انسانی صحت اورڈھابہ ریسٹورینٹس

مناسب اوقات میں ہلکی پھلکی ورزش اور چہل قدمی صحت کی حفاظت کے لیے بہترین نسخہ جات ہیں،


قمر عباس نقوی February 17, 2015

امریکا کا نامور سیاستدان ''بینجمن فرینکلن'' جس کو سب سے پہلے امریکن ہونے کا اعزاز حاصل ہے، نے کیا خوب کہا کہ ''ہر شخص قلیل آمدنی سے بھی زندگی اور تندرستی قائم رکھ سکتا ہے''۔ یاد رکھئے! صحت کے اصولوں پر تیار کردہ متوازن اور نشاستہ دار غذا کا بروقت لینا اور اپنی زندگی خوش وخرم رکھنا اچھی صحت کا ضامن ہے۔

مناسب اوقات میں ہلکی پھلکی ورزش اور چہل قدمی صحت کی حفاظت کے لیے بہترین نسخہ جات ہیں، لہٰذا اس کو زندگی کا معمول بنائیں۔ بلاشبہ یہ انسانی صحت ہی ہے جو ذات باری تعالیٰ نے بلاامتیاز، رنگ ونسل، مذہبی، علاقائی و لسانی عصبیت، شکل و صورت کائنات کے تمام انسانوں کو ایک انمول اور قیمتی تحفہ کی صورت میں عطا کی ہے، جس کا ہم جتنا بھی شکر بجا لائیں کم ہے۔ کیونکہ انسان کی صحت ہی دولت عظیم ہے۔ اس حقیقت کو امریکی مصنف و شاعر ''رالف والڈو ایمرسن'' نے کچھ اس طرح سے آشکار کیا ہے ''صحتمند جسم ہی سب سے بڑی دولت ہے''۔

آج کل نت نئے کھانوں کی ڈشز مارکیٹ میں آچکی ہیں اور شہریوں میں بازاری کھانوں سے لطف اندوز ہونے کا جنون کی حد تک شوق جنم لے چکا ہے۔ بچے، بوڑھے، خواتین اور جوان، غرض عمر کے ہر حصے کے شوقین افراد فوڈ اسٹریٹ کا رخ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیا کا کاروبار وسیع پیمانے پر زیادہ منافع بخش ہونے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ کسی حد تک اس کو زبان کا چٹخارہ، ذائقہ یا چسکا کہنا بے جا نہ ہوگا۔ ملک کے تمام ٹی وی چینلز پر خواتین کے علاوہ مرد حضرات کا کھانا پکانے کا رجحان بڑھ چکا ہے، جو عصر حاضر کی جدید شکل ہے۔ ڈشز سے متعلق تیار کردہ لذیذ مصالحہ جات بھی مختلف کمپنیاں تیزی سے متعارف کروا رہی ہیں۔ انسان کی نفسیات ہے کہ وہ زندگی میں یکسانیت کو پسند نہیں کرتا، وقت اور حالات کی تبدیلی کے ساتھ وہ اپنی طرز زندگی میں تبدیلی کا شدت سے خواہاں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہر ویک اینڈ پر اپنے خاندان کے افراد کے ہمراہ کچھ دیر کی تفریح کی فراہمی کی خاطر بھی فوڈ اسٹریٹس کا رخ کرتے ہیں۔ ان فوڈ اسٹریٹ میں باربی کیو، فاسٹ فوڈ، چائنیز انداز سے تیار کردہ نت نئی ڈشز سے لطف اندوز ہونا جو قیمتاً مہنگی ضرور ہوتی ہیں۔ اگر اردگرد کا ماحول خوشگوار، پرفضا اور صحت افزا ہو تو ان مزیدار اور لذیذ کھانوں کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔ بالخصوص ہمارے معاشرے کے افراد کی بیشتر تعداد بسیارخوری پر جب ہی مجبور ہوتی ہے جب انھیں اس قسم کا ماحول میسر آجائے۔ کچی سلاد کا استعمال اور کم ازکم سال میں ایک مرتبہ خون کا عطیہ صحت کی نشوونما کا ایک اہم عنصر ہے۔ جو حقوق العباد کے زمرے میں اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور سڑکوں پر تیزی سے بڑھتا ہوا بے ہنگم ٹریفک کا شور جہاں انسانی صحت کو خراب کرنے کا موجب بن رہا ہے، وہاں آپ کی عمر رفتہ میں بھی کسی حد تک کمی کا باعث بن رہا ہے۔

انسانی جسم کا اندرونی نظام کیمیائی ملاوٹ کا منبع ہے۔ اشیائے خوردنی کی پیداوار اور افزائش میں کیمیائی ادویات کے استعمال کا عمل دخل خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ سب سے زیادہ نشاستہ دار اشیا مثلاً انڈے، دودھ، مرغی کا گوشت۔ دودھ جو اپنا فطری ذائقہ کیمیائی استعمال کی وجہ سے کھو چکا ہے۔ پرانے زمانے میں مجھے یاد ہے کہ آس پڑوس میں انڈا تیار کیا جاتا تھا تو اس کی مسحورکن خوشبو پورے محلے میں سونگھی جاسکتی تھی، اب ان اشیا میں نہ ہی خوشبو ہے نہ ہی بدبو۔ دودھ جانوروں کو انجکشن لگا کر زبردستی نکاس کیا جاتا ہے، یعنی دودھ میں بھی کیمیائی ادویات شامل ہیں جو انسانی جسم میں داخل ہوکر ایک کیمیائی عمارت تعمیر کرتا ہے۔

عصر حاضر میں دل کے امراض سے معاشرے کا ہر تیسرا آدمی متاثر ہورہا ہے۔ انسان کی باڈی میں اس وقت کیمیائی عناصر کی جنگ جاری ہے۔ مرغی کی پیدائش و افزائش کا واحد ذریعہ مشینی اور کیمیائی ادویات ہیں۔ انسانی اندرونی اعضا کی لائف اب پچاس برس رہ گئی ہے۔ اس کے بعد کا عرصہ آپ سمجھئے کہ بونس میں زندہ ہیں۔ قدیم دور میں انسان کم ازکم ایک صدی تو دیکھ لیا کرتا تھا۔

جہاں کھانے پینے کی بات ہو وہاں ہمارے دیہاتی طرز کے کھانوں کا ذکر کیے بغیر موضوع نامکمل رہ جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا، میرا بذریعہ کار کراچی سے لاہور اور لاہور سے راولپنڈی اور راولپنڈی سے پشاور تک سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ کیا خوبصورت سرزمین ہے ہمارے وطن عزیز کی۔ ہمارے وطن کا کونہ کونہ اللہ تعالیٰ کی عطائی کی حمدوثنا کرتا دکھائی دے گا۔ لہلہاتے درخت، زرخیز اور آبی نہروں کا وسیع جال آنکھوں کو تروتازگی بخشتا ہے۔ سڑک کے دونوں اطراف بنے ہوئے کچے جھونپڑی نما کھانے پینے کے ریستوران جو دیہاتی طرز زندگی کی زندہ تصویر ہیں، عموماً ان دیسی ریستوران کو ڈھابہ یا گریبی ہوٹل کا نام دیا جاتا ہے۔

جھونپڑی انداز کے یہ ریستوران علاقے کے دیہاتی پن کو اجاگر کررہا ہوتا ہے۔ ان ڈھابوں کی خصوصیت یہ ہے کہ مٹی کے برتنوں میں لکڑی پر پکے ہوئے کھانے قدرت کا عجیب ذائقہ پیش کرتے ہیں۔ گریبی ہوٹل کا نام اس لیے دیا جاتا ہے کھانے کے دوران حسب ضرورت کچھ تھوڑا بہت سالن جھونگے کے طور پر مل جاتا ہے جو ان ریستوران کی قدیم روایت ہے۔ کم قیمت میں انسان پیٹ بھر کر کھانا کھالیتا ہے، کم قیمت اس لیے کہ ان ریستوران میں آنے والے متفرقہ اخراجات شہر کے ہوٹلز کے مقابلے میں نہایت ہی قلیل ہوتے ہیں۔

شہری علاقوں میں بھی شاذونادر ہی ایسے ریستوران ملیں گے، جو یا تو شہر کے مضافاتی علاقوں یا جہاں تعمیراتی کام جاری ہوں یا جہاں کثیر تعداد میں کارخانے ہوں۔ مزدوروں کی بڑی تعداد ان جھونپڑ پٹی ہوٹل میں کم قیمت پر کھانا کھا کر اپنے پیٹ کی بھوک مٹالیتے ہیں۔ کراچی میں کئی ایسے مقامات پر گریبی ہوٹلز اپنی قدیمی شکل میں موجود ہیں۔ ڈھابہ پر یاد آیا، ہمارے ایک دوست بڑی دلچسپ شخصیت کے مالک ہیں، چائے کے ہوٹل پر چائے پی کر گریبی بھی مانگتے ہیں۔ ہم نے ان سے دریافت کیا کہ گریبی سالن کی ہوتی ہے یہ آپ چائے کی گریبی کیوں مانگ رہے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہم سالن کے ساتھ ساتھ چائے کی گریبی کی ریت بھی قائم کرناچاہتے ہیں۔ آخر میں ہم یہی کہیں گے کہ صحتمند تخلیقی ذہن ہی ملک وقوم کی ترقی اور شاندار مستقبل کا ضامن ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں