سنگیتا کے ساتھ معین اختر کی پہلی شوٹنگ
فلم ’’کنگن‘‘ میں سنگیتا فلم بینوں کو اچھی لگی تھی ایک فریش فیس کافی عرصے کے بعد کسی فلم میں نظر آیا تھا۔
اداکارہ سنگیتا کی ڈھاکہ میں بنائی گئی فلم ''کنگن'' کے بعد کراچی میں اس کی دوسری فلم ''تم سا نہیں دیکھا'' تھی، سنگیتا کی اداکاری اور اس کی خوبصورتی کے چرچے ڈھاکہ سے کراچی اور کراچی کے اخبارات کے ذریعے لاہور کی فلم انڈسٹری تک پہنچ چکے تھے۔ فلم ''کنگن'' میں سنگیتا فلم بینوں کو اچھی لگی تھی ایک فریش فیس کافی عرصے کے بعد کسی فلم میں نظر آیا تھا۔
سنگیتا اس وقت نوخیز اور نازک اندام، نوعمر اداکارہ تھی اور اس دوران لاہور کی فلموں میں پختہ عمر اور بھاری بھرکم ہیروئنوں کا دور دورہ تھا، سنگیتا کی آمد فلمی دنیا میں ایک خوبصورت اضافہ تھا اور لاہور کے کئی فلمسازوں نے سنگیتا کو اپنی فلموں کے لیے آفرز دینی شروع کر دی تھیں مگر وہ سنگیتا کے لاہور شفٹ ہونے کے منتظر تھے اور سنگیتا کی مستقل رہائش کراچی میں تھی۔
اسی دوران نگار ویکلی کے مدیر الیاس رشدی جن کا فلمی دنیا میں بڑا نام تھا اور ساری انڈسٹری میں نگار پبلک فلم ایوارڈ کی بڑی دھوم تھی اور فلمسازوں میں وہ بڑا اثر و رسوخ رکھتے تھے، جنھوں نے کراچی ہی سے شمیم آرا کو فلمساز و ہدایت کار نجم نقوی کی فلم ''کنواری بیوہ'' کے لیے اپنی طرف سے ہوائی جہاز کا ٹکٹ دے کر لاہور بھیجا تھا اور پھر شمیم آرا نے اپنا ایک الگ مقام بنایا تھا۔ الیاس رشیدی نے ڈھاکہ کی مشہور اداکارہ شبنم کو بھی کراچی بلایا تھا کچھ عرصہ انھوں نے طارق روڈ کے قریب ہل پارک والے اپنے گھر میں ہی ٹھہرایا تھا اور شبنم کو لاہور جانے کا مشورہ بھی دیا تھا اور پھر شبنم نے لاہور جا کر فلم انڈسٹری میں اپنا سکہ جما لیا تھا۔
ایک دن الیاس رشیدی نے اپنے آفس میں سنگیتا کے والد طیب رضوی اور والدہ مہتاب بانو کو سمجھاتے ہوئے یہ مفید مشورہ دیا کہ سنگیتا کو بھی اب کراچی چھوڑ کر لاہور شفٹ ہو جانا چاہیے اور یہ مشورہ انتہائی کارگر ثابت ہوا۔ سنگیتا اپنی فیملی کے ساتھ جلد ہی لاہور شفٹ ہو گئی۔ سنگیتا کا اصلی نام پروین ہے اپنی چھوٹی بہن نسرین (کویتا) چھوٹے بھائی علی رضا اور اپنے والدین کے ساتھ لاہور کے علاقے گلبرگ میں رہائش پذیر ہو گئی۔ اس طرح اس کی کراچی کی فلم ''تم سا نہیں دیکھا'' تعطل کا شکار ہوتی گئی۔
مذکورہ فلم کی شوٹنگ کے لیے جب بھی سنگیتا سے وقت مانگا جاتا تو صرف انکار میں جواب ملتا۔ اس طرح سنگیتا سے وقت مانگتے مانگتے ایک سال اور گزر گیا۔ ادھر لاہور میں سنگیتا کو اور فلمیں بھی ملتی چلی گئیں اور وہ مصروف ہیروئنوں کی صف میں شامل ہو گئی۔ ایک دن فون پر بات کرتے ہوئے سنگیتا کی والدہ نے سمجھاتے ہوئے کہا یونس ہمدم یہ بات تو اب تم بھول جاؤ کہ ہم تمہاری ایک فلم کی شوٹنگ کے لیے لاہور کی دس فلموں کی شوٹنگیں چھوڑ کر کراچی آئیں گے۔
ہاں اگر تم اپنے ہدایت کار اور چند ضروری آرٹسٹوں کے ساتھ لاہور آ جاؤ گے تو ہم تمہاری فلم کے لیے فوری وقت نکال کر دیں گے اور تمہاری فلم کا بقیہ سارا کام دو ہفتوں میں مکمل کرا دیں گے اور پھر میڈم مہتاب بیگم نے یہ بھی کہا کہ ہم تمہاری سہولت کی خاطر تم سے شوٹنگ کے لیے رقم کی فوری ڈیمانڈ بھی نہیں کریں گے جب فلم مکمل ہو جائے اور ریلیز کے قریب ہو تو جتنے پیسے مناسب ہو سکیں دے دینا۔ اس گفتگو کے بعد منظر نامہ اب کچھ بدل گیا تھا اور میرے فلمساز و ہدایت کار دوست نے بھی سکون کا سانس لیا تھا۔
پھر ہم نے کیمرہ مین سعید رضوی، اداکار ناظم اور معین اختر کے ساتھ میٹنگ کی کہ ان دونوں کا ہی زیادہ کام سنگیتا کے ساتھ شوٹ کرنا تھا۔ سعید رضوی نے فلمساز کی مزید ہمت بڑھاتے ہوئے کہا یونس ہمدم میرا گہرا دوست ہے اس کی خاطر میں اپنے خرچ پر لاہور جاؤں گا اور جتنے دن لاہور میں شوٹنگ ہو گی وہاں اپنے ہی خرچ پر ہوٹل میں رہوں گا۔ سعید رضوی کے خیرسگالی کے جذبات کو دیکھتے ہوئے اداکار ناظم نے بھی یہی کہا کہ وہ کسی طرح بھی فلم کے یونٹ پر بوجھ نہیں ڈالے گا یہ سن کر معین اختر نے مسکراتے ہوئے کہا، میرے دوستو! تم نے اپنا فیصلہ سنا دیا جب کہ ایسا ہی فیصلہ میں ناظم اور سعید رضوی کی باتیں سن کر پہلے ہی اپنے دل میں کر چکا تھا۔
ناظم، معین اختر اور سعید رضوی ہوائی جہاز سے لاہور گئے اور اپنی مرضی کے ہوٹلوں میں ٹھہر گئے جب کہ فلمساز شاہد، ہدایت کار سعود حسنی اور میں نے عوامی ایکسپریس ٹرین کا سفر اختیار کیا، یہ میرا لاہور کا پہلا وزٹ تھا۔ میں نے ہوٹل ہی سے سب سے پہلے سنگیتا کے گھر فون کیا سنگیتا کی والدہ مہتاب بیگم نے فون اٹھایا جب میں نے بتایا کہ ہم اپنی فلم کا یونٹ لے کر لاہور آ گئے ہیں تو انھوں نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔ ہمدم! تم نے یہ بڑی سمجھداری کا ثبوت دیا ہے اور ہاں تم اپنی شوٹنگ بجائے ایورنیو اسٹوڈیو کے اے۔ایم اسٹوڈیو میں کرنا، یہ فلمساز اشفاق ملک کا اسٹوڈیو ہے جو بندر روڈ پر ہے۔
جس طرح سنگیتا کے والدین نے تعاون لاہور میں شوٹنگ کے دوران ہمارے ساتھ کیا اس کا ہمیں اتنا اندازہ نہیں تھا۔ چند چھوٹے موٹے آرٹسٹ لاہور سے لے لیے تھے اور پھر ہم نے دس بارہ دن تک ''تم سا نہیں دیکھا'' کی شوٹنگ کی۔ زیادہ تر شوٹنگ میں سنگیتا، ناظم اور معین اختر نے حصہ لیا۔ معین اختر کی بھی یہ پہلی فلمی شوٹنگ تھی وہ لاہور آ کر بڑا خوش تھا۔ معین اختر کے ساتھ سنگیتا، ناظم اور کالج کے ماحول میں کچھ مزاحیہ سین بھی فلم بند کیے گئے، شوٹنگ پر معین اختر اور ناظم کے لاہور کے چند دوست بھی آتے رہتے تھے۔
معین اختر کی شوٹنگ کے دوران کچھ لوگ آ کر شوٹنگ دیکھتے تھے اور معین اختر سے اپنی محبت کا اظہار کرتے تھے کیونکہ معین اختر بطور مزاحیہ آرٹسٹ مشہور ہو چکا تھا اور اکثر و بیشتر لاہور اور اسلام آباد فنکشن کرنے آتا رہتا تھا۔ سنگیتا نے بڑی خوش دلی کے ساتھ فلم کی شوٹنگ میں حصہ لیا اور جب ہم نے اپنی فلم کا تمام کام مکمل کر لیا تو سنگیتا کی والدہ میڈم مہتاب بیگم نے ہم لوگوں کو اپنے گھر ایک دن کھانے پر بھی بلایا اس دوران معین اختر اپنی گفتگو سے سب کو ہنساتا رہا۔ کھانے کے بعد ہم سب نے سنگیتا اور ان کے والدین کا تہہ دل سے شکر ادا کیا اور پھر سنگیتا کے والد نے بڑی محبت سے ہمیں اپنے گھر سے یہ کہتے ہوئے رخصت کیا کہ کوشش کرو کہ تمہاری یہ فلم اب جلد نمائش کے قابل ہو جائے۔ اور پھر ہماری فلم کا یونٹ ''تم سا نہیں دیکھا'' کے تمام اہم سین فلم بند کر کے بڑے فاتحانہ انداز میں کراچی پہنچا۔
البتہ اداکار ناظم لاہور ہی میں رک گیا وہاں اسے اداکار رنگیلا نے اپنی آنے والی ایک فلم ''دل اور دنیا'' کے لیے ایک سائیڈ کردار کے لیے منتخب کر لیا تھا۔ لاہور کے ایک دو فلمسازوں نے اپنی پنجابی فلموں کے لیے بھی بات کر لی تھی اس طرح ناظم لاہور آ کر بہت کامیاب رہا۔ پھر کراچی آنے کے بعد مذکورہ فلم کی بقایا شوٹنگ کا بھی شیڈول ترتیب دیا گیا اور ان ہی دنوں E.M.I گراموفون کمپنی نے ہماری فلم کے سارے گانوں کے ریکارڈز بھی ریلیز کر دیے تھے جو احمد رشدی، رونا لیلیٰ، اخلاق احمد اور اسما احمد کے گائے ہوئے تھے۔
اسی دوران فلم کے ہدایت کار سعود حسنی جو ایک ٹریولنگ ایجنسی میں کام کرتا تھا اس کو پروموشن مل گیا اور وہ فلم کی ہدایت کاری کو خیرباد کہہ کر لندن آفس چلا گیا اور پھر لندن ہی کا ہو گیا تھا۔ ویسے اس فلم میں نہ ہدایت کار کو کچھ پیسے ملنے تھے اور نہ ہی رائٹر کو کیونکہ فلمساز، ہدایت کار اور رائٹر تینوں ہی گہرے دوست بھی تھے اور سب ایک دوسرے سے مالی تعاون بھی کر رہے تھے۔
اسی دوران فلمساز شاہد نے ایک اور ہدایت کار تلاش کر لیا تھا یہ ہدایت کار یوسف نصر تھے جو ان دنوں ایک سندھی فلم کے پروڈیوسر اور ہدایت کار بھی تھے اور ایک زمانے میں یہ لاہور کے شاہ نور اسٹوڈیو میں مشہور فلمساز و ہدایت کار شوکت حسین رضوی کے ساتھ کافی عرصہ کام کر چکے تھے۔ فلم میں یوسف نصر نے کچھ اپنا سرمایا بھی لگایا تھا مگر فلم جب تیار ہوکر نمائش کے لیے پیش ہوئی تو رنگین فلموں کا دور آ چکا تھا یہ فلم بلیک اینڈ وہائٹ تھی لہٰذا پہلے ہی ہفتے میں دم توڑ گئی۔ اس فلم کی ناکامی سے میرا دل بھی ٹوٹ گیا اور کراچی سے اچاٹ ہو گیا اور میں کسی طرح لاہور جانے کے پروگرام بناتا رہا۔