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوا ہوتا اور اس کی ساری عمر اپنے بہت سے دوسرے ہم عصر قلمکاروں کی مانند قصر شاہی کے چکر کاٹتے گزری ہوتی تو کیا آج ہم اس لازوال شاعری کو لہک لہک کر پڑھ سکتے جس پربقول انشاء ''ایک محبِ صادق نے اپنا خون جگر ٹپکایا ہو''؟
یہ خوف و وحشت و تجربہ زنداں ہی تھا کہ فیض ؔ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک رہگزر
اجنبی خاک نے دھندلا دئیے قدموں کے سراغ
گل کر دو شمعیں، بڑھا دو مئے، مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو

کی صورت میں ہم ایسے فراق زاروں کیلئے ایک لازوال نصیحت چھوڑ کر گیا۔وگرنہ ہمیں کس نے بتانا تھاکہ
جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جان کی کوئی بات نہیں

معاشرے کو قریب سے بلکہ اگر معاشرے کو اندر سے دیکھنے کا ہنر کسی نے سیکھا ہے تو وہ فیض کے علاوہ کون ہو سکتا ہے۔ مگر اس معاشرے کو کیا خبر! وہ کسان ہی فیض کو کتنا جانتا ہوگا کہ جس کے لئے ''انتساب '' میں فیض کہتا ہے کہ
دہقاں کے نام
جس کے ڈھوروں کو ظالم ہنکا لے گئے
جس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھا لے گئے
ہاتھ بھر کھیت سے ایک انگشت پٹوار نے کا ٹ لی
دوسری مالیے کے بہانے سے سرکار نے کاٹ لی
جس کی پگ زو ر والوں کے پائوں تلے
دھجیاں ہو گئی ہے

فیض نے ہمارے لئے کیا متاع چھوڑی ، ہمیں ا س بات سے کوئی غرض نہیں۔فیض یہ کہنے میں حق بجانب تھا کہ
ہم پہ جو گزری سو گزری مگر اے شب ہجراں
ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے

کسے خبر کس کے اشکوں سے کس کس کی عاقبت سنور گئی مگر ۔۔۔ خیر چھوڑئیے! ایسے سادہ دلوں کو شہرت و ثروت سے کیا لینا دینا جو حق قلم ایک فریضے کی طرح نبھاتے تھے اور صرف اپنے آپ کو ضمیر کی عدالت میں جوابدہ تصور کرتے تھے۔لینن پیس ایوارڈ حاصل کرنے والے کو اگر ہم اس کی وفات کے بعد نشان امتیاز دیتے ہیں تو یہ اعزاز اس کیلئے نہیں بلکہ ہمارے لئے ہے کہ شب وحشت کے رخ سیاہ سے آشنا ہونے کے بعد ہمیںآخرِ شب کے ٹمٹماتے چراغوں کی اہمیت معلوم ہوئی۔
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے

عشق و محبت کے نام پر قرطاس سخن سیاہ کرنے والوں کو ایک بار پھر فیض کو پڑھنا چاہئے کہ وہ فیض جو ایک جگہ
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
جیسی محبت بھری شاعری کرتا ہے اور اگلے ہی لمحے
جا بجابکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
جسم نکلے ہوئے امراض کے تنورں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
جیسے مصرعو ں سے یہ واضح کر دیتا ہے کہ
اور بھی دکھ ہیںزمانے میں محبت کے سوا

فیض نہ ہوتا تو تیر الزام اورسنگ دشنام کا دم سازکون بنتا؟ دست قاتل کے شایاں کون رہتا؟اہل حکم کو بجلی کے کڑکے سے ڈرانے کیلئے کسی کو تو اپنا قلم تلوار کرنا تھا، کسی کو تو اس داستان رقم کرنے کی پاداش میں ہاتھ قلم کروانے تھے۔ اب اگر وہ فیض نہ ہوتا تو پھر اور کون ہوتا؟ ابھی تو ہم اس راہ کی دھول کو بھی نہیں پہنچے کہ جس کی منزل پر بھی فیض کے قدموں کے نشاں ثبت ہیں اور پھر اس معاشرے کے بے فیض لوگوں سے بھی کیا کہا جائے کہ
ہمت التجا نہیں باقی
ضبط کا حوصلہ نہیں باقی

اصولوں کی خاطر طوفانوں سے ٹکرانے کا عزم رکھنے والے اب خوابیدہ خاک ہو چکے ہیں مگر آج فیض کی 114ویں سالگرہ مناکر ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ فیض کو زوال نہیں، فیض آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہے مگر کس جائے افسوس تو یہ ہے کہ فیض کو اگر دوبارہ معاشرے کے روبرو کیا جاتا ہے تو اس کا کریڈٹ ''گلزار'' کی فلم ''حیدر'' کو جاتا ہے۔ جو آج بھی گلوں میں رنگ بھر رہا ہے۔ ارے ہم سے تو وہ گلزار اچھا جو کم از کم رہِ رسم دوستی فیض تو نبھا رہا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں