لگا ہے مصر کا بازار
کوئی اگر ہماری مقدس کتاب قرآن کریم کی توہین کرے ہم مغرب کے ڈر کی وجہ سے کچھ نہیں کر سکتے،
میثاق مدینہ کو بجا طور پر انسانی تاریخ کا پہلا دستور قرار دیا جا سکتا ہے، یہ 730 الفاظ پر مشتمل ایک جامع دستور ہے جو ریا ست مدینہ کا آئین تھا۔ 622ء میں ہونے والے اس معاہدے کی53 دفعات تھیں۔ یہ معاہدہ اور تحریری دستور مدینہ کے قبائل (بشمول یہود و نصاری) کے درمیان جنگ نہ کرنے کا بھی عہد تھا، معاہدے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس کا بکثرت ثبوت پوری تفصیل کے ساتھ کتبِ تورایخ میں ملتا ہے مگر اس کے باوجود مغربی مصنفین اسے نظر انداز کرنے کی کوشش میں ناکام ہی نظر آتے ہیں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلام کے خلاف سازشیں اور اُن کی ذات گرامی پر حملہ کرنے کے لیے انھوں نے 'ادب' اور شاعری کا سہارا لے کر، اُس کی آڑ میں آپ کی ذات کی اہمیت و درجے کو کم کرنے کے لیے ہجو لکھیں، جس میں تین شعرا ء نے باقاعدہ محاذ بنایا۔ ایک کا نام کعب بن الاشرف تھا، جو یہودی تھا، دوسری کا نام اسماء بنت مروان تھا اور تیسرے کا نام ابو عنک تھا۔ ان کے رکیک اشعار سے حضرت محمد ﷺ کو شدید رنج پہنچا تو ان تینوں کو انھی کے قبیلے کے افراد نے قتل کیا۔ اسماء بنت مروان کو ان کے ہم قبیلہ ایک نابینا صحابی عمیر بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ اور ابو عنک کو حضرت سالم بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ نے قتل کیا۔ ریاست مدینہ کے قیام کے بعد حضرت محمد ﷺ کو مسلمانوں کے دفاع کے لیے کئی جنگیں بھی لڑنا پڑیں، غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق، غزوہ بنی قریظہ، ٖغزوہ بنی مصطلق، غزوہ خیبر، جنگ ِ موتہ، غزوہ فتح مکہ، غزوہ حنین اور غزوہ تبوک۔ جس جہاد میں حضرت نبی اکرم بذات خود شریک تھے انھیں غزوہ اور جس جنگ میں شریک نہیں تھے انھیں 'سریہ' کہا جاتا ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے جہاں مسلمانوں کے دفاع کے لیے غزوات میں حصہ لیا وہاں صلہ رحمی، امن اور ان کے تحفظ کے خاطر مشرکین، یہود و نصاری سے معاہدے بھی کیے۔ ان میں صلح حدیبیہ سنہ 6 ہجری مارچ 628ء کا وہ تاریخی معاہدہ تھا جس کے بعد، اس معاہدے نے بہت سود مند اثرات بھی مرتب کیے اور بیعت رضوان کا ایک ایسا عہد نامہ بھی تاریخ میں سنہرے الفاظ میں رقم ہو گیا کہ مسلمانوں نے یہ عہد کیا کہ وہ مرتے دم تک حضور ﷺ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔
نبی اکرم ﷺ نے اسلام کی تبلیغ کے لیے فارس کے بادشاہ خسرو پرویز، مشرقی روم (بازنطین) کے بادشاہ ہرکولیس، حبشہ کے بادشاہ نجاشی، مصر اور اسکندریہ کے حکمران مقوقس اور یمن کے سردار کو اپنے سفارت کار بھی بھیجے۔ خسرو پرویز نے سفارت کی توہین کی، مصر اور اسکندریہ نے نرم جواب دیا اور آپ ﷺ کی خدمت میں کچھ تحائف روانہ کیے، ان کے ہمراہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالہ عنہا بھی روانہ ہوئیں جن سے حضور ﷺ کے بیٹے ابراہیم کی ولادت ہوئی۔
گزشتہ دنوں پاکستان میں جمہوری نظام کے تحت سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت نے ایک بار پھر پاکستان کے نظام و انصرام پر سوالیہ نشان ڈال دیا کہ براہ راست کروڑوں روپے رشوت دے کر آنے والوں کی غریب عوام کے ساتھ کتنی اور کس قدر ہمدردی ہو گی۔ حکمرانی کے کئی نظام ہمارے سامنے ہیں اور ہم نقالی میں اپنی چال بھی بھول جاتے ہیں۔ افسوس ناک صورتحال تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے نظام ہائے حکومت میں نبی اکرم ﷺ اور خلفائے راشدین کے عملی کارناموں کو یکسر نظر انداز کیا ہوا ہے ۔
اور ہمارا المیہ ہی یہی ہے کہ مسلم ممالک میں ظلم کے طور اپنا نظام قائم کیا ہوا ہے، جس میں غریبوں کے مفادات کو یکسر نظرانداز کیا جاتا ہے، معاشرے کے مترفین ( یعنی وہ طبقہ جو عوام کے وسائل پر قابض ہو کر غریبوں پر ظلم ڈھائے) کے لیے سب ذرایع استعمال ہوتے ہیں۔ آج اگر ہم اسلام کے ابتدائی دور کے ساتھ جدید دور کا موازنہ کریں تو مسلمانوں کی حالت زار پر خود غیر مسلموں کو رحم آتا ہے ، انھیں امداد کے نام خیرات، دفاع کے نام پر دیے گئے اسلحے دے کر غیرت خریدنا، صحت کے نام پر اپنی نسل کو بچانے کے لیے متعدی امراض کی بیماریوں کو اَن ہی ممالک میں ختم کرنا تا کہ اِن کی وجہ سے اُن کی عوام کو نقصان نہ پہنچے، مسلم ممالک کو اپنی تباہ کن ایجادات کی تجربہ گاہ بنا کر انھیں محکوم بنا لینا۔ غرض یہ ہے کہ مسلم ممالک نے خوئے غلامی میں سابقہ اقوام کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
کوئی اگر ہماری مقدس کتاب قرآن کریم کی توہین کرے ہم مغرب کے ڈر کی وجہ سے کچھ نہیں کر سکتے، نبی اکرم ﷺ کی نعوذ بااللہ ہجو کرنے والوں کی زبان روک نہیں سکتے اظہار رائے کے نام پر آزادی جو دے رکھی ہے، حالانکہ یہ اظہار رائے کی آزادی نہیں بلکہ فرعونی قوت کا مظاہرہ ہے جس کے سامنے ہمارے نام نہاد نمایندے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں، جو کروڑوں روپے خرچ کرکے کاروبارِ سیاست میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ ہماری حالت قوم موسی علیہ السلام کی قوم کی طرح ہوگئی ہے ' تم لڑو اور تمہارا رب لڑے، ہمیں بس آسمان سے' من سلوی' درکار ہے۔
ہماری روش بھی قوم شعیب علیہ السلام کی طرح ہو گئی ہے، جہاں حلال و حرام کی کوئی تمیز نہیں رہی تھی، عدل و انصاف کا نام رہ گیا ہے، خوف خداوندی ختم ہو چکا ہے۔ ہمارے اِن حکمرانوں کو کون سمجھائے کہ تمھارے پاس حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے زیادہ دولت نہیں، جو ذوالنورین ہونے کے باوجود روتے رہتے تھے کہ ان کے سرمائے کی وجہ سے اللہ تعالی کے سامنے سرخرو کیسے ہونگا کہیں، ان سے نا داستگی میں کوئی کوتاہی نہ ہو چکی ہو، ان جیسی تمام وہ ہستیاں جنھیں ان کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت مل گئی وہ اس کے باوجود بھی بے فکر ہوکر نہیں بیٹھے بلکہ اللہ تعالی کی پکڑ کی ڈر سے احکام الہی پر اور سختی سے کاربند ہو گئے ۔
نہ جانے ہمارے ارباب اختیار کے جسموں میں کس فرعون کی روح وارد ہو چکی ہے کہ خود کو 'خدا' سمجھ بیٹھے ہیں۔ انسان بھوکا، پیاسا مر رہا ہے، سیکڑوں انسان کراچی میں 'نامعلوم ' کے ہاتھوں قتل ہو گئے، سیکڑوں لاشیں سوختہ ہو گئیں، بھتے کے لیے انسانوں کو جلا دیا گیا، اس قدر بر بریت تو ڈرون حملوں میں جلنے والے ان انسانوں کے ساتھ بھی نہیں کی جاتی جس قدر ہمارے خودکش دشمن، مساجد میں نماز پڑھتے ہوئے نمازیوں پر ڈھاتے ہیں، یہاں تو ہر روز سانحہ پشاور رونما ہوتا ہے لیکن عدل و انصاف کا معیار دہرا کیوں ہے؟
نبی اکرم ﷺ نے امن کے خاطر معاہدے بھی کیے تو انسانیت کے بچاؤ کے لیے دفاع بھی کیا، مدینہ ریاست سے ناواقف دنیا میں سفارت کار بھی بھیجے تو ان کے تربیت یافتہ خلفائے راشدین نے ظالموں کی سرکوبی بھی کی اور عدل و انصاف کا ایسا نظام قائم کیا جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی، پھر ہم کس نظام کو کہاں تلاش کر رہے ہیں۔ کیا اسلام سے بہترین اور کوئی نظام اپنا کر ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان کا آئین، اللہ تعالی کے دیے گئے آئین، قوانین، اصولوں اور انصاف سے بہترہے۔
ہمیں دیکھنا اور سوچنا ہو گا کہ ایک وہ نظام ہے جس میں خلیفہ ثانی راشد عمر ٖفاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک غلام ( ریا ستی ملازم ) ہنئی کو ایک چراگاہ پر متعین کرتے ہوئے کہا ''کہ اے ہنئی، مسلمانوں سے نہایت عاجزی کا برتاؤ کرنا، مظلوموں کی بد دعا سے ڈرنا، یاد رکھنا کہ عبد الرحمن بن عوفؓ اور حضرت عثمان بن عفانؓ ( جیسے مالدار لوگوں) کے جانوروں کو ہرگز چرنے نہ دینا، اس لیے اگر ان دونوں کے جانور مر بھی جائیں گے تو دونوں کے دونوں اپنی زرعی زمین اور باغات سے پیٹ پال سکتے ہیں اور اگر کم مقدار والوں ( غریبوں) کے اونٹ یا بکریاں مر گئیں تو وہ لوگ اپنے اہل و عیال کو میرے پاس لا کر مجھ سے فریاد کریں گے کہ امیر المومنین ! ہم غریب و فقیر ہو گئے۔''
بھلا کوئی تو سمجھائے کہ ہمیں کس نظام کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے؟ اُس نظام (اسلامی) کی جو پہلے ہی غریب، مظلوم اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سردھڑ کی بازی لگاتا رہا ہے یا پھر اُس 'بازار مصر' کی جہاں ایمان بھی چند روپوں میں فروخت ہو جاتا ہے، لیکن یہ وہ لوگ ہیں جن کے ضمیر کی قیمت تک مصر کے بازار میں بھی نہیں لگے گی۔