سرمایہ دارانہ نظام کا بحران

بات عام آدمی پارٹی کی نہیں جو مستقبل میں پاکستان میں بھی قائم ہوتی نظر آ رہی ہے۔


Zamrad Naqvi February 16, 2015
www.facebook./shah Naqvi

دہلی کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی انتخابات جیت گئی ہے جس کا انتخابی نشان جھاڑو ہے۔ پہلی مرتبہ جیت کے بعد اس کی حکومت 49 دن قائم رہی۔ مرکزی حکومت سے اختلافات کے باعث کیجریوال نے احتجاجاً استعفی دے دیا۔ دہلی کے ووٹروں نے جنہوں نے عام آدمی پارٹی کو اقتدار دلوایااس کے عمل پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ پچھلے سال عام انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو بری طرح شکست ہوئی۔

بھارت میں عام آدمی کے غربت اور بے روزگاری کے جو مسائل ہیں، وہ اس عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں پیوستہ ہیں جس میں کرپشن ایک مددگار کا کردار ادا کرتی ہے۔ بظاہر پاکستان بھارت دو دشمن ملک ہیں لیکن ان دونوں میں سرمایہ دارانہ نظام نافذ ہے جس کی حفاظت سرمایہ دارانہ جمہوریت کرتی ہے۔اگر یہ معجزہ ہو جائے کہ پاکستان اور بھارت کے عام آدمی متحد ہو جائیں تو ان دونوں ملکوں کے سرمایہ دار اپنے ہی غریب عوام کے خلاف متحد ہوجائیں گے۔

بات عام آدمی پارٹی کی نہیں جو مستقبل میں پاکستان میں بھی قائم ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اصل نکتہ کی بات یہ ہے کہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام بحران کا شکار ہے۔ دونوں ملکوں کے بھوکے غریب لوگ اس نظام سے مایوس ہو گئے ہیں۔ صحت اور تعلیم کی سہولتیں صرف اسے ہی ملیں گی جس کے پاس اسے خریدنے کی طاقت ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان بھارت میں کروڑوں بچے اسکول ہی نہیں جا سکتے کیونکہ تعلیم اور صحت کم وقت میں سب سے زیادہ منافع بخش کا روبار بن گئے ہیں۔

بھارت میں صورت حال یہ ہے کہ وہاں کی 80 فیصد آبادی غربت کا شکار ہے یعنی ایک ادب کے قریب اس میں پچاس کروڑ کے قریب وہ ہیں جنھیں ایک وقت کی روٹی ملنا بھی دشوار ہے۔ حالانکہ بھارت میں شروع سے ہی جمہوریت قائم ہے۔ عوام ووٹ دیتے ہیں اور اپنے نمایندے منتخب کرتے ہیں۔ انتخابات شفاف ہوتے ہیں۔ دھاندلی کی گنجائش نہیں۔ اگر دھاندلی ہو تو فوری طور پر انصاف ملتا ہے۔ پاکستان کی طرح نہیں کہ عوم کو میڈیا کے ذریعے ہانک کر پولنگ اسٹیشنوں پر لے جایا جاتا ہے اور بعد میں عوام کی رائے کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنی مرضی کے نتائج نکالے جاتے ہیں۔1970ء کے بعد مسلسل ایسے ہی ہو رہا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ دارانہ جمہوریت ووٹ کی آزادی تو دیتی ہے لیکن غربت کے خاتمے اور روزگار کی ضمانت نہیں دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک چاہے یہ امریکا یورپ ہوں وہاں غریب عام آدمی اور امیر آدمی کے درمیان غربت اور امارت کا تفاوت زمین سے آسمان کو پہنچ گیا۔ آج دنیا کے امیر ترین لوگ جن کی تعداد سو سے بھی کم ہے ان کے پاس دنیا کی دولت کا 80 فصید حصہ ہے۔ جب کہ سوشلسٹ معیشت میں دولت مٹھی بھر لوگوں کے بجائے سب انسانوں کے لیے ہوتی۔ ہر ایک کو روزگار ملتا ہے اور اس کی اہلیت اور ضرورت کے مطابق تنخواہ جو لوگ سرمایہ دارانہ جمہوریت کے دن رات قصیدے پڑھتے ہیں ان لوگوں سے سوال ہے کہ بھارت میں پچھلے 67 سالوں سے جمہوریت رہی۔

مارشل لاء بھی نہیں لگا۔ پھر بھی بھارت میں غریبوں کی تعداد اتنی کیوں بڑھ گئی اور غریبوں کی بدحالی میں بے پناہ اضافہ کیوں ہوا۔ وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت سرمایہ دار طبقوں اور امیر لوگوں کا تحفظ کرتی ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو غریب بھی خوشحال ہوتے۔ حالت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے گڑھ امریکا میں کئی ملین لوگ خط غربت سے نیچے ہیں حتیٰ کہ بے شمار لوگوں کے پاس اس برفانی طوفانی موسم سر چھپانے کی چھت نہیں ایسا کیوں ہے کہ دنیا کے امیر ترین گنتی کے چند لوگوں کی دولت میں ہر منٹ 5 لاکھ ڈالر کا اضافہ ہو رہا ہو تو د وسری طرف اربوں غریب لوگ کم خوراکی کا شکار ہوں۔ پاکستان میں جمہوریت کا حال اور بھی برا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ نادیدہ قوتوں نے جمہوریت کو چلنے نہیں دیا لیکن سیاستدان پچھلے تیس سالوں میں بے پناہ دولت کے مالک بن گئے جب کہ عوام غریب ترین ، اس نیک کام میں سول اور ملٹری بیورو کریسی بھی پیچھے نہیں رہی۔ جمہوریت خاندانی بادشاہت میں بدل چکی ہے۔ حقیقی اقتدار چند قریبی رشتہ داروں اور برادری دوستوں تک محدود ہے۔ دن رات جمہوریت کے نام لیوا اپنی پارٹیوں میں انتخابات سے انکاری ہیں۔ لوکل باڈیز الیکشن ان کے لیے ڈراونا خواب ہے۔ جمہوریت میں بے پناہ ارتکاز اختیار ہو تو جمہوریت و آمریت میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔ ارتکاز اختیار ارتکاز دولت بھی دہشت گردی ہے۔ اس دولت میں اضافہ کے لیے دولت مند ملک مزید دہشت گردی کراتے ہیں ، غریب ملکوں کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے۔

سرمایہ دارانہ نظام بحران کا شکار ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس ظالمانہ نظام کو دباؤ سے نکالنے کے لیے پاکستان میں بھی عام آدمی پارٹی وجود میں آئے جو ایک طرف عام آدمی کی آنکھوں میں دھول جھونکے تو دوسری طرف اس نظام کومزید مہلت ملے۔

دنیا کب کی گلوبل ویلج بن چکی جب کہ ہم ماضی کے اسیر ہیں۔ دہشت گردی اس کے اجزائے ترکیبی میں سے ایک ہے۔ اس تیر بہدف نسخہ کے ذریعے سامراج مسلمانوں کو آپس میں لڑاتے ہوئے ایک طویل مدت تک ان کے وسائل پر قبضہ برقرار رکھے گا۔ دہشت گردی کو دہشت گردی کے ذریعے بڑھاوا د ینا مسلم دنیا کا مقدر ہے۔ ہم اس جنگ کے''قیدی'' ہیں جو کئی نسلوں پر محیط ہے، کوئی جائے پناہ کوئی راہ فرار نہیں... ہماری آیندہ نسلیں اس کا ایندھن ہیں۔

اگلے پانچ سے پندرہ سال دہشت گردی کی جنگ کے نام پر بے پناہ تباہی و بربادی لائیں گے۔

سیل فون:۔0346-4527997

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں