خاموشی کی زبان
اس کرہ ارض پر مشکل ترین چیز انسان ہے جسے سمجھنے کے لیے مختلف علوم و فنون دریافت کیے گئے
شخصیت کے اظہار کے مختلف طریقے ہیں۔ گو کہ گفتگو سب سے موثر ذریعہ ہے مگر گفتگو کا تاثر اس وقت بھرپور ہوتا ہے، جب الفاظ کے استعمال کے ساتھ، جسم کی زبان بھی اس اظہار کے مطابق ہو۔ ہم ہمیشہ الفاظ کے پیچھے چھپا پیغام سمجھنا چاہتے ہیں۔ گفتگو کے علاوہ ایک خاموش زبان بھی ہے، جسے باڈی لینگویج کہا جاتا ہے۔ اس زبان میں نظر کے پیغام کی معنویت، چہرے کے رنگ اور حرکات و سکنات شامل ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کی حرکات و سکنات اس کے الفاظ کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی۔ الفاظ بے اثر ہو جاتے ہیں اور خاموشی کی زبان پر اثر محسوس ہونے لگتی ہے۔ یہ نان وربل (خاموش زبان) سمجھنا ایک فن ہے۔ جو لوگ یہ زبان، اشارے کنایے، آنکھوں و بھنوؤں کی جنبش کے مختلف زاویے، ناک کے تاثرات وغیرہ سمجھتے ہیں۔ ان کے لیے انسان کی حقیقت کو سمجھنا مشکل نہیں ہوتا۔
اس کرہ ارض پر مشکل ترین چیز انسان ہے۔ جسے سمجھنے کے لیے مختلف علوم و فنون دریافت کیے گئے۔ قیافہ شناسی، علم نجوم ہو یا نفسیات کے پیچ و خم ہوں مقصد انسان کے مزاج اور شخصیت کا تجزیہ کرنا ٹھہرا! یہ حقیقت ہے کہ ہمارے رویے اور انداز ایک طویل دن میں کئی رنگ بدلتے ہیں۔ یہ رنگ موقع محل اور تقاضا کے پیش نظر بدلے جاتے ہیں۔ ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کے سامنے ہمیں خود کو کس طرح پیش کرنا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق اگر ذاتی نمایندگی کے مثبت انداز اپنا لیے جائیں تو رشتے ناتے، محبت، دوستی، گھر و آفس میں خاطر خواہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جسم انسان کی سوچ کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ منفی و مثبت سوچ کا اثر انسان کی چال ڈھال، گفتگو کے انداز اور تاثرات سے ظاہر ہو جاتا ہے۔
اس ضمن میں جذبات، سوچ کا انداز اور تاثرات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ جسم کی زبان کو اگر تبدیل کر دیا جائے تو ارد گرد کے بہت سے معاملات و مسائل سلجھائے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی تقریب میں شرکت سے پہلے مزاج کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ یا منفی سوچ پر قابو پا کر کسی بھی رشتے کو مزید مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ یا آفس میں بحث و مباحثے اور غصے کے بجائے ایک اچھا دن گزارا جا سکتا ہے۔ آفس دیر سے پہنچنے والوں کی باڈی لینگویج مختلف ہوتی ہے۔ وہ شانے ڈھلکائے سست چال چلتے ڈرے سہمے اندر داخل ہوتے ہیں۔ جب کہ فرض شناس فرد کی چال ڈھال اور گفتگو کا انداز مختلف ہو گا۔
ہماری سیلف ٹاک (خودکلامی) زیادہ تر چہرے اور حرکات و سکنات سے عیاں ہوتی ہے۔ انسان جس زبان میں خود سے بات کرتا ہے اگر وہ گفتگو منفی، خوف، حسد، بے یقینی اور نفرت پر مبنی ہے تو وہ کیفیت خدوخال سے جھلکنے لگتی ہے۔ یہ تمام تر اندرونی کیفیات انسان کے جسم، اٹھنے بیٹھنے اور بات کرنے کے انداز پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ماہر نفسیات چہرہ دیکھ کر شخصیت کا جائزہ لیتے ہیں۔ خودکلامی اور اندرونی کیفیات کے علاوہ انسان کی جسمانی زبان کا تعین حالات بھی کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر باس یا بیوی کی ہر وقت ڈانٹ کھانے والا شخص زندگی سے بیزار نظر آتا ہے۔ خاوند کی بے جا تنقید کا شکار بیویاں بھی سست، مضمحل اور بے چین رہتی ہیں۔ مایوسی کا شکار لوگ مختلف انداز سے چلتے ہیں جب کہ مثبت انداز فکر کے لوگوں کی چال مختلف ہوتی ہے۔ وہ بچے جو زیادہ ڈانٹ ڈپٹ اور تنقید کا شکار رہتے ہیں ان کے تاثرات و حرکات و سکنات ان بچوں سے مختلف ہوتے ہیں، جنھیں سراہا جاتا ہے۔ کسی بھی انسان کی شخصیت کا اندازہ اس کے ظاہری روپ سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس کی نسل، عمر، طبقہ یا ماحول کا اندازہ بخوبی ہو جاتا ہے۔ اسٹائل یا امیج بھی بہت سی باتوں کی وضاحت کرتے ہیں۔ انسان کے پوسچر (ساخت) میں اس کے کھڑے ہونے کا انداز، اٹھنے بیٹھنے کے آداب اور چال ڈھال آجاتے ہیں۔
جو لوگ بالکل سیدھے کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کی جسمانی بناوٹ اور ترتیب، بازوؤں وکاندھوں کے زاویے، چستی و فعال انداز سے ان کی توقیر ذات، مثبت انداز فکر اور متحرک ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ انسان کے پوسچر (ساخت) سے اس کی سوچ کا انداز، جذبات، دلچسپیاں، عزت اور قبولیت کا احساس بھی جڑا ہے۔ لیکن اگر شانے ڈھلکے ہوئے ہوں، چال مضمحل ہے۔ بیٹھنے کا انداز بھی بے ترتیب ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ان لوگوں کی زندگی میں تعریف و توصیف، محرک اور حوصلہ افزائی کی کمی ہے۔ اس طرح کا پوسچر ذاتی لاپرواہی، آرام طلبی اور سہل پسندی کی نشاندہی کرتا ہے۔ اگر شانے آگے کی طرف جھکے ہوتے ہیں تو اس کا مطلب دوسروں پر انحصار کرنے والی عادت ہے۔
چہرے کے تاثرات انسان کی سوچ کی نمایندگی کرتے ہیں۔ مثلاً غصہ کرنے والے لوگوں کے ماتھے پر فراؤن لائنز (غصے کی لکیریں) ہوتی ہیں۔ پریشانی، پشیمانی، ندامت اور احساس محرومی کا اثر چہرے کی لکیروں سے ظاہر ہونے لگتا ہے۔ زیادہ تر تاثرات کا ذریعہ آنکھیں ہوتی ہیں۔ آنکھوں کی سطح پر ایک پوری دنیا آباد ہوتی ہے۔ یہ انسان کے خوابوں و خواہشات کا مجموعہ کہلاتی ہیں۔ آنکھیں دل کا آئینہ بھی کہلاتی ہیں۔ اگر مدمقابل براہ راست آنکھوں میں دیکھ کر بات نہیں کر پا رہا تو یہ خود اعتمادی کی کمی سمجھی جاتی ہے۔ نفرت، غصہ، عداوت، محبت اور اپنائیت کے جذبات آنکھوں کے توسط سے بخوبی پڑھے جا سکتے ہیں۔ آنکھیں مزاج، احساس اور جذبات کی سچی ترجمان ہوتی ہیں۔ آنکھیں محبت کے احساس کی خوبصورت عکاسی کرتی ہیں۔ آنکھوں کی خاموش زبان ہزارہا الفاظ کی شیرینی سے زیادہ بامعنی ہوتی ہے۔ آنکھوں کا احساس دیرپا اور دائمی سمجھا جاتا ہے۔ غصے سے گھورنا یا تنقیدی نظریں اپنا الگ انداز بیاں رکھتی ہیں۔
جھوٹ بولنے والے افراد آنکھوں میں براہ راست دیکھ کے بات نہیں کر سکتے۔ دیکھنے کا انداز،گفتگو کے دوران آنکھوں کا پھیلاؤ اور سکڑنا، آنکھ کی پتلی کا سائز، دیکھنے کا اور بھنوؤں کا انداز معنی رکھتا ہے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جو بات آپ سے کہی جا رہی ہے وہ کس حد تک سچ ہے۔ بعض اوقات لفظ بناوٹی ہوتے ہیں مگر آنکھوں کا سچ تمام تر راز کھول دیتا ہے۔ آواز کی اپنی الگ اہمیت ہے۔ لہجہ پس منظر، ثقافت، طبقہ وغیرہ بیان کرتا ہے۔ آواز کا اتار چڑھاؤ، مضبوطی، لرزنا اور ٹوٹنا بھی حال دل بیان کر دیتا ہے۔ اسکن کی خوشبو، زبان کا ذائقہ محسوس کرنے کی صلاحیت، جسم کا لمس وغیرہ بھی مختلف کیفیات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ہاتھ ملاتے ہوئے ہاتھ کا لمس بھی شخصیت کا ترجمان بن جاتا ہے۔ ہاتھوں کی نرمی، کھردرا پن، ہاتھ ملانے کا انداز آپ کو بتا دیتا ہے کہ ہاتھ ملانے والا آپ کا کس قدر دوست ہے۔ یا اس لمس میں احساس ملاحت، اپنائیت یا کس قدر رواداری ہے۔ گلے ملنے کا انداز بھی بعض اوقات بہت کچھ بتا دیتا ہے۔
ہاتھ یا گلے ملنے کی روایت جن معاشروں میں ہوتی ہے، وہاں رابطے مربوط اور تعلق میں اپنائیت پیدا ہو جاتی ہے۔ گلے ملنے کے دوران وہ لمس بھی بتا دیتا ہے کہ گلے ملنے والا اعصابی تناؤ کا کس قدر شکار ہے۔ جسم کا کھچاؤ اور تناؤ غرور، خودپسندی، بے لچک اورخودستائشی رویوں کو ظاہر کرتا ہے۔ جسم میں جتنی لچک کم ہوتی ہے کام اتنا ہی سست روی سے ہوپاتا ہے۔ جسم کی لچک اچھی صحت، خوش مزاجی، تعاون، فراخدلی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ انسان کے جسم کے اردگرد ایک ہالہ موجود رہتا ہے جسے ''اورا'' کہا جاتا ہے۔ یہ ذہن کی سوچ، احساس اور خیال کی لہروں پر مبنی ہوتا ہے۔ ہاتھ ملانے کے دوران یا گلے ملنے کے وقت یہ منفی و مثبت لہریں محسوس کی جا سکتی ہیں۔ احساس اور عمل اگر دیکھا جائے تو مکمل اعصابی نظام کا حصہ ہے۔ ذہن اور جسم کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہے تو انسان کی سوچ اور عمل میں ترتیب پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ ایک جامع موضوع ہے، جسے مختصر پیرائے میں بیان کرنا دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ انسان کی حقیقت ان علوم کی روشنی میں واضح ہو چکی۔ انسان کو سمجھنا اب مشکل مرحلہ نہیں رہا۔